خلیل الرحمان قمرنے ٹی وی پر براہ راست ماروی سرمد کو گالی دیدی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
لگتا ہے کسی نے نہ عورت مارچ دیکھا نہ مارچ منتظمین کی پریس کانفرنس سنی۔ صرف سنسنی خیز خبروں پر اکتفا کیا
عورت مارچ لاہور اور کراچی کے ٹوئٹر اکاؤنٹس ہی دیکھ لیں تو شاید آپ کی معلومات میں اضافہ ہو
پاکستانی معاشرہ سدا بہار moral panic کا شکار ہے۔ اگر عورت مارچ میں کچھ خواتین نے متنازعہ پلے کارڈز اٹھا بھی لئے تو اس سے پورے مارچ کا مقصد ضائع نہیں ہو سکتا۔ اتنی سی بات عام عوام کو سمجھ نہیں آرہی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
انیسویں صدی میں آدھے امریکہ نے غلامی کو کنٹرول کرنے کے معاملے پر بغاوت کر کے الگ ملک بنانے کی کوشش کی تھی۔ کیا اسے بھی ٹھوس بنیاد کہا جا سکتا ہے؟
غلام بنانا تو ایک ظالمانہ روایت ہے اس کے خلاف آواز ایک قدرتی بات ہے اس میں عورت اور مرد کا کیا تفاوت ؟
اس میں میری رائے یہ ہے کہ ظلم اور جبر اگر انسان کے حقوق سلب کریں گے تو رد عمل لازم ہے ۔ الگ ملک صوبہ یا شہر یا مینسپلٹی بنانے کی کوشش قطعاََ غلط نہیں اگر ظلم اور جبر مسلط رہیں۔یہ سب باتیں تو ہر انسان بطور انسان سمجھتا ہے اصل بات اصول کی ہے کہ جس کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے ۔
 

زیک

مسافر
غلام بنانا تو ایک ظالمانہ روایت ہے اس کے خلاف آواز ایک قدرتی بات ہے اس میں عورت اور مرد کا کیا تفاوت ؟
اس میں میری رائے یہ ہے کہ ظلم اور جبر اگر انسان کے حقوق سلب کریں گے تو رد عمل لازم ہے ۔ الگ ملک صوبہ یا شہر یا مینسپلٹی بنانے کی کوشش قطعاََ غلط نہیں اگر ظلم اور جبر مسلط رہیں۔یہ سب باتیں تو ہر انسان بطور انسان سمجھتا ہے اصل بات اصول کی ہے کہ جس کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے ۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ رد عمل کی وجوہات ٹھوس ہونے کے باوجود غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ صرف عورت مارچ پر رد عمل سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مخالفین کے پاس اچھے دلائل ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
غلام بنانا تو ایک ظالمانہ روایت ہے اس کے خلاف آواز ایک قدرتی بات ہے اس میں عورت اور مرد کا کیا تفاوت ؟
یعنی ملک کی آدھی آبادی کو دبا کر رکھنا یا دیگر آبادی جیسے حق حقوق نہ دینا ظالمانہ روایت نہیں ہے؟

کہنے کا مقصد یہ تھا کہ رد عمل کی وجوہات ٹھوس ہونے کے باوجود غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ صرف عورت مارچ پر رد عمل سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مخالفین کے پاس اچھے دلائل ہیں
مجھے حیرت ہے کہ جو لوگ عورت مارچ پر اعتراض کر رہے ہیں وہ آئین پاکستان کیوں نہیں پڑھتے جس میں ہر شہری کواپنی آواز بلند کرنے کیلئے احتجاج کی اجازت دی گئی ہے۔ نیز عورت مارچ پر یہ الزام کہ اسے بیرونی (مغربی) فنڈنگ ہو رہی ہے تو پھر ان اسلامی مدرسوں پر بھی اعتراض کریں جو بیرونی (سعودی) فنڈنگ سے قائم کئے گئے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ’عورت مارچ’ رکوانے کی درخواست خارج کردی
طاہر نصیر | ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 06 مارچ 2020
5e620304a2182.jpg

