خلیل الرحمان قمرنے ٹی وی پر براہ راست ماروی سرمد کو گالی دیدی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
خلیل صاحب کا موقف ان کی بدزبانی کی نذر ہو گیا۔ جب وہ مناسب لفظوں میں اپنا مدعا بیان فرمائیں گے، تو ان کی بات کو کوئی زیر غور بھی لائے گا۔ انہوں نے ماروی سرمد کی بطور ایک عورت تحقیر کی اور حتیٰ کہ ان کی شکل صورت تک کا مذاق اڑایا۔ تنقید اور تحقیر و تضحیک میں فرق ہوتا ہے۔ تنقید تو ہم بھی کریں گے کہ یہ نعرے کیا ہیں! اصل ایشوز پر آئیں کہ کیا ہم گھریلو تشدد، جاب پر ہراسگی، وراثتی حق سے خواتین کی محرومی وغیرہ جیسے ایشوز کے حوالے سے ان کی مدد و اعانت کے لیے تیار ہیں اور ان ایشوز پر بھی سبھی خواتین کو اور مردوں کو بات بھی کرنی چاہیے۔
موقف تو علحدہ بات ہے مگر ماروی جیسے لوگ جو پہلے دوسروں کو اشتعال دلاتے ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
 
اسی طرح جب فردوس عاشق اعوان نے کشمالہ طارق کو برا بھلا کہا، تو میری ذاتی رائے میں اسی نے نامعقول رویہ میں پہل کی۔ پہلے استہزائیہ انداز میں ہنسو اور جب دوسرا مزید نا معقولیت اختیار کرے تو معصوم بن جاؤ۔ مہذب مکالمہ کے دوران اگر کوئی آپ پہ ذاتی حملہ کرے تو غلط ہے مگر خود دوسروں کو اشتعال مت دلائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جناب جاسم محمد صاحب
آپ مدیر ہیں۔
جناب جاسم محمد صاحب، آپ کو 'مدارت' مبارک ہو۔ :)

ویسے خدانخواستہ یہ سانحہ دل خراش کب وقوع پذیر ہوگیا؟؟؟
:nailbiting::nailbiting::nailbiting:
یا اللہ رحم۔ ہم تو خود مدارت سے بہت دور بھاگتے ہیں، کجا یہ کہ الٹا ہمیں ہی پکڑ کر مدیر بنا دیا جائے :)
 

سید عمران

محفلین
یا اللہ رحم۔ ہم تو خود مدارت سے بہت دور بھاگتے ہیں، کجا یہ کہ الٹا ہمیں ہی پکڑ کر مدیر بنا دیا جائے :)
وارث بھائی نے تو مزاحاً یہ لفظ لکھا تھا۔۔۔
آپ بھی دے دھنا دھن بس کاپی پیسٹ مارتے جانا!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
چلو جی قصہ مختصر۔۔۔
عورت مارچ میں یہ صاحب بھی میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا کر شامل ہونے آرہے ہیں!!!

Whats-App-Image-2020-03-06-at-4-36-50-PM.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
اب اس مارچ کے حقیقی مقاصد میں شامل ایجنڈے کے نقاط پر بھی کچھ اظہار خیال ہونا چاہیئے کہ یہ تو معلوم ہو کہ ہمارے معاشرے میں تفریق کی بنیاد اور اسباب کا اصل منبع کیا ہے !
عورت مارچ ایک عرصہ دراز سے یہاں مغرب میں ہو رہا ہے۔ اس حقوق نسواں مارچ کا فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ البتہ پاکستان میں جب یہ مارچ پچھلے سال پہلی بار ہوا تو بعض انتہا پسند لبرل خواتین نے اس میں متنازعہ پلے کارڈز اٹھا کر اسے خود ہی بدنام کر دیا۔ یوں اس عورت مارچ کا جو اصل مقصد تھا وہ کہیں کھو گیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عورت مارچ ایک عرصہ دراز سے یہاں مغرب میں ہو رہا ہے۔ ۔

