میرا جسم، میر ی مرضی: ایک بنیادی حق
06/03/2020 نعیم مرزا
8 مارچ 2019 کو عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر دیگر شہروں کے علاوہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں عورت آزادی مارچ کے نام سے جو جلوس نکالے گئے وہ گذشتہ برسوں کی نسبت کئی لحاظ سے مختلف تھے۔ ان جلوسوں میں دیگر معمول کے نعروں اور پوسٹروں کے علاوہ چند نعرے پوسٹروں کی شکل میں ایسے بھی سامنے آئے، جن پر اس وقت بعض حلقوں کی جانب سے شدید مخالفانہ اور جارحانہ ردعمل سامنے آیا۔ اب 2020 کے 8 مارچ کے موقع پر یہ بحث پھر چھڑ گئی ہے۔ ایک نعرہ جو سب سے زیادہ متنازع بنا، وہ ہے: ‘میرا جسم، میری مرضی’۔ لہذا اس پر سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس بات پرہمارے ہاں 2019-2020 میں اتنا ہنگامہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ پدر سری کے آغاز اور عورت کی محکومیت کے سوال کے ضمن میں صدیوں سے جاری بحث کا بنیادی نکتہ ہے۔ لیکن اس سوال کو بار بار پس پشت ڈالا جاتا رہا، اس لئے کہ یہ تصور مرد کی ایسی اتھارٹی کو چیلنج کرتا ہے، جس پر پدر سری کی ساری عمارت کھڑی ہے۔
ان جلوسوں میں کچھ اور بھی نعرے تھے، جن کا مفہوم اسی بنیادی موضوع سے اخذ تھا، جس کے تناظر میں ‘میرا جسم، میری مرضی’ کا نعرہ بلند کیا گیا تھا۔ ہماری بحث اس مضمون میں اسی کے گرد رہے گی کیونکہ ایک تو یہ پاکستان میں عوامی سطح پر، یعنی جلسے جلوس میں، پہلی بار اٹھایا گیا ہے، اور دوسرے یہ ایک سنجیدہ اور بنیادی مطالبہ ہے۔ میرے خیال میں اسے عورتوں کی طرف سے وسیع حمایت بھی حاصل ہے۔ اس نعرے کو وسیع حمایت حاصل ہے، اس کا ایک اشارہ تو یہ ہے کہ گذشتہ 8 مارچ 2019 کے جلوسوں یا ریلیوں میں شرکاء کی تعداد گذشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ ان میں بڑی تعداد میں نوجوان طبقے، ورکنگ ویمن، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات، سیاسی جماعتوں کی خواتین، خصوصی افراد، خواجہ سرا افراد اور مذہبی اقلیتوں کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں اور لڑکیاں شامل تھیں۔ ان جلوسوں میں مردوں اور لڑکوں نے بھی شرکت کی۔ ان جلوسوں میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے اراکین کی تعداد حسب معمول تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ان جلوسوں میں بڑی تعداد عام شہری عورتوں کی تھی۔ عورتوں میں بڑا جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ یوں گذشتہ 8 مارچ کے ’عورت آزادی مارچ‘ تعداد، جوش و جذبے اور نئے پیغامات کے حوالے سے بے مثال تھے۔
شرکاء میں نوجوان طبقے کی شمولیت، نیا جوش و خروش، نئے خیالات اور نئے نعرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان میں ایک نئی لہر کا آغاز ہوا ہے، یا یہ کہہ لیں کہ اس کا عوامی سطح پر بھرپور اظہار ہوا ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ معاشرہ کسی نئے سانچے میں ڈھلنے کے لئے بے قرار ہے۔ فرسودہ تصورات اور مفروضے دم توڑ رہے ہیں، نئے پیغامات، نئے محاورے، نئی زبان اور نئی اقدار جنم لے رہی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اسے پاکستان میں ‘فیمنزم کی نئی لہر’ بھی کہا جا سکتا ہے، اگر یہ کہنا قبل از وقت نہیں ہے تو۔ تاہم، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ گذشتہ برس 8 مارچ کی عورتوں کی ریلیوں نے پاکستان کی فیمنسٹ تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