خواتین نے 8 مارچ کو عورت مارچ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کے لیے دائر کی گئی شہریوں کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے عمران جاوید عزیز، محمد ایوب انصاری، امیر زیب، قاری سہیل احمد فاروقی، محمد اجمل عباسی، عبدالوحید، بشیر احمد اور میر اویس خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزاروں کی جانب سے سہیل اکبر چوہدری، راجا شجاعت علی اور حافظ محمد مظہر سمیت دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزاروں نے ایک روز قبل ہی پاکستانی آئین کی مختلف شقوں اور مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ’عورت مارچ‘ کو رکوانے کی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں ’عورت مارچ‘ کو غیر قانونی اور غیر مذہبی قرار دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اسے روکنے کا حکم سنائے۔

درخواست میں وزارت داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں گزشتہ سال کے ’عورت مارچ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ مارچ میں نامناسب بینرز اور نعروں سے فحاشی پھیلتی ہے اور مارچ غیر قانونی اور غیر مذہبی ہے۔

5e620516582f9.jpg

عدالت کے مطابق ضروری ہے کہ عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھا جائے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

عدالت نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے 6 مارچ کو سماعت کی جس میں درخواست گزاروں کے وکیل پیش ہوئے، جنہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزار خواتین کے حقوق نہیں بلکہ ’عورت مارچ‘ کے خلاف ہیں۔

درخواست گزاروں کے وکلا نے عدالت کو استدعا کی کہ وہ غیر قانونی طور پر ہونے والے عورت مارچ کو روکنے کا حکم دے۔

درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’درخواست گزار قبل از وقت اس عدالت سے ریلیف مانگ رہے ہیں‘۔

چیف جسٹس نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’توقع ہے کہ عورت مارچ کے شرکا شائستگی برقرار رکھتے ہوئے آئینی حق استعمال کریں گے‘۔

عدالت نے 8 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مزید لکھا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کا اعلان کیا گیا ہے اور ’عورت مارچ کے شرکا ان کے ارادوں پر شک کرنے والوں کو اپنے عمل سے غلط ثابت کریں‘۔

عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا اور نماز جمعہ سے قبل ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے معاشرے میں کئی دیگر اسلامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے، عدالت امید کرتی ہے کہ درخواست گزار تمام اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے بھی عدالت سے رجوع کریں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عورتوں کے نعرے وہی ہیں کہ ’جو اسلام نے انہیں حقوق دیے وہ دیے جائیں‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواتین نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اسلام میں دیے گئے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں، جب پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنی بات واضح کردی تو ہم کیسے مختلف تشریح کرسکتے ہیں اور ان کے نعروں کی کیا ہم اپنے طور پر تشریح کرسکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کے وکلا کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج پورے میڈیا میں ان کی کل کی پریس کانفرنس شائع ہوئی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ خاتون تھیں۔

5e62045cb7816.jpg

عالمی یوم خواتین پر کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں عورت مارچ ہوں گے—فوٹو: ٹوئٹر

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کے وکلا سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ ہم کتنی خواتین کو وراثتی حقوق دے رہے ہیں اور آپ اپنے طور پر ان کے سلوگنز کی تشریح کیسے کر سکتے ہیں؟

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ نہ مارچ کے خلاف ہیں نہ عورتوں کے حقوق کے خلاف ہیں، عدالت حکم دے کہ مارچ میں جو کچھ ہو وہ آئین و قانون اور اسلام کے دائرے میں ہو۔

وکیل کی وضاحت پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ضروری ہے کہ آپ اس عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھیں۔

چیف جسٹس نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ اگر 8 مارچ کو کچھ بھی خلاف قانون ہوتا ہے تو عدالت قانونی کارروائی کرے گی۔

