اسلام آباد میں عورت مارچ پر پتھراؤ
پتھراؤ کے باعث مارچ کے شرکا اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
مونا خان نامہ نگار
@mona_qau
اتوار 8 مارچ 2020 17:30
یہ پتھراؤ مارچ کے اختتامی وقت پر کیا گیا جس سے چند خواتین کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ (ٹوئٹر)
اسلام آباد میں جاری عورت مارچ پر پتھراؤ شروع کر دیا گیا جس کے بعد شرکا وہاں سے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر اس سے پہلے بھی مارچ کے حامیوں اور مخالفین میں تند و تیز جملوں کا تبادلہ جاری تھا اور ایک دوسرے کی مخالفت میں شدید بیانات دیے جا رہے تھے۔
یہ پتھراؤ مارچ کے اختتامی وقت پر کیا گیا جس سے چند خواتین کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ مارچ میں شرکت کرنے والوں پر جوتے بھی پھینکے گئے۔
200 کے قریب پولیس اہلکار، چالیس خواتین اہلکار اور واٹر کینن بھی جائے وقوع پر موجود ہیں۔
خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر اسلام آباد میں چار ریلیوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ نے تمام ریلیوں کے راستے بھی الگ رکھے اور مقام بھی الگ الگ مختص کیے گئے تاکہ کسی قسم کی لڑائی نہ ہو لیکن شامیانے کے اُس جانب سے جامعہ حفضہ کے مجمعے کی جانب سے عورت آزادی مارچ پر پتھراؤ کیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق پتھراؤ کافی زیادہ کیا گیا جس سے کچھ شرکا زخمی بھی ہوئے ہیں۔ عورت مارچ کا شرکا نے شیم شیم کے نعرے لگائے اور شدید احتجاج کیا۔
قبل ازیں تینوں مذہبی جماعتوں کے مارچ میں نقاب پوش خواتین و بچیاں تھیں جنہوں نے اسلام میں خواتین کے حقوق و فرائض سے متعلق بینرز اٹھا رکھے تھے۔ جماعت اسلامی کی ریلی سے منسلک ایک خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم حیادار ہیں اس لیے ہم حیا مارچ کر رہے ہیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد کیوں؟ کیا وہ باقی گروہوں کو قائل نہیں کر سکتیں تھیں کہ ایک ساتھ خواتین کا عالمی دن منایا جاتا؟ انہوں نے جواب دیا کہ عورت آزادی مارچ خواتین کی بے جا آزادی کی نمائندگی ہے جو ہمارے شعائر میں نہیں ہے۔‘
جامعہ حفضہ کی طالبہ نے کہا کہ میرا جسم میری مرضی سے انہیں اختلاف ہے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس نعرے سے غلط مطلب نکلتا ہے۔
ان تمام معاملات پر جڑے سوالات جب خواتین مارچ میں شامل مرد و خواتین سے کیے گئے تو انہوں نے اُس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جو اُن کے بارے میں مشہور کر دیا گیا تھا۔ بہت سے ایسے بینرز تھے جو دیکھنے میں بولڈ تھے لیکن جب اُن سے پوچھا گیا کہ میرا جسم میری مرضی کیا ہے؟ تو عورت مارچ کی روح رواں عصمت شاہ جہاں نے کہا کہ ’میرا جسم میری مرضی کا مطلب ہے کہ میرا حق ہے میں اپنے جسم کو اپنی مرضی کے خلاف استعمال نہ ہونے دوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرا جسم تیری مرضی کہا جائے تو اس کا مطلب ریپ ہے اس لیے میرا جسم میری مرضی ہے رہے گا۔‘
کچھ شرکا نے عورت مارچ میں پشتون و بلوچ لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔ جب کہ ایک خاتون نے بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھاری خلیل الرحمن قمر کے حوالے سے لکھا تھا کہ دوٹکے کی عورت نہیں بلکہ تمہاری سوچ ہے۔
چودہ سالہ کرن نے بینر اٹھا رکھا تھا ’میری ذات میرا حق‘ اُن سے پوچھا گیا کہ اس کی وضاحت کریں تو انہوں نے کہا کہ ’میری ماما نے کہا ہے کہ میرا جسم میری مرضی متنازع ہے اس پر تُم میری ذات میرا حق لکھو جس سے واضح ہو کہ تمہاری ذات پر صرف تمہارا حق ہے۔‘
اس کے علاوہ کچھ بینرز خواتین کی ماہواری سے متعلق تھے اور کچھ بچہ دانی کے حوالے سے، جن میں لکھا تھا کہ مرد بھی یہی سے آئے ہیں۔ ’شرکا کا کہنا تھا یہ بینرز متنازع ہو سکتے ہیں لیکن یہ سچ ہے۔‘
عورت مارچ میں سرخ سلام اور انقلاب کے نعرے لگتے رہے جو اب سے کچھ عرصہ قبل انقلاب مارچ کے نعرے تھے۔
اسلام آباد مارچ میں ایک گرفتاری بھی ہوئی جب ایک شخص برقع پہن کر عورت مارچ کے مقام پر آنے کی کوشش کر رہا تھا تو پولیس نے پکڑ لیا اور حراست میں لے لیا۔