عدنان عمر
محفلین
آزادی نسواں کی تحریک اور عورت مارچ
تحریر: علی عبداللہ
7مارچ 2020
مغرب میں آزادی نسواں کے تین بنیادی مکاتب فکر موجود ہیں۔
1۔ انقلابی: جو پدرسری معاشرے (مرد کی حاکمیت والے معاشرے) کو عورت کے مظالم کا سبب قرار دیتے ہیں اور مرد کو عورت کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض اس قدر غالی ہیں، کہ ہم جنس پرست عورتوں کو ہی اصل انقلابی قرار دیتے ہیں جو مردوں سے کسی بھی قسم کے تعاون سے پرہیز کرتی ہیں۔
2۔ مارکسی و اشتراکی مکتبہ فکر:
یہ عورت پر ظلم کا ذمہ دار سرمایادارانہ معاشرے کو قرار دیتا ہے کیونکہ عورت کو گھریلو کردار کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا اس لیے وہ سرمایادارانہ معاشرہ کو ہی بدلنا حل سمجھتے ہیں۔
3۔ لبرل مکتب فکر:
یہ جمہوریت پسند ہیں اور انقلابی تبدیلیوں کی بجائے معاشرتی نظم کے تحت جمہوری طریقے کے مطابق کام کرتے ہیں اور مساوات مردوزن کے قائل ہیں۔
یہ تینوں مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ عورت مظلوم ہے لیکن ظلم کے اسباب کو متعین کرنے میں ان کا اختلاف ہے۔ کوئی اس ظلم کی وجہ عورت کی فطری جسمانی کمزوری کو قرار دیتا ہے، کوئی مردانہ معاشرے کو، کوئی قدیم کلچر کے رسوم و رواج یعنی عورت کا گھر بار سنبھالنے کو اصل سبب قرار دیتا ہے اور کوئی سرمایادارانہ معاشرے کو۔ کوئی اس ظلم کی وجہ عورت و مرد کے دائرہ کار کی تقسیم کو قرار دیتا ہے۔ اب ان مکاتب فکر کے مطابق عورت کے مسائل کے حل کے لیے خاندانی نظام کا خاتمہ ضروری قرار پاتا ہے لیکن وہ اس کے حل کے لیے مختلف تجاویز رکھتے ہیں، مثلاً ریاست بچوں کی اجتماعی کفالت کا بندوبست کرے، یا مرد و عورت مل کر گھر بار اور پرورش کے کام کو نصف و نصف سنبھال لیں، یا پیشہ ور والدین کی خدمات حاصل کی جائیں وغیرہ۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہو گا کہ پہلے پہل مغربی عورت کا زیادہ کردار گھریلو نوعیت کا ہوتا تھا اور مرد کا زیادہ کردار ذریعہ معاش پر توجہ تھا۔ لیکن یورپ کی کچھ تحاریک، روشن خیالی کی تحریک، اصلاح مذہب کی تحریک، انقلاب فرانس، صنعتی انقلاب اور صنعتی معاشرے کے قیام نے عورت کے کردار کو بدل ڈالا۔ عورت کو باور کروایا گیا کہ اس کے بھی حقوق ہیں اور بیسویں صدی میں یہ جدوجہد تیز ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں مردوعورت کی مساوات، عورتوں کا معاشی استقلال اور مردوزن کا آزادانہ اختلاط جیسی باتیں مغربی معاشرے کا طرہ امتیاز بنیں۔ اسی ضمن میں ان کا ایجنڈا اقوام متحدہ سے منظور کروایا گیا اور 1979 میں حقوق نسواں کی مخصوص دستاویز پاس ہوئی جس پر اولاً چند مسلم ممالک نے دستخط کیے لیکن بعد میں غالباً 1995 میں خواتین کی عالمی کانفرنس کے بعد اکثر مسلم ممالک بھی اس ایجنڈے پر متفق ہوتے چلے گئے۔ چونکہ مغرب میں اس تحریک کے نتیجے میں خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، شادیاں ختم ہوئیں، طلاقیں عام ہوئیں، عورت مرد کے طبقے میں باہمی نفرت عام ہوئی اور عورت و مرد جو ایک دوسرے کے فطری حلیف اور معاون تھے وہ ایک دوسرے کے حریف بن گئے۔ نتیجتاً عورتوں میں یہ ذہنیت عام ہوئی کہ وہ مردوں کے بغیر زندگی گزار سکتی ہیں، لہذا مسلم ممالک میں بھی برسراقتدار یا طاقتور طبقہ اس ایجنڈے کی تکمیل میں سرگرم رہا جس سے زیادہ تر ترقی پذیر مسلم ممالک متاثر ہوئے۔