بعد ازاں عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے عورت مارچ کو رکوانے کی درخواست نا قابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں بھی عورت مارچ کو رکوانے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’آئین و قانون کے مطابق عورت مارچ کو روکا نہیں جا سکتا‘۔

ساتھ ہی عدالت نے ضلعی انتظامیہ، پولیس اور مارچ منتظمین کو ہدایت کی تھی کہ مارچ میں کسی طرح کے غیر اخلاقی سلوگن نہیں ہونے چاہیئیں۔

خیال رہے کہ خواتین رہنماؤں نے لاہور سمیت اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد، سکھر، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر 8 مارچ کو عورت مارچ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور پاکستان میں گزشتہ 2 سال سے ان مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

5e6204d493b4e.jpg

زیادہ تر افراد کو عورت مارچ کے بینرز پر اعتراض ہوتا ہے—فائل فوٹو: ہیرالڈ میگزین

اس سال ’عورت مارچ‘ شروع ہونے سے قبل ہی اس پر بحث شروع ہوگئی ہے اور جہاں کئی افراد اس مارچ کی حمایت کر رہے ہیں، وہیں کچھ افراد اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔

عورت مارچ کی حمایت کرنے والے افراد کا ماننا ہے کہ ’عورت مارچ‘ خواتین کی خودمختاری اور حقوق کے لیے اہم قدم ہے جب کہ اس کی مخالفت کرنے والے افراد کا مؤقف ہے کہ یہ مارچ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے، خواتین کو بے راہ روی اختیار کرنے اور فحاشی پھیلانے کا سبب ہے۔

گزشتہ سال پہلی مرتبہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ’عورت مارچ‘ منعقد ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں خواتین شامل ہوئی تھیں اور ان مارچ میں شامل خواتین کی جانب سے اٹھائے گئے بینرز پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

کراچی سے لے کر لاہور اور اسلام آباد سے حیدرآباد تک ہونے والے عورت مارچ میں خواتین نے درجنوں منفرد نعروں کے بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں کچھ بینرز پر مختلف طقبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے تنقید بھی کی تھی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ رد عمل کی وجوہات ٹھوس ہونے کے باوجود غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ صرف عورت مارچ پر رد عمل سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مخالفین کے پاس اچھے دلائل ہیں
مانا کہ ممکن ہے مگر کس بنیاد پر ؟ ۔ عین ممکن ہے کہ آپ کے موقف میں ایک بات درست ہو کسی اور کے موقف میں نہیں !!!
اصل مسئلہ یہی تو ہے کہ اصولی موقف واضح ہو کر سامنے آئیں سب کی طرف سے اور پھر ہر انسان اپنا فیصلہ اپنی ترجیحات کے مطابق کرے ۔مشرق و مغرب کی اقدار میں جو فاصلہ ہے وہ بڑی حد تک واضح ہے ۔ اگر مولوی ذہنیت کو خطرہ ہے کہ حقوق کی آڑ میں مارچ کے مقاصد کچھ اور ہیں تو اس کے دلائل بھی سامنے آنے چاہیئں انہیں بھی اس کا حق حاصل ہے ۔ عین ممکن ہو کہ وہ بھی ایک اور پر امن مارچ اس کے مخالف کریں اور عوام کو دکھادیں کہ اصل بات کیا ہے ۔ یہ اقدار کا کلیش کوئی آج کی نئی بات نہیں لیکن اپنی اقدار کا تحفظ بھی ہر معاشرے کا حق ہے ۔ جبر کا راستہ کہیں ٹھیک نہیں ہے ۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
اگر مولوی ذہنیت کو خطرہ ہے کہ حقوق کی آڑ میں مارچ کے مقاصد کچھ اور ہیں تو اس کے دلائل بھی سامنے آنے چاہیئں انہیں بھی اس کا حق حاصل ہے ۔ عین ممکن ہو کہ وہ بھی ایک اور پر امن مارچ اس کے مخالف کریں اور عوام کو دکھادیں کہ اصل بات کیا ہے ۔
“مولوی مارچ” کی بھی خوب کہی۔ ایسے مارچ تو کوئی نئے نہیں البتہ کچھ نئے نعرے ضرور لکھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ۔۔
“تیرا جسم میری مرضی”
“ایسے ہی چلنے دو”
“ایسی کی تیسی”
 