فیمنزم کے مختلف مکاتیب فکر میں دو باتیں مشترک اور بنیادی نوعیت کی ہیں: اولاً، پدرسری معاشرے میں موجود مرد مرکزیت کے اصول اور اس کی لازمی حیثیت کی نفی اور اس کا خاتمہ۔ اس کے نتیجے میں کسی ایک جنس کو دوسری پر فوقیت حاصل نہیں ہو گی۔ دوئم، عورتوں کے ذہن و جسم کی مکمل آزادی و نشوونما اور اس کے لئے ہر طرح کی سہولیات کا حق حاصل ہونا تاکہ وہ اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو اپنی مرضی اور ذمہ داری کے ساتھ استعمال کر سکیں۔ عورتوں کی جسمانی آزادی کا براہ راست تعلق ان کی جنست اور جنسیت پر کنٹرول کے حق سے ہے۔ ان دونوں کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ‘میرا جسم، میری مرضی’ کا نعرہ اسی پس منظر میں بلند ہوا۔
عورت کی جنسیت پر کنٹرول کیلئے پدرسری نظام نے اخلاقیات کا پورا ایک نظام وضع کر رکھا ہے۔ اخلاقیات ‘اچھائی’ اور ‘برائی’ اور ‘معقول’ اور ‘غیر معقول’ اور ’صحیح‘ یا ’غلط‘ کے معاشرتی معیارات ہیں۔ ان معیارات کو وضع کرنے کیلئے فلسفیوں اور مفکرین نے ہر طرح کے اخلاقی ضابطے تشکیل دیئے، جو کسی نہ کسی گروہ، طبقے،نسل، جنس اور حکمران اشرافیہ کی ’کنٹرول کی ضروریات ‘ کو پورا کرتے ہیں۔ اخلاقی اقدار انفرادی، مقامی، گروہی اور طبقاتی ہوتی ہیں۔ پدر سری کے ‘ذہین کلرکوں’ نے انہی سے صنفی کرداروں کے معاشرتی رویوں کا ایک نظام بھی وضع کیا ہے۔ یہی اقدار اور ضابطے رسم و رواج میں بدل جاتے ہیں اور روزمرہ زندگی کے معمولات میں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عورتوں کے معاملے میں ان تمام معاشرتی گروہوں میں پائی جانے والی اخلاقی اقدار کم و بیش ایک جیسی ہیں۔ یہ پدرسری کی موجودگی کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ یہ اخلاقی ضابطے پدرسری کے درخت کو ہر وقت پانی دیتے رہتے ہیں، کیونکہ پدرسری کے دم سے ان کا وجود باقی ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ عورتوں کے حوالے سے انیسویں صدی کے انگلستان میں وکٹورین اقدار اور ہندوستان میں بیسویں صدی کے آغاز میں ’بہشتی زیور‘ میں عورتوں کے لئے دئیے گئے ہدایت نامہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پدر سری ’گلوبل‘ تھی اور ہے۔
عورتوں اور مردوں کے لئے جو علیحدہ اخلاقی معیار ہیں، ان میں عملاً مردوں کے لئے جگہ جگہ تھوکنے اور ماں بہن کی گالیاں دینے سے لے کر ڈرون حملوں اور ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ کے استعمال تک کوئی بھی چیز غیر اخلاقی نہیں۔ قتل، اغوا، عورت اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا، ان کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کرنا تو ان کے لئے معمولی جرائم ہیں، جن کی سزا سے بھی وہ اکثر بچ نکلتے ہیں۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ڈھٹائی کے ساتھ تہذیب، اخلاق اور امن کو بچانے کے نام پر کرتے ہیں۔ جبکہ، دوسری طرف عورت کے ہر فعل کو کڑے اخلاقی معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ عورت کا کوئی بھی فعل ‘بد اخلاقی’ اور ‘فحاشی و عریانی’ کے زمرے میں آ سکتا ہے، اس لئے کہ مردوں کے بنائے ہوئے ضابطوں اور اخلاقی معیارات کے تحت ‘عزت،’ اور ‘شرم و حیا’ کے تصورات عورت کے وجود کے ساتھ نتھی کر دیئے گئے ہیں۔ ‘پدرسری کے اخلاقی نظام نے ‘عزت’ عورت کے نام کر دی اور ‘غیرت’ اپنے نام کر لی۔