ترقی یافتہ مسلم ممالک نے کسی طرح اس ایجنڈے پر مخصوص طریقے سے عمل کر کے اندرونی خلفشار اور خواتین کو بے قابو ہونے سے کسی حد بچانے میں کامیابی حاصل کی اور ان ممالک میں یوں ہڑبونگ نہ مچی جیسا ہمارے یہاں ہو رہا ہے۔ عورت اپنی آزادی کی خاطر (گو کہ اسلام کی رو سے وہ آزاد ہے اور اس کے باقاعدہ حقوق موجود ہیں) ایسی ایسی تنظیموں، میڈیائی جتھوں، اور نظریاتی ٹھگوں کے ہاتھ چڑھی کہ وہ اپنے حقیقی حقوق مانگنا ہی بھول گئی بلکہ وہی مطالبات ان کی نظر میں اہم ٹھہرنے لگے جو پہلے ہی مغرب میں تباہی لا کر خاندانی نظام کو تباہ کر چکے تھے۔ بھلا ہو مغربی تھنک ٹینکوں کا، جنہوں نے اس تباہی کو خوبصورت اور دلکش رنگوں میں رنگ کر مشرقی ذہن کو ورغلایا اور ایسا ورغلایا کہ پھر ان کے اپنے چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی۔
حالنکہ صنعتی انقلاب کے بعد جو کچھ حقوق نسواں کے نام پر عورت کے ساتھ ہوا اس بارے خود مغربی عورت نوحہ کناں ہے۔ یورپی مصنفہ “انی روڈ” کہتی ہیں کہ،
“جب ہماری بیٹیاں گھروں کے اندر غلاموں کی طرح کام کرتی ہیں تو یہ زیادہ بہتر ہوتا ہے بنسبت یہ کہ وہ فیکٹریوں میں مشغول ہوں، مصائب میں مبتلا ہوں اور ایسی غلاظت میں ملوث ہوں جو ان کی زندگی کی رونق کو ہمیشہ کے لیے لے جائے۔”
پھر یہی مصنفہ کہتیں ہیں کہ
“کاش ہمارے شہر مسلمانوں کے شہروں کی طرح ہوتے اور ہماری عورتوں کی حیا اور پاکیزگی ویسے ہوتی جیسے مسلمانوں کی لونڈیوں اور خادموں کی ہوتی تھی۔ مسلمانوں کی عورتیں حتی کہ خادمائیں بہترین زندگی کے مزے لوٹتیں۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ہماری بیٹیاں اپنی طبعی فطرت کے مطابق کام کاج کریں جیسا کہ آسمانی ادیان کا طریقہ کار ہے اور مردوں والے کام مردوں کے سپرد کیے جائیں تاکہ عورت کا شرف محفوظ کیا جاسکے۔”
مغربی حوالے دے کر عورت کو میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگوانے والے انی روڈز جیسی خواتین کو کیوں سامنے نہیں لاتے۔ عورت مارچ، عورت کی آزادی، میرا جسم میری مرضی اور اس جیسے کئی دیگر قبیح نعرے لگانے کی بجائے اگر عقل مندی سے اسلامی احکامات پر نظردوڑا لی جائے اور صرف سورہ النساء اور سورہ النور ہی سمجھ لی جائے تو عورت مارچ کا اصل مغربی ایجنڈا جو کہ خاندانی نظام تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، خود بخود منہ کے بل آن گرے گا۔ لیکن اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور میرا جسم میری مرضی کے نشہ آور ٹیکے مشرقی عورت کو لگتے رہے تو یقیناً اس کا نتیجہ یہی ہو گا جو یورپ میں ہوا۔ خاندانی نظام برباد ہو گا، عورت ایک شخصیت کی بجائے پروڈکٹ اور استعمال کی چیز بنے گی اور پھر بدلے میں بچوں کی ناقص تربیت، نوجوانوں کے انحرافات، فطرت کا فساد اور عقلی اور اعصابی امراض جیسے مسائل ہمارا مقدر بن جائیں گے۔