“مولوی مارچ” کی بھی خوب کہی۔ ایسے مارچ تو کوئی نئے نہیں البتہ کچھ نئے نعرے ضرور لکھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ۔۔
“تیرا جسم میری مرضی”
“ایسے ہی چلنے دو”
“ایسی کی تیسی”
مولویوں کیلئے نعرے آپ خود ایجاد کریں گے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
“مولوی مارچ” کی بھی خوب کہی۔ ایسے مارچ تو کوئی نئے نہیں البتہ کچھ نئے نعرے ضرور لکھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ۔۔
“تیرا جسم میری مرضی”
“ایسے ہی چلنے دو”
“ایسی کی تیسی”
ارے یار ۔ کچھ تو سامنے آئے گا بھئی ۔
 

فرقان احمد

محفلین
عورت مارچ اگر آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر ہو تو اعتراض کی کوئی ٹھوس وجہ بنتی نہیں ہے۔ اس کو ضرورت سے زیادہ ہائی لائیٹ کیوں کیا جا رہا ہے؛ یہ وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا یہ سینکڑوں ہزاروں خواتین اس ملک میں انقلاب لے آئیں گی اور ہمارے ملک کی خواتین کی قسمت بدل دیں گی! اس کے دُور دُور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ دراصل یہ دن پہلے بھی منایا جاتا تھا اور خواتین اسی طرح کے پوسٹرز وغیرہ لے کر آیا کرتی تھیں۔ تاہم، سوشل میڈیا کی اٹھان کے بعد اس مارچ کے رنگ ڈھنگ بدلتے جاتے ہیں۔ اس معاشرے میں عورت مظلوم ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں۔ تاہم، کیا یہ مارچ ان مظلوم خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرے گا، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ اب تک تو یہی لگتا ہے کہ نعروں میں جدت اور اختراع آتی جا رہی ہے، اور کہیں کہیں ناشائستگی بھی در آئی ہے تاہم کچھ نعرے ایسے بھی نگاہ سے گزرتے ہیں جو ہماری دانست میں مظلوم خواتین کے جذبات کی درست نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
عورت مارچ اگر آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر ہو تو اعتراض کی کوئی ٹھوس وجہ بنتی نہیں ہے۔ اس کو ضرورت سے زیادہ ہائی لائیٹ کیوں کیا جا رہا ہے؛ یہ وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا یہ سینکڑوں ہزاروں خواتین اس ملک میں انقلاب لے آئیں گی اور ہمارے ملک کی خواتین کی قسمت بدل دیں گی! اس کے دُور دُور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ دراصل یہ دن پہلے بھی منایا جاتا تھا اور خواتین اسی طرح کے پوسٹرز وغیرہ لے کر آیا کرتی تھیں۔ تاہم، سوشل میڈیا کی اٹھان کے بعد اس مارچ کے رنگ ڈھنگ بدلتے جاتے ہیں۔ اس معاشرے میں عورت مظلوم ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں۔ تاہم، کیا یہ مارچ ان مظلوم خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرے گا، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ اب تک تو یہی لگتا ہے کہ نعروں میں جدت اور اختراع آتی جا رہی ہے، اور کہیں کہیں ناشائستگی بھی در آئی ہے تاہم کچھ نعرے ایسے بھی نگاہ سے گزرتے ہیں جو ہماری دانست میں مظلوم خواتین کے جذبات کی درست نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مٹھی بھر خواتین عورت مارچ کے نام پر ہماری بیٹیوں کو گمراہ کر رہی ہیں: فردوس عاشق اعوان