لیکن سوال اس سے زیادہ گھمبیر ہے۔ عورت تو پدرسری کے تحت محکوم اور مرد کی ملکیت تھی، اس لئے اس کی عزت بھی مرد کی عزت بن گئی۔ عورت کی یہ عزت، جو اس کی اپنی نہ رہنے دی گئی، پھیلتے پھیلتے خاندان کی عزت بنی، پھر کمیونٹی کی اور بالاآخر قوموں کی۔ ‘قوموں کی عزت ماﺅں، بہنوں، بیٹیوں سے’ ہمارے ہاں ترانہ بھی ہے۔ یہ ایک خطرناک صورت حال تھی، جس سے پدر سری نے معاشرے کو دوچار کر دیا۔ عورت کی اپنی عزت تو مرد، خاندان اور قوم کو رہن ہو گئی، مرد کی اپنی کوئی عزت تھی نہیں، لہذا عزت ایک معاشرتی مفروضہ بن کر رہ گئی۔ مفروضہ، مفروضہ ہوتا ہے، موم کی ناک کی طرح جدھر چاہیں، جب چاہیں موڑ لیں۔ اس سے خود پدر سری اقداری نظام میں زبردست انتشار پیدا ہوا۔ اس نے مرد اور عورت کے درمیان ایک مستقل تصادم اور بے اعتمادی کی صورت حال بھی پیدا کر دی۔ حاکم اور بالادست طبقے جب اپنے مفاد میں نظام اور اقدار تشکیل دیتے ہیں تو اس میں قدرتی طور پر بنیادی سقم اور نقائص رہ جاتے ہیں یا رکھے جاتے ہیں، اس لئے کہ مساوات، انصاف اور برابری کے اصول ان کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ انہیں اپنے کنٹرول کے لئے اپنی ‘مرضی کے اصول’ گھڑنے پڑتے ہیں اور طاقت کے ذریعے ان کا نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ پدر سری نے یوں تاریخ میں انسانی معاشرے کے ساتھ ایک ہولناک کھلواڑ کیا۔
پدد سری کے ‘ سرکاری وکیلوں’ نے ایک تاریخی فراڈ اور بھی کیا جو ان کے گلے پڑ چکا ہے۔ وہ یہ کہ عورت کی عزت کا تمام تر تصور اس کے ‘جنسی فعل’ کے ساتھ جوڑ دیا گیا، اور مردانگی کا تمام تر تصور اپنی ‘جنسی قوت’ کے ساتھ۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے عورت کو ایک کم سود مند حیثیت میں دھکیل دیا کہ عورت کا جنسی فعل اس کی عزت کا تعین کرے گا اور یہ تعین بھی مرد کرے گا۔ لیکن اپنی مردانگی کا تصور اس نے نیکی، خیر اور سچ سے علیحدہ کرتے ہوئے، خالصتا اپنی جنسی قوت کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب وہ مرد ہے تو اس لئے کہ وہ جنسی طور پر قوی ہے، ورنہ وہ نامرد ہے۔ وہ اس لئے مرد نہیں کہ وہ نیک ہے، راست باز ہے اور ایماندار ہے۔ یوں مردانگی کے عوض مرد نے انسانیت سمیت بہت کچھ کھو دیا۔ اس ساری کشاکش میں خود انسانیت تو لہولہان ہوئی، سب سے زیادہ نقصان علم کو پہنچا؛ تاریخ، فلسفہ اور ادب مرد کے حق میں جانبدار ہو گئے۔ زبان کرپٹ ہوئی اور سچائی مسخ ہوئی۔ لیکن پدر سری کے ذریعے مردوں نے عورتوں کو تو محکوم بنایا ہی، وہ مرد جو پدرسری سوچ کے حامل تھے، خود بھی اس آگ میں ایسے جلے کہ مرد اور جانور میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔
آج ‘میرا جسم، میری مرضی’ کے نعرے سے پدرسری کے در و دیوار ہل گئے ہیں، اور وہ اس لئے کہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں کو فرار کا راستہ نہیں مل رہا۔ عورت کے استحصال پر کھڑی ان کی صدیوں پرانی عمارت منہدم ہو رہی ہے، ان کی کھوکھلی دلیلیں ان کے کام نہیں آ رہیں۔ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی عورتوں پر فحاشی، عریانی، بے اخلاقی، مغربی تہذیب کی نقالی وغیرہ وغیرہ کے الزامات دہرائیں۔ ان کے پاس دوسرا مہذب راستہ بھی ہے، جو مکالمے کا ہے۔ جہاں اختلاف رائے ہے، وہاں شائستگی کے ساتھ اپنا موقف پیش کریں۔ اتفاق رائے ہو تو ٹھیک، بصورت دیگر اپنے اپنے خیالات کی پر امن طریقے سے تشہیر کرتے رہیں۔ جمہوری معاشرے کے یہی آداب ہیں۔
’میرا جسم، میری مرضی‘ کے پیغام کے خلاف جو لوگ طیش میں آ گئے ہیں، ان کے ردعمل کو سمجھنے کیلئے مردانگی (masculanity) کے تصور کو سمجھنا ہو گا۔ مردانگی مرد کے صنفی کردار اور اس سے وابستہ رویوں اور توقعات کی وضاحت کرتی ہے۔ مردانگی کی مختلف اقسام ہیں: ‘غاصبانہ مردانگی’، ‘نظرانداز شدہ مردانگی’ اور ‘ماتحت مردانگی’۔ مرد کا جارحانہ کردار ‘غاصبانہ مردانگی’ کے زمرے میں آتا ہے۔ ‘غاصبانہ مردانگی’ پدر سری معاشرے کی سب سے غالب قسم ہے۔ اسے پدری معاشروں میں جسمانی طاقت اور احساس برتری کے حامل مردوں کا ایک’مثالی اور قابل فخر’ طرز زندگی سمجھا جاتا ہے۔ مخالف جنس کی طرف رغبت رکھنے والے، متوسط طبقے کے مرد اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ مردانگی کی دیگر ماتحت قسمیں عام لوگوں، نظر انداز شدہ اور سیاہ فام افراد پر مشتمل ہوتی ہیں۔
غاصبانہ مردانگی (hegemonic masculanity) کے حوالے سے، گزشتہ اور حالیہ صدی میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مردوں نے ایسی مردانگی میں خوب سرمایہ کاری کی، جس کے نتیجے میں یہ مردانگی مزید طاقتور، مراعات یافتہ اور پر تشدد ہو گئی ہے۔ موجودہ دور میں یہ سرمایہ کاری اربوں ڈالر میں ہے۔ مردانہ غاصبیت نے خود کو مزید ‘مضبوط اور پرشکوہ ‘ بنانے کے لئے، دوسرے اقدامات کے ساتھ ساتھ عہد جدید میں نئی ٹیکنالوجی کے آلات اور اشیاء کو اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ہالی ووڈ، بالی ووڈ صنعت اور فلمیں، سپورٹس، ذرایع ابلاغ، خصوصاً ایڈورٹایزنگ اور پورنو گرافی میں بے تحاشا سرمایہ کاری اس کی چند مثالیں ہیں۔ غاصبانہ مردانگی اور ‘سرمایہ دارانہ غاصبیت’ (capitalist hegemony) کے الحاق کے نتیجے میں دنیا میں ایک عالمی مقتدرانہ گٹھ جوڑ بھی پیدا ہوا ہے۔
غاصبانہ مردانگی کے حامل مرد خود کو حاصل کردہ ہر طرح کی مراعات، جن میں بہترین تعلیم بھی شامل ہے، کی وجہ سے ‘تخلیقی اور فکری صلاحیتوں’ کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن، احساس برتری اور طاقت کا نشہ انہیں اکھڑ پن، خود غرضی، جنسی تلذذ اور مصنوعی تفاخر کا عادی بنا دیتا ہے۔ ان میں بیشتر مختلف ’ذہنی اور نفسیاتی‘ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو ’عقل کل‘ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ عورتوں، حتی کہ مردانگی کی کمزور اقسام کو،حقارت کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور انہیں ٹوتھ برش یا شیمپو جیسی اشیاء (commodities) سمجھتے ہیں، جنھیں دو دو ٹکے میں خریدا اور بیچا جا سکتا ہے۔ در حقیقت، بقول اداکارہ ریشم دوسروں کو دو دو ٹکے کا سمجھتے ہوئے ”وہ خود ایک ٹکے کے بھی نہیں رہتے“۔
ہم نے دیکھا ہے کہ فکری، سیاسی اور ادبی سطح پر پدر سری کے تحفظ، عورت دشمنی اور عورت متعصبانہ حملوں کے مرتکب افراد کا زیادہ تر تعلق دانشور طبقے سے ہوتا ہے۔ تاریخ میں ایسے ہونہار سپوتوں نے عورت کی محکومیت اور پدرسری نظام کو قائم رکھنے کیلئے بڑی جانفشانی سے فکری اور نظریاتی بنیادیں فراہم کیں، اور آج بھی کرتے آ رہے ہیں۔ آج کل ان حملوں کا سب سے بڑا ذریعہ فلمیں اور ٹی وی ڈرامے ہیں کیونکہ ان کا ناظرین کا حلقہ بہت بڑا ہوتا ہے؛ منافع بھی اسی حساب سے۔ مغرب میں tabloids اخبار اس کی انتہائی عامیانہ مثال ہیں۔
’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ عورت کے ایک ایسے عزم کا اظہار کرتا ہے، جس کے تحت وہ اپنی ذات کی خود مالک بننا چاہتی ہے؛ اس کے تحت وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی ممکنہ جنسی، جسمانی اور ذہنی تشدد کو رد کرتی ہے اور اس کی روک تھام کرنا چاہتی ہے؛ اس کے تحت وہ بچے پیدا کرنے پر مرد کے صوابدیدی اختیار کو ختم کرنا چاہتی ہے؛ اس کے تحت وہ بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے میں رائے کا بنیادی حق مانگ رہی ہے؛ اس کے تحت وہ وراثت میں برابر کا حق چاہتی ہے۔ اس کے تخت وہ ان جرائم کا خاتمہ چاہتی ہے، جو عورتوں کے خلاف جنس کے نام پر کئے جاتے ہیں، مثلا، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، سوارہ، ونی، وٹہ سٹہ، بدل صلح اور جہیز کے نام پر تشدد؛ اس نعرے کے تحت وہ ان عمومی مردانہ رویوں کو بھی رد کرتی ہے، جن کی وجہ سے روٹی یا چائے گرم نہ ملنے پر اسے قتل کر دیا جاتا ہے، مرد کی مرضی کے خلاف کسی بھی بات کے نتیجے میں اسے طلاق دی جاتی ہے، زدوکوب کیا جاتا ہے، گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور ہر وقت ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔
یہ دکھ اور شرم کی بات ہے کہ عورتوں کے خلاف گھر یلو تشدد اور جنسی جرائم میں پاکستان سمیت ہر جگہ اعداد و شمار میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے پے در پے واقعات انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔ لیکن مردوں کے لئے یہ ’صرف تشویشناک‘ بات ہوتی ہے؛ عورتوں کے لئے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ایسے میں وہ اپنے جسم کے تحفظ کا حق بھی نہ مانگیں تو کیا کریں۔ عورت اگر جنسی جرم کا شکار ہوتی ہے تو بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہوتی ہے۔ اسے خود کو بے قصور ثابت کرنے کیلئے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ اکثر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختاراں مائی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوں، اس کے خلاف دوہرے جرم کا ارتکاب ہوتا ہے۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ 2020 کے 8 مارچ کی ریلی کے انعقاد کے سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصاف سے کام لیا۔ یہ اظہار خیال کے بنیادی حق کی جیت ہے۔ اس مقدمے کو جیتنے کیلئے انسانی حقوق کی ممتاز رہنما اور وکیل حنا جیلانی اور دیگر ساتھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔ سندھ حکومت کا عورت مارچ کو تحفظ فراہم کرنے کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔
تاریخ میں اپنی جنسیت پر مرد کے کنٹرول کی وجہ سے عورتوں نے اپنی زندگیوں، صحت اور ذات کی قربانی کی شکل میں بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ قحط پڑا ہے، لڑکی کی قربانی دے دو؛ بارش نہیں ہو رہی، لڑکی کی قربانی دے دو؛ بادشاہ کے گھر اولاد نہیں ہو رہی، لڑکی کی قربانی دو۔ ایام جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، اسلام نے اس رسم کو ختم کیا۔ عورت کو ستی کیا گیا، بیچا گیا اور بے وقعت کیا گیا۔
لیکن زمانہ بدل گیا ہے۔ خود عورتوں نے تحریکوں اور انتھک جدوجہد کے ذریعے اسے بدلا ہے۔ 1911 میں جب 8 مارچ کا عالمی دن پہلی بار منایا گیا، صرف تین ملکوں میں عورتوں کو ووٹ کا محدود حق حاصل تھا۔ آج 193 ممالک میں وہ ووٹ کا حق استعمال کر سکتی ہیں۔ آج دنیا کے 90 ممالک میں ‘گھریلو تشدد’ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 عورتوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ ہمارے تین صوبوں، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں ‘گھریلو تشدد’ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ وفاقی سطح پر ‘جنسی ہراسیت’ کے خلاف، فوجداری اور دیوانی، دونوں طرح کے قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح ریپ اور گینگ ریپ اور منفی رسومات، جیسے ونی، سوارہ، بدل صلح، حق وراثت سے انکار اور ‘قرآن سے شادی’، کے خلاف وفاقی قوانین موجود ہیں۔ آئین نے تمام شہریوں کو اظہار رائے اور انجمن سازی کا حق بھی دیا ہے۔
میرا جسم، میری مرضی کا پیغام آئین میں موجود تمام بنیادی انسانی حقوق اور مندرجہ بالا قوانین کی روشنی میں ایک درست اور جائز مطالبہ اور عورتوں کا بنیادی حق ہے۔ یہ تمام قوانین عورت کی ذات اور جسم کو ہر طرح کی خلاف ورزی اور زیادتیوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یوں، عورتیں دراصل اپنی انہی آزادیوں کے حصول اور تحفظ کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ پدرسری، سیکس ازم اور عورت دشمن خیالات کے حامل مردوں کو اس نعرے پر تکلیف ہی یہ ہے کہ اس نعرے نے مرد کے لامحدود صوابدیدی جنسی اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اگر عورتوں کے اس حق کو پاکستان میں جمہوری حقوق کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ایسا ہی جیسے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ضیاالحق کے آرٹیکلB 2-58 کو ختم کر دیا گیا ہے، جس کے تحت صدر مملکت کو پارلیمنٹ توڑنے کا صوابدیدی اختیار حاصل تھا۔ جس کا جی چاہے، جب جی چاہے، پارلیمنٹ کو روند ڈالے۔ 1990 کی دہائی میں چار بار عوام کی منتحب قومی اسمبلی کو توڑا گیا۔ تب پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ‘ہماری پارلیمنٹ، ہماری مرضی’۔ تب سے 20 سال ہو گئے ہیں، کم از کم اس انداز سے پارلیمنٹ توڑنے کی ہمت کسی کو نہ ہوئی۔ پارلیمنٹ کا وجود عوام کی رائے کا مظہر ہے۔ اس کا احترام جمہوریت کی بنیادی شرط ہے۔ اسی طرح آزادی انسانی وجود کی لازمی شرط ہے۔ عورت انسانی وجود ہے اور آزادی سے وابستہ ہے۔ ‘میرا جسم، میری مرضی’ عورت کی اسی آزادی کا بے باک اظہار ہے۔
پاکستان سمیت، مشرقی معاشروں میں پدر سری کی بنیاد پدر شجری ہے، یعنی حسب نسب اور وراثت کا سلسلہ مرد سے شروع ہوتا ہے۔ یوں، یہ نعرہ پدرسری نظام کی اسا س، جو عورت پر تسلط کے مفروضے پر کھڑی ہے، کو مسترد کرتا ہے۔ وہ اشرافیہ، طبقات اور اس کے حامی ادارے اور افراد، جو پدر سری نظام کے حامی ہیں، عورتوں پر اپنی اتھارٹی، اپنا کنٹرول کھونا نہیں چاہتے، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ یہاں اس سادہ سی بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ پدر سری کے خلاف بات کرنا، مردوں کے خلاف بات کرنا نہیں۔ پدر سری کسی معاشرے میں مردوں کے ایک بڑے گروہ کے معاشرتی غلبے کا نام ہے۔ لہذا اس کے خلاف بات کرنا یا اس کو رد کرنا اس مخصوص ذہنیت اور اس مردانہ معاشرتی غلبے کے خلاف بات کرنا ہے، جس کے نتیجے میں عورتیں محکومیت کا شکار ہوتی ہیں اور معاشرے میں عدم توازن، ناانصافی اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ آج ہم اکیسویں صدی کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں، معروضی حقائق بدل چکے ہیں؛ وہ طبقے جنھیں تاریخ میں بزور طاقت ترقی کے عمل سے باہر کر دیا گیا تھا، آج زندگی کے ہر شعبے اور ترقی کے ہر عمل میں شمولیت اور برابر کا حصہ مانگ رہے ہیں۔ عورتوں کی تحریک ترقی و تبدیلی کے اس عمل میں سب سے آگے ہے۔
مراکشی فیمنسٹ فاطمہ مرنیسی نے گذشتہ صدی کے آخری برسوں میں کہا تھا: ”تاریخ کی کتابیں مردوں نے لکھی ہیں اسی لئے وہ تاریخی واقعات کو مذہبی تقدس دے دیتے ہیں۔ عورت کے ماضی کو تبدیل کرنا تو مشکل ہے لیکن وہ مستقبل کی تشکیل ضرور کر سکتی ہے۔ مثلاً یہ ایک نہایت اہم اور نازک سوال ہے کہ کیا ہم دوبارہ پردہ کے پیچھے جا سکتے ہیں؟ کیا ہم والڈ سٹی میں پھر جا سکتے ہیں؟ کیا ہم ان خیالی فیصلوں کے اندر پھر بند ہوسکتے ہیں جنہیں ہمارا قومی وقار کہا جاتا ہے؟ میں پیش آگاہی کا دعویٰ تو نہیں کرتی لیکن یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا۔ عورتیں پڑھی لکھی ہوں یا ناخواندہ، اب وہ اپنے مسائل کی تشخیص کر رہی ہیں اور انہیں سامنے بھی لارہی ہیں۔ جن مسائل کو پہلے جذباتی کہہ دیا جاتا تھا آج عورتیں ثابت کر رہی ہیں کہ وہ خالصتاً سیاسی مسائل ہیں“۔
’میرا جسم، میری مرضی‘ کے پیغام میں پنہاں گھریلو تشدد، جنسی تشدد اور ذہنی تشدد کی موجودہ لڑائی سے قبل عورتوں کو کئی آگ کے دریا عبور کرنے پڑے، اور دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کی جدوجہد جاری ہے۔ ’ میرا وجود، عقلی وجود‘ کا حق منوانے کےلئے عورتوں اور ان کی رہنما نظریہ دانوں کو دو ہزار سال لگے۔ اس دریا کو عبور کرنے میں فیمنسٹوں کو بے حد کامیابی ہوئی ہے۔ ’میری شہریت، میر احق‘ ہے، کے دریا کو پاٹنے میں عورتیں اس وقت بھی مصروف عمل ہیں۔ خود پاکستان میں اس وقت عورتوں کو شہریت کا برابر حق حاصل نہیں ہے۔ ’ میری تعلیم میرا حق‘ ایک پرانی اور سخت لڑائی رہی ہے اور ہے۔ ملالہ یوسف زئی کو اسی حق کے لئے آواز بلند کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانا پڑی۔ ’ میرا ووٹ میرا حق‘ کے دریا کو عبور کرنے میں عورتوں کو طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ روزگار اور برابر کی اجرت، ملازمت کے مساوی مواقع، شادی اور طلاق کے بہتر قوانین، ملکیت اور جائیداد کے حق کے لئے عورتیں ہر ملک میں جدو جہد کر رہی ہیں۔ وہ انتہا پسندی کے خلاف اور امن کے قیام، ماحولیاتی تبدیلی، بہتر سائبر لاز کے لئے تحریکوں کی پہلی صف میں موجود ہیں۔ جمہوریت کے تحفظ اور اپنے سیاسی حقوق کے لئے بھی عورتیں پیش پیش ہیں۔
ان طویل لڑائیوں اور بے مثال جدوجد کے دوران عورت کا اپنی جنسیت پر کنٹرول کا نظریہ مقبول عام ہوا۔ فیمنسٹوں نے اسے ایک ابدی راز کی طرح گرہ میں باندھ لیا کہ عورتوں کی محکومی کا سلسلہ ان کی جنسیت پر مرد کے کنٹرول سے شروع ہوا تھا، اس کا اختتام اس کنٹرول کے خاتمے کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
گذشتہ برس کے عورت مارچ میں اس کے علاوہ دیگر نعرے اور پوسٹر بھی دیکھنے میں آئے۔ ان میں مردوں کو یہ تلقین کی گئی تھی کہ گھر کے اپنے کام خود کر لیا کریں، مثلا” ‘ اپنا کھانا خود گرم کرو’ یا ‘ اپنے موزے خود دھوو’۔ ظاہر ہے گھر کے اپنے کام خود کر لینے میں تو کوئی برائی نہیں، اس لئے ان پر زیادہ بحث نہیں کرتے، اچھی بات کہیں سے بھی ملے، اس پر عمل کرنا چاہیے۔ کچھ نعرے ایسے بھی تھے، مثلاً ‘ہنسی تو ہنسی’ اور ‘بیٹھنے کا صحیح طریقہ’۔ ‘ہنسی تو ہنسی’ ایک عمومی معاشرتی رویے اور ‘ہنسی تو پھنسی’ کے محاورے کا ردعمل ہے، جس میں عورت کی ہنسی کا غلط مطلب لیا جاتا ہے۔ اس نئے نعرے میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ لڑکی اگر مرد کے ساتھ بات کرتے ہوئے ہنس دے تو اس کا کوئی غلط مطلب نہ نکالا جائے۔ یہ نعرہ معاشرے میں عورت کی ذات کے بارے میں صدیوں سے رائج اس منفی مفروضے کو رد کرتا ہے کہ عورت عقلی وجود نہیں رکھتی اور عورت کا ہر فعل ‘جنسی فعل’ ہے اور یہ کہ ‘وہ آسانی سے قابل حصول’ ہے۔ یہ نعرہ کہتا ہے کہ ہنسنے کا مطلب ہنسنا ہے، اور بس۔ یوں، یہ نعرہ دراصل عورت کی اپنی ذات پر خود انحصاری کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کا تعلق خاص طور پر اس حق سے بھی ہے کہ کام کی جگہوں پر ‘جنسی ہراسیت’ کے ضمن میں عورتوں کی موجودگی اور ان کے وجود کو ایک باوقار انسانی وجود کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ بیٹھنے کے صحیح طریقے میں ‘اٹھنے بیٹھنے کے آداب’ کے حوالے سے مردوں کو یہ تلقین کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ٹانگیں چوڑی کر کے بیٹھنا عامیانہ حرکت ہے۔ اس کا تعلق بھی جنسی ہراسیت سے ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح تو ہر چیز کا تعلق جنسی ہراسیت سے ہو سکتا ہے، تو ہمارا جواب ہو گا، بالکل صحیح! ہر چیز کا تعلق تہذیب اور بد تہذیبی اور شائستگی اور بےہودگی سے ہوتا ہے، اور ہر چیز کا تعلق ہراساں کرنے یا نہ کرنے سے ہو سکتا ہے۔
ذرا ٹھنڈے دل سے اور معاشرتی اصلاح کے نقطہ نظر سے غور کریں تو یہ نعرے سماج کو، اور بالخصوص مردوں کو، عورتوں کی طرف سے 8 مارچ کے تحفے کے طور پر وصول کرنے چاہیے تھے اور ان پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ شاید زیادہ تر ایسا ہو بھی کیونکہ خاموش اکثریت کی آواز آسانی سے سنی اور ماپی نہیں جا سکتی اور اکثر وہ ٹی وی ٹاک شوز کے شور وغل میں دب کر رہ جاتی ہے۔ تاہم،اپنے حق کے لئے میدان ِعمل میں وہ عورتیں جنہوں نے اس نعرے کے ذریعے پدرسری نظام کی جڑیں ہلا دیں، اور وہ جنہوں نے ٹی وی ٹاک شوز میں اُن کا دفاع کیا، فیمنسٹ تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی۔