لہذا یہ آنکھیں کھولنے کا وقت ہے اور عورت کو عزت دینے کا وقت ہے۔ انہیں حکمت سے سمجھانے اور باور کرنے کی ضرورت ہے کہ عورت کی عزت، عورت مارچ میں نہیں بلکہ یورپی ایجنڈے پر عمل نہ کر کے مکمل اسلامی تہذیب و ثقافت کو اپنانے میں ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مغرب میں بیچاری مسلم عورت حجاب اور اسلامی روایات کے لیے مارچ کر رہی ہے، جبکہ ہمارے اسلامی معاشرے میں عورت حجاب کو بوجھ سمجھ کر اتارنے اور اپنے جسم کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کے لیے مارچ کر رہی ہے۔ کاش وہ “مارلن منرو” کی خودکشی کیے جانے سے پہلے لکھی گئی تحریر ہی پڑھ کر عبرت حاصل کر لیں جو اس نے خواتین کے لیے لکھی تھی۔ اس نے لکھا،
“شہرت سے بچو…. گلیمر کی دنیا سے بچو….. میں روئے زمین پر سب سے زیادہ بدنصیب عورت ہوں…… میں ماں نہ بن سکی….. میں ایسی عورت ہوں جو گھر بار کو ترجیح دیتی ہوں….. معزز خاندانی زندگی ہر چیز سے افضل ہے….. عورت کی حقیقی سعادت پاکیزہ شریف خاندانی زندگی میں ہے بلکہ یہ گھریلو زندگی عورت کی ہی سعادت نہیں بلکہ تمام انسانیت کی سعادت ہے”
تحریر: علی عبداللہ
7مارچ 2020
مغرب میں آزادی نسواں کے تین بنیادی مکاتب فکر موجود ہیں۔
1۔ انقلابی: جو پدرسری معاشرے (مرد کی حاکمیت والے معاشرے) کو عورت کے مظالم کا سبب قرار دیتے ہیں اور مرد کو عورت کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض اس قدر غالی ہیں، کہ ہم جنس پرست عورتوں کو ہی اصل انقلابی قرار دیتے ہیں جو مردوں سے کسی بھی قسم کے تعاون سے پرہیز کرتی ہیں۔
2۔ مارکسی و اشتراکی مکتبہ فکر:
یہ عورت پر ظلم کا ذمہ دار سرمایادارانہ معاشرے کو قرار دیتا ہے کیونکہ عورت کو گھریلو کردار کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا اس لیے وہ سرمایادارانہ معاشرہ کو ہی بدلنا حل سمجھتے ہیں۔
3۔ لبرل مکتب فکر:
یہ جمہوریت پسند ہیں اور انقلابی تبدیلیوں کی بجائے معاشرتی نظم کے تحت جمہوری طریقے کے مطابق کام کرتے ہیں اور مساوات مردوزن کے قائل ہیں۔
یہ تینوں مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ عورت مظلوم ہے لیکن ظلم کے اسباب کو متعین کرنے میں ان کا اختلاف ہے۔ کوئی اس ظلم کی وجہ عورت کی فطری جسمانی کمزوری کو قرار دیتا ہے، کوئی مردانہ معاشرے کو، کوئی قدیم کلچر کے رسوم و رواج یعنی عورت کا گھر بار سنبھالنے کو اصل سبب قرار دیتا ہے اور کوئی سرمایادارانہ معاشرے کو۔ کوئی اس ظلم کی وجہ عورت و مرد کے دائرہ کار کی تقسیم کو قرار دیتا ہے۔ اب ان مکاتب فکر کے مطابق عورت کے مسائل کے حل کے لیے خاندانی نظام کا خاتمہ ضروری قرار پاتا ہے لیکن وہ اس کے حل کے لیے مختلف تجاویز رکھتے ہیں، مثلاً ریاست بچوں کی اجتماعی کفالت کا بندوبست کرے، یا مرد و عورت مل کر گھر بار اور پرورش کے کام کو نصف و نصف سنبھال لیں، یا پیشہ ور والدین کی خدمات حاصل کی جائیں وغیرہ۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہو گا کہ پہلے پہل مغربی عورت کا زیادہ کردار گھریلو نوعیت کا ہوتا تھا اور مرد کا زیادہ کردار ذریعہ معاش پر توجہ تھا۔ لیکن یورپ کی کچھ تحاریک، روشن خیالی کی تحریک، اصلاح مذہب کی تحریک، انقلاب فرانس، صنعتی انقلاب اور صنعتی معاشرے کے قیام نے عورت کے کردار کو بدل ڈالا۔ عورت کو باور کروایا گیا کہ اس کے بھی حقوق ہیں اور بیسویں صدی میں یہ جدوجہد تیز ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں مردوعورت کی مساوات، عورتوں کا معاشی استقلال اور مردوزن کا آزادانہ اختلاط جیسی باتیں مغربی معاشرے کا طرہ امتیاز بنیں۔ اسی ضمن میں ان کا ایجنڈا اقوام متحدہ سے منظور کروایا گیا اور 1979 میں حقوق نسواں کی مخصوص دستاویز پاس ہوئی جس پر اولاً چند مسلم ممالک نے دستخط کیے لیکن بعد میں غالباً 1995 میں خواتین کی عالمی کانفرنس کے بعد اکثر مسلم ممالک بھی اس ایجنڈے پر متفق ہوتے چلے گئے۔ چونکہ مغرب میں اس تحریک کے نتیجے میں خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، شادیاں ختم ہوئیں، طلاقیں عام ہوئیں، عورت مرد کے طبقے میں باہمی نفرت عام ہوئی اور عورت و مرد جو ایک دوسرے کے فطری حلیف اور معاون تھے وہ ایک دوسرے کے حریف بن گئے۔ نتیجتاً عورتوں میں یہ ذہنیت عام ہوئی کہ وہ مردوں کے بغیر زندگی گزار سکتی ہیں، لہذا مسلم ممالک میں بھی برسراقتدار یا طاقتور طبقہ اس ایجنڈے کی تکمیل میں سرگرم رہا جس سے زیادہ تر ترقی پذیر مسلم ممالک متاثر ہوئے۔
ترقی یافتہ مسلم ممالک نے کسی طرح اس ایجنڈے پر مخصوص طریقے سے عمل کر کے اندرونی خلفشار اور خواتین کو بے قابو ہونے سے کسی حد بچانے میں کامیابی حاصل کی اور ان ممالک میں یوں ہڑبونگ نہ مچی جیسا ہمارے یہاں ہو رہا ہے۔ عورت اپنی آزادی کی خاطر (گو کہ اسلام کی رو سے وہ آزاد ہے اور اس کے باقاعدہ حقوق موجود ہیں) ایسی ایسی تنظیموں، میڈیائی جتھوں، اور نظریاتی ٹھگوں کے ہاتھ چڑھی کہ وہ اپنے حقیقی حقوق مانگنا ہی بھول گئی بلکہ وہی مطالبات ان کی نظر میں اہم ٹھہرنے لگے جو پہلے ہی مغرب میں تباہی لا کر خاندانی نظام کو تباہ کر چکے تھے۔ بھلا ہو مغربی تھنک ٹینکوں کا، جنہوں نے اس تباہی کو خوبصورت اور دلکش رنگوں میں رنگ کر مشرقی ذہن کو ورغلایا اور ایسا ورغلایا کہ پھر ان کے اپنے چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی۔
حالنکہ صنعتی انقلاب کے بعد جو کچھ حقوق نسواں کے نام پر عورت کے ساتھ ہوا اس بارے خود مغربی عورت نوحہ کناں ہے۔ یورپی مصنفہ “انی روڈ” کہتی ہیں کہ،