ویری گڈ ۔ گویا مغرب میں بھی آج کی عورت کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں ۔ خیر فی الحال یہ موضوع نہیں اس پر کسی اور دھاگے میں بات ہو تو اچھا ہےجس کا موضوع ایک مغربی ماحول میں عورت کے مقام ہو۔

عورت مارچ ایک عرصہ دراز سے یہاں مغرب میں ہو رہا ہے۔ اس حقوق نسواں مارچ کا فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ البتہ پاکستان میں جب یہ مارچ پچھلے سال پہلی بار ہوا تو بعض انتہا پسند خواتین نے اس میں متنازعہ پلے کارڈز اٹھا کر بدنام کر دیا۔ اس مارچ کا جو اصل مقصد وہ کہیں کھو گیا ہے۔
اب آئیے اپنے معاشرے پر جو اپنا موضوع ہے ۔

ہماری محفل میں اکثر دھاگے کسی خبر پر شروع ہوتے ہیں اور جس طرح پاک میڈیا خبر کو چیونگ گم کی طرح چبا چبا کر کیش کرتا ہے ، ہم بھی اسی راہ پر چلنے لگتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم موضوعات کو زیر بحث لائیں خواہ اس کا محرک کوئی خبر ہی کیوں نہ ہو۔

سو اب اگر حقوق کی بات ہے تو اس مارچ کے مقاصد میں سے کچھ نہ کچھ نقاط ایسے ہوں گے جو ہماری معاشرتی اقدار سے یقینا متصادم نہیں ہوں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے متنوع روایات کے مجموعی معاشرے میں ایسی روایات ضرور موجود ہیں جن کی بیخ کنی کی واقعی ضرورت ہے اور وہ ہر صورت میں لڑکی پر ظلم کی شکل ہیں ۔ کچھ مراسلوں میں ( جیسے جاسمن بہن کا ایک مراسلہ ) اس کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
اب جب ہم اس مارچ کے تناظر میں وطن عزیز کی فضاؤں میں ایک شدید مزاحمتی ردعمل دیکھتے ہیں تو یقینا یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس مارچ کے خلاف ردعمل کی بھی کوئی نہ کوئی ٹھوس بنیاد ضرور ہے جو معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کو تیار ہے۔ اسی مزاحمتی شکل کو جب ہم مارچ کے پلے کارڈ ، اس کی تقریریں اور متعلقہ مواد سے موازنہ کریں تو بہت سے خدشات کی تصدیق یا تکذیب ہوتی نظر آئے گی ۔
اس کا تجزیہ ہمیں یقینا کسی اچھے نتیجے پر پہنچا سکے گا۔اور اگر اس مارچ کا کوئی ہِڈن ایجنڈا ہو تو اس سے نبرد آزما ہونے کی حکمت عملی وضع کرنے کا موقع بھی ملے گا۔
سو میرا نقطہء نظر یہ ہے کہ اس کے نقاط کو زیر بحث لایا جائے اور اس کا تجزیہ پیش کیا جائے تاکہ متعلقہ نقطہ ہائے نظر سامنے آسکیں ۔
 
آخری تدوین:
عورت مارچ ایک عرصہ دراز سے یہاں مغرب میں ہو رہا ہے۔ اس حقوق نسواں مارچ کا فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ البتہ پاکستان میں جب یہ مارچ پچھلے سال پہلی بار ہوا تو بعض انتہا پسند لبرل خواتین نے اس میں متنازعہ پلے کارڈز اٹھا کر اسے خود ہی بدنام کر دیا۔ یوں اس عورت مارچ کا جو اصل مقصد تھا وہ کہیں کھو گیا ہے۔
مغرب میں جو عورت مارچ ہو رہا ہے اس کا نعرہ بھی یہی ہے، مائی باڈی مائی چوائس ۔ جو کہ ابارشن کے اختیار کی آزادی ہے۔
یہ پرانا نعرہ ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھا اسکرپٹ لکھتے ہیں خلیل الرحمٰن قمر صاحب، اور ہِٹ بھی ہوتا ہے ان کا اسکرپٹ!