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ مٹھی بھر خواتین عورت مارچ کے نام پر ہماری بیٹیوں کو گمراہ کر رہی ہیں، عورت مارچ قابل اعتراض نعروں کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کے نعرے ہماری چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کر رہے ہیں، ایسے نعروں کی ہمارے مذہب، معاشرے اور گھروں میں کوئی گنجائش نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے جب کہ خواتین کو بااختیار بنائے بغیر ریاست مدینہ کی اساس مضبوط نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ پر امن احتجاج ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن جو نعرے خواتین حقوق کے لیے لگا رہی ہیں وہ کس معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں ایسے نعروں کی اجازت نہیں۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ایسے نعروں کی ہمارا مذہب اور گھر کا ماحول اجازت نہیں دیتا، عورت مارچ میں چار دیواری کے تقدس کو پامال کیے بغیر نکلنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عورت مارچ قابل اعتراض نعروں کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مخصوص طبقے کی خواتین جس طرح کے نعرے لگا رہی ہیں، وہ کس کی نمائندگی کررہی ہیں؟ خواتین کو بااختیار بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہم اپنی بہن بیٹیوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو نعرے متعارف کرائے گئے ہیں اس سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوں گی، جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس سے یہ گتھی مزید الجھ گئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں نجی ٹی وی شو کے دوران معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر اور سماجی کارکن ماروی سرمد کے درمیان ہونے والے تکرار کے بعد عالمی یوم خواتین کے موقع پر ہونے والا عورت مارچ زیر بحث ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
مٹھی بھر خواتین عورت مارچ کے نام پر ہماری بیٹیوں کو گمراہ کر رہی ہیں: فردوس عاشق اعوان

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ مٹھی بھر خواتین عورت مارچ کے نام پر ہماری بیٹیوں کو گمراہ کر رہی ہیں، عورت مارچ قابل اعتراض نعروں کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کے نعرے ہماری چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کر رہے ہیں، ایسے نعروں کی ہمارے مذہب، معاشرے اور گھروں میں کوئی گنجائش نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے جب کہ خواتین کو بااختیار بنائے بغیر ریاست مدینہ کی اساس مضبوط نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ پر امن احتجاج ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن جو نعرے خواتین حقوق کے لیے لگا رہی ہیں وہ کس معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں ایسے نعروں کی اجازت نہیں۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ایسے نعروں کی ہمارا مذہب اور گھر کا ماحول اجازت نہیں دیتا، عورت مارچ میں چار دیواری کے تقدس کو پامال کیے بغیر نکلنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عورت مارچ قابل اعتراض نعروں کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مخصوص طبقے کی خواتین جس طرح کے نعرے لگا رہی ہیں، وہ کس کی نمائندگی کررہی ہیں؟ خواتین کو بااختیار بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہم اپنی بہن بیٹیوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو نعرے متعارف کرائے گئے ہیں اس سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوں گی، جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس سے یہ گتھی مزید الجھ گئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں نجی ٹی وی شو کے دوران معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر اور سماجی کارکن ماروی سرمد کے درمیان ہونے والے تکرار کے بعد عالمی یوم خواتین کے موقع پر ہونے والا عورت مارچ زیر بحث ہے۔
گزشتہ مارچ کے نعروں کے تناظر میں فردوس آپا کا بیان دیکھا جائے تو کچھ کچھ معاملہ کھلتا ہے تاہم ابھی نیا مارچ تو ہوا ہی نہیں تو پہلے ہی مٹھی بھر خواتین کو شہ دینے کا فائدہ! اب اس کا نتیجہ یہ نہ ہو کہ مارچ کے دوران فردوس عاشق بی بی کو ہی نشانے پر رکھ لیا جاوے! یہ جو کچھ خواتین ہیں ان میں، یہ کری ایٹو اور انوویٹو بلا کی ہیں۔ دیکھتے جائیے، ہوتا کیا ہے! اور، تماشا کیسا سجتا ہے! اور، پھر ان نعروں کا جو حشر سوشل میڈیا پر ہونا ہے، اس کا کچھ کچھ نقشا ابھی سے ہمارے ذہن میں بن رہا ہے۔ کاش غالب زندہ ہوتے تو اس پر کچھ کہتے لکھتے! بلکہ، شاید وہ تو مارچ میں بذات خود شریک ہوتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
گزشتہ مارچ کے نعروں کے تناظر میں فردوس آپا کا بیان دیکھا جائے تو کچھ کچھ معاملہ کھلتا ہے تاہم ابھی نیا مارچ تو ہوا ہی نہیں تو پہلے ہی مٹھی بھر خواتین کو شہ دینے کا فائدہ! اب اس کا نتیجہ یہ نہ ہو کہ مارچ کے دوران فردوس عاشق بی بی کو ہی نشانے پر رکھ لیا جاوے! یہ جو کچھ خواتین ہیں ان میں، یہ کری ایٹو اور انوویٹو بلا کی ہیں۔ دیکھتے جائیے، ہوتا کیا ہے! اور، تماشا کیسا سجتا ہے! اور، پھر ان نعروں کا جو حشر سوشل میڈیا پر ہونا ہے، اس کا کچھ کچھ نقشا ابھی سے ہمارے ذہن میں بن رہا ہے۔ کاش غالب زندہ ہوتے تو اس پر کچھ کہتے لکھتے! بلکہ، شاید وہ تو مارچ میں بذات خود شریک ہوتے۔
ماروی سرمد جو میرا جسم میری مرضی گروپ کی سرخیل ہے،
وقاص گورائیہ جیسے لوگ جو کھلے عام اسلام کو گالیاں دیتے ہیں،
مبشر زیدی جیسے ملحد خدا کا مذاق اڑاتے ہیں،
گلائی اسماعیل جیسی خواتین جو مادرپدر آزادی کی قائل ہیں،