“جب ہماری بیٹیاں گھروں کے اندر غلاموں کی طرح کام کرتی ہیں تو یہ زیادہ بہتر ہوتا ہے بنسبت یہ کہ وہ فیکٹریوں میں مشغول ہوں، مصائب میں مبتلا ہوں اور ایسی غلاظت میں ملوث ہوں جو ان کی زندگی کی رونق کو ہمیشہ کے لیے لے جائے۔”
پھر یہی مصنفہ کہتیں ہیں کہ
“کاش ہمارے شہر مسلمانوں کے شہروں کی طرح ہوتے اور ہماری عورتوں کی حیا اور پاکیزگی ویسے ہوتی جیسے مسلمانوں کی لونڈیوں اور خادموں کی ہوتی تھی۔ مسلمانوں کی عورتیں حتی کہ خادمائیں بہترین زندگی کے مزے لوٹتیں۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ہماری بیٹیاں اپنی طبعی فطرت کے مطابق کام کاج کریں جیسا کہ آسمانی ادیان کا طریقہ کار ہے اور مردوں والے کام مردوں کے سپرد کیے جائیں تاکہ عورت کا شرف محفوظ کیا جاسکے۔”
مغربی حوالے دے کر عورت کو میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگوانے والے انی روڈز جیسی خواتین کو کیوں سامنے نہیں لاتے۔ عورت مارچ، عورت کی آزادی، میرا جسم میری مرضی اور اس جیسے کئی دیگر قبیح نعرے لگانے کی بجائے اگر عقل مندی سے اسلامی احکامات پر نظردوڑا لی جائے اور صرف سورہ النساء اور سورہ النور ہی سمجھ لی جائے تو عورت مارچ کا اصل مغربی ایجنڈا جو کہ خاندانی نظام تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، خود بخود منہ کے بل آن گرے گا۔ لیکن اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور میرا جسم میری مرضی کے نشہ آور ٹیکے مشرقی عورت کو لگتے رہے تو یقیناً اس کا نتیجہ یہی ہو گا جو یورپ میں ہوا۔ خاندانی نظام برباد ہو گا، عورت ایک شخصیت کی بجائے پروڈکٹ اور استعمال کی چیز بنے گی اور پھر بدلے میں بچوں کی ناقص تربیت، نوجوانوں کے انحرافات، فطرت کا فساد اور عقلی اور اعصابی امراض جیسے مسائل ہمارا مقدر بن جائیں گے۔
لہذا یہ آنکھیں کھولنے کا وقت ہے اور عورت کو عزت دینے کا وقت ہے۔ انہیں حکمت سے سمجھانے اور باور کرنے کی ضرورت ہے کہ عورت کی عزت، عورت مارچ میں نہیں بلکہ یورپی ایجنڈے پر عمل نہ کر کے مکمل اسلامی تہذیب و ثقافت کو اپنانے میں ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مغرب میں بیچاری مسلم عورت حجاب اور اسلامی روایات کے لیے مارچ کر رہی ہے، جبکہ ہمارے اسلامی معاشرے میں عورت حجاب کو بوجھ سمجھ کر اتارنے اور اپنے جسم کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کے لیے مارچ کر رہی ہے۔ کاش وہ “مارلن منرو” کی خودکشی کیے جانے سے پہلے لکھی گئی تحریر ہی پڑھ کر عبرت حاصل کر لیں جو اس نے خواتین کے لیے لکھی تھی۔ اس نے لکھا،
“شہرت سے بچو…. گلیمر کی دنیا سے بچو….. میں روئے زمین پر سب سے زیادہ بدنصیب عورت ہوں…… میں ماں نہ بن سکی….. میں ایسی عورت ہوں جو گھر بار کو ترجیح دیتی ہوں….. معزز خاندانی زندگی ہر چیز سے افضل ہے….. عورت کی حقیقی سعادت پاکیزہ شریف خاندانی زندگی میں ہے بلکہ یہ گھریلو زندگی عورت کی ہی سعادت نہیں بلکہ تمام انسانیت کی سعادت ہے”