سو اس بار بھی ہِٹ ہوا۔ ماروی صاحبہ نے بھی اپنے جملوں کی ادائیگی خوب کی۔

زبردست!!!
 

جاسم محمد

محفلین
اب جب ہم اس مارچ کے تناظر میں وطن عزیز کی فضاؤں میں ایک شدید مزاحمتی ردعمل دیکھتے ہیں تو یقینا یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس مارچ کے خلاف ردعمل کی بھی کوئی نہ کوئی ٹھوس بنیاد ضرور ہے جو معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کو تیار ہے۔ اسی مزاحمتی شکل کو جب ہم مارچ کے پلے کارڈ ، اس کی تقریریں اور متعلقہ مواد سے موازنہ کریں تو بہت سے خدشات کی تصدیق یا تکذیب ہوتی نظر آئے گی ۔
مغرب میں جو عورت مارچ ہو رہا ہے اس کا نعرہ بھی یہی ہے، مائی باڈی مائی چوائس ۔ جو کہ ابارشن کے اختیار کی آزادی ہے۔
یہ پرانا نعرہ ہے۔
مختلف مغربی ممالک میں عورت مارچ خواتین کے عالمی دن ۸ مارچ کی مناسبت سے ایک صدی سے زائد عرصہ سے منعقد ہو رہے ہیں۔ معلوم نہیں عورتوں کے حقوق کیلئے نکالے جانے والی یہ ریلیاں سازش کیسے ہو سکتی ہیں؟ چونکہ خواتین کسی بھی ملک کی آبادی میں عددی اکثریت رکھتی ہیں۔ تو کیا ان کو سال میں ایک بار بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے؟
793-B0954-5-BC1-432-B-B641-5-E1-A9-C2-F82-A5.jpg

۱۹۱۷، روس میں عورت مارچ
 

جاسم محمد

محفلین
کیا ان 103 سال میں انہیں کچھ حقوق حاصل نہیں ہوئے ؟
کیا یہ آج کے ماحول بھی استحصال کا شکار ہیں ؟
کیوں نہیں۔ عورت مارچ سے قبل مغربی خواتین مردوں کی رکھیل تھیں۔ ان کو ووٹ ڈالنے، تعلیم حاصل کرنے، کام کاج، اپنی مرضی کی شادی سے روکا جاتا تھا۔ ان منظم احتجاجوں کے سو سال بعد آج مغربی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ معاشرہ سے صنفی تعصب دور ہو جانے سے مغربی ممالک نے تیزی سے معاشی، سماجی اور اخلاقی ترقی کی ہے۔ ظاہر ہے جن ممالک میں آدھی آبادی پر باقی کی آدھی آبادی حاوی نہیں ہوتی وہ کیونکر ترقی نہ کریں گے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیوں نہیں۔ عورت مارچ سے قبل مغربی خواتین مردوں کی رکھیل تھیں۔ ان کو ووٹ ڈالنے، تعلیم حاصل کرنے، کام کاج سے روکا جاتا تھا۔ ان منظم احتجاجوں کے سو سال بعد آج مغربی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ صنفی تعصب دور ہو جانے سے مغربی ممالک نے تیزی سے معاشی، سماجی اور اخلاقی ترقی کی ہے۔ ظاہر ہے جن ممالک میں آدھی آبادی پر باقی کی آدھی آبادی حاوی نہیں ہوتی وہ کیونکر ترقی نہ کریں گے؟
یہ مقاصد حاصل ہونے ک بعد آج بھی احتجاج وغیرہ ؟ ؟
کیا یہ مارچ اس کی سالگرہ ہیں ؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ مقاصد حاصل ہونے ک بعد آج بھی احتجاج وغیرہ ؟ ؟
کیا یہ مارچ اس کی سالگرہ ہیں ؟
صنفی برابری کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ گو کہ مغربی خواتین کو اب بہت سے حق حقوق حاصل ہو گئے ہیں جن کا سو سال قبل کی مغربی عورت تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ البتہ آج بھی خواتین کو ایک جیسے کام کی مردوں سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ طلاق یا سیپریشن کے بعد مرد بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ٹھیک سے نہیں اٹھاتا۔ اور اس جیسے سے بہت سے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ بہرحال مغربی عورت آج مشرقی عورت سے کہیں زیادہ خودمختار ہو چکی ہے۔
 

زیک

مسافر
پاکستان کی سڑکوں پر خواتین کے حق میں نکالی جانے والی ریلی اگر واقعی عورتوں کے حق میں ہوتی تو اس میں آویزاں کئے گئے پلے کارڈ جس پر لکھا تھا(( میرا جسم میری مرضی))(( میں آزاد ہوں)) کی بجائے ان پلے کارڈز پر درج ذیل نعرے تحریر ہوتے تو نہ صرف معاشرہ انکے اس عمل کا سراہتا بلکہ قوم اور ملک کی عزت میں بھی اضافہ کا سبب بنتیں۔

1."مُجھے وراثت میں حصہ دو "

2. "تعلیم میرا حق ہے"

3. "گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہا تھ بٹانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سُنّت ہے. "

4. "بہترین مُسلمان وہ ہوتا ہے جو عورتوں کیساتھ اچھائی سے پیش آتا ہے. "

5." مومن مردوں اپنی آنکھیں نیچی رکھو. "

6. "عورت نہ صرف مرد کی بلکہ ریاست کی بھی ذمّہ داری ہے. "

7. "بآعزت روزگار ہر عورت کا بُنیادی حق ہے. "

8."ماں کے قدموں تلے جنّت ہے. "

9. "بیٹیوں کو اچھی تعلیم اور تربیت دینے والا مرد جنّت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کا ساتھی ہے. "

10. "قیامت کے دِن تُم سے عورتوں کے حقوق بارے پوچھ گچھ ہوگی. "

11. "بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں. "

12۔ ہمارا احترام سوسائٹی پر فرض ہے۔

13۔لڑکیوں کی اچھی تربیت جنت کی ضمانت ہے۔

14۔ ہم مائیں بہنیں بیٹیاں قوموں کی عزت ہم سے ہے۔

15۔ ہم شو کیس میں رکھے کھلونے یا مارکیٹ میں بکنے والی کوئی چیز یا ٹی وی پر چلنے والا اشتہار نہی بلکہ اک قابل عزت زندہ جیتی جاگتی حقیقت ہیں۔۔
لگتا ہے کسی نے نہ عورت مارچ دیکھا نہ مارچ منتظمین کی پریس کانفرنس سنی۔ صرف سنسنی خیز خبروں پر اکتفا کیا
 

زیک

مسافر
سو اب اگر حقوق کی بات ہے تو اس مارچ کے مقاصد میں سے کچھ نہ کچھ نقاط ایسے ہوں گے جو ہماری معاشرتی اقدار سے یقینا متصادم نہیں ہوں گے ۔
عورت مارچ لاہور اور کراچی کے ٹوئٹر اکاؤنٹس ہی دیکھ لیں تو شاید آپ کی معلومات میں اضافہ ہو
 

زیک

مسافر
اب جب ہم اس مارچ کے تناظر میں وطن عزیز کی فضاؤں میں ایک شدید مزاحمتی ردعمل دیکھتے ہیں تو یقینا یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس مارچ کے خلاف ردعمل کی بھی کوئی نہ کوئی ٹھوس بنیاد ضرور ہے جو معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کو تیار ہے۔
انیسویں صدی میں آدھے امریکہ نے غلامی کو کنٹرول کرنے کے معاملے پر بغاوت کر کے الگ ملک بنانے کی کوشش کی تھی۔ کیا اسے بھی ٹھوس بنیاد کہا جا سکتا ہے؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top