ان سب میں آپ کو دو باتیں مشترک ملیں گی:

یہ سب نوازشریف کے حامی ہیں ،
اور عمران خان کے شدید مخالف۔

آگے آپ خود سمجھدار ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
میرا جسم، میر ی مرضی: ایک بنیادی حق
06/03/2020 نعیم مرزا

8 مارچ 2019 کو عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر دیگر شہروں کے علاوہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں عورت آزادی مارچ کے نام سے جو جلوس نکالے گئے وہ گذشتہ برسوں کی نسبت کئی لحاظ سے مختلف تھے۔ ان جلوسوں میں دیگر معمول کے نعروں اور پوسٹروں کے علاوہ چند نعرے پوسٹروں کی شکل میں ایسے بھی سامنے آئے، جن پر اس وقت بعض حلقوں کی جانب سے شدید مخالفانہ اور جارحانہ ردعمل سامنے آیا۔ اب 2020 کے 8 مارچ کے موقع پر یہ بحث پھر چھڑ گئی ہے۔ ایک نعرہ جو سب سے زیادہ متنازع بنا، وہ ہے: ‘میرا جسم، میری مرضی’۔ لہذا اس پر سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس بات پرہمارے ہاں 2019-2020 میں اتنا ہنگامہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ پدر سری کے آغاز اور عورت کی محکومیت کے سوال کے ضمن میں صدیوں سے جاری بحث کا بنیادی نکتہ ہے۔ لیکن اس سوال کو بار بار پس پشت ڈالا جاتا رہا، اس لئے کہ یہ تصور مرد کی ایسی اتھارٹی کو چیلنج کرتا ہے، جس پر پدر سری کی ساری عمارت کھڑی ہے۔

ان جلوسوں میں کچھ اور بھی نعرے تھے، جن کا مفہوم اسی بنیادی موضوع سے اخذ تھا، جس کے تناظر میں ‘میرا جسم، میری مرضی’ کا نعرہ بلند کیا گیا تھا۔ ہماری بحث اس مضمون میں اسی کے گرد رہے گی کیونکہ ایک تو یہ پاکستان میں عوامی سطح پر، یعنی جلسے جلوس میں، پہلی بار اٹھایا گیا ہے، اور دوسرے یہ ایک سنجیدہ اور بنیادی مطالبہ ہے۔ میرے خیال میں اسے عورتوں کی طرف سے وسیع حمایت بھی حاصل ہے۔ اس نعرے کو وسیع حمایت حاصل ہے، اس کا ایک اشارہ تو یہ ہے کہ گذشتہ 8 مارچ 2019 کے جلوسوں یا ریلیوں میں شرکاء کی تعداد گذشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ ان میں بڑی تعداد میں نوجوان طبقے، ورکنگ ویمن، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات، سیاسی جماعتوں کی خواتین، خصوصی افراد، خواجہ سرا افراد اور مذہبی اقلیتوں کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں اور لڑکیاں شامل تھیں۔ ان جلوسوں میں مردوں اور لڑکوں نے بھی شرکت کی۔ ان جلوسوں میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے اراکین کی تعداد حسب معمول تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ان جلوسوں میں بڑی تعداد عام شہری عورتوں کی تھی۔ عورتوں میں بڑا جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ یوں گذشتہ 8 مارچ کے ’عورت آزادی مارچ‘ تعداد، جوش و جذبے اور نئے پیغامات کے حوالے سے بے مثال تھے۔

شرکاء میں نوجوان طبقے کی شمولیت، نیا جوش و خروش، نئے خیالات اور نئے نعرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان میں ایک نئی لہر کا آغاز ہوا ہے، یا یہ کہہ لیں کہ اس کا عوامی سطح پر بھرپور اظہار ہوا ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ معاشرہ کسی نئے سانچے میں ڈھلنے کے لئے بے قرار ہے۔ فرسودہ تصورات اور مفروضے دم توڑ رہے ہیں، نئے پیغامات، نئے محاورے، نئی زبان اور نئی اقدار جنم لے رہی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اسے پاکستان میں ‘فیمنزم کی نئی لہر’ بھی کہا جا سکتا ہے، اگر یہ کہنا قبل از وقت نہیں ہے تو۔ تاہم، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ گذشتہ برس 8 مارچ کی عورتوں کی ریلیوں نے پاکستان کی فیمنسٹ تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔



فیمنزم کے مختلف مکاتیب فکر میں دو باتیں مشترک اور بنیادی نوعیت کی ہیں: اولاً، پدرسری معاشرے میں موجود مرد مرکزیت کے اصول اور اس کی لازمی حیثیت کی نفی اور اس کا خاتمہ۔ اس کے نتیجے میں کسی ایک جنس کو دوسری پر فوقیت حاصل نہیں ہو گی۔ دوئم، عورتوں کے ذہن و جسم کی مکمل آزادی و نشوونما اور اس کے لئے ہر طرح کی سہولیات کا حق حاصل ہونا تاکہ وہ اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو اپنی مرضی اور ذمہ داری کے ساتھ استعمال کر سکیں۔ عورتوں کی جسمانی آزادی کا براہ راست تعلق ان کی جنست اور جنسیت پر کنٹرول کے حق سے ہے۔ ان دونوں کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ‘میرا جسم، میری مرضی’ کا نعرہ اسی پس منظر میں بلند ہوا۔

عورت کی جنسیت پر کنٹرول کیلئے پدرسری نظام نے اخلاقیات کا پورا ایک نظام وضع کر رکھا ہے۔ اخلاقیات ‘اچھائی’ اور ‘برائی’ اور ‘معقول’ اور ‘غیر معقول’ اور ’صحیح‘ یا ’غلط‘ کے معاشرتی معیارات ہیں۔ ان معیارات کو وضع کرنے کیلئے فلسفیوں اور مفکرین نے ہر طرح کے اخلاقی ضابطے تشکیل دیئے، جو کسی نہ کسی گروہ، طبقے،نسل، جنس اور حکمران اشرافیہ کی ’کنٹرول کی ضروریات ‘ کو پورا کرتے ہیں۔ اخلاقی اقدار انفرادی، مقامی، گروہی اور طبقاتی ہوتی ہیں۔ پدر سری کے ‘ذہین کلرکوں’ نے انہی سے صنفی کرداروں کے معاشرتی رویوں کا ایک نظام بھی وضع کیا ہے۔ یہی اقدار اور ضابطے رسم و رواج میں بدل جاتے ہیں اور روزمرہ زندگی کے معمولات میں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عورتوں کے معاملے میں ان تمام معاشرتی گروہوں میں پائی جانے والی اخلاقی اقدار کم و بیش ایک جیسی ہیں۔ یہ پدرسری کی موجودگی کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ یہ اخلاقی ضابطے پدرسری کے درخت کو ہر وقت پانی دیتے رہتے ہیں، کیونکہ پدرسری کے دم سے ان کا وجود باقی ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ عورتوں کے حوالے سے انیسویں صدی کے انگلستان میں وکٹورین اقدار اور ہندوستان میں بیسویں صدی کے آغاز میں ’بہشتی زیور‘ میں عورتوں کے لئے دئیے گئے ہدایت نامہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پدر سری ’گلوبل‘ تھی اور ہے۔

عورتوں اور مردوں کے لئے جو علیحدہ اخلاقی معیار ہیں، ان میں عملاً مردوں کے لئے جگہ جگہ تھوکنے اور ماں بہن کی گالیاں دینے سے لے کر ڈرون حملوں اور ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ کے استعمال تک کوئی بھی چیز غیر اخلاقی نہیں۔ قتل، اغوا، عورت اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا، ان کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کرنا تو ان کے لئے معمولی جرائم ہیں، جن کی سزا سے بھی وہ اکثر بچ نکلتے ہیں۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ڈھٹائی کے ساتھ تہذیب، اخلاق اور امن کو بچانے کے نام پر کرتے ہیں۔ جبکہ، دوسری طرف عورت کے ہر فعل کو کڑے اخلاقی معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ عورت کا کوئی بھی فعل ‘بد اخلاقی’ اور ‘فحاشی و عریانی’ کے زمرے میں آ سکتا ہے، اس لئے کہ مردوں کے بنائے ہوئے ضابطوں اور اخلاقی معیارات کے تحت ‘عزت،’ اور ‘شرم و حیا’ کے تصورات عورت کے وجود کے ساتھ نتھی کر دیئے گئے ہیں۔ ‘پدرسری کے اخلاقی نظام نے ‘عزت’ عورت کے نام کر دی اور ‘غیرت’ اپنے نام کر لی۔



لیکن سوال اس سے زیادہ گھمبیر ہے۔ عورت تو پدرسری کے تحت محکوم اور مرد کی ملکیت تھی، اس لئے اس کی عزت بھی مرد کی عزت بن گئی۔ عورت کی یہ عزت، جو اس کی اپنی نہ رہنے دی گئی، پھیلتے پھیلتے خاندان کی عزت بنی، پھر کمیونٹی کی اور بالاآخر قوموں کی۔ ‘قوموں کی عزت ماﺅں، بہنوں، بیٹیوں سے’ ہمارے ہاں ترانہ بھی ہے۔ یہ ایک خطرناک صورت حال تھی، جس سے پدر سری نے معاشرے کو دوچار کر دیا۔ عورت کی اپنی عزت تو مرد، خاندان اور قوم کو رہن ہو گئی، مرد کی اپنی کوئی عزت تھی نہیں، لہذا عزت ایک معاشرتی مفروضہ بن کر رہ گئی۔ مفروضہ، مفروضہ ہوتا ہے، موم کی ناک کی طرح جدھر چاہیں، جب چاہیں موڑ لیں۔ اس سے خود پدر سری اقداری نظام میں زبردست انتشار پیدا ہوا۔ اس نے مرد اور عورت کے درمیان ایک مستقل تصادم اور بے اعتمادی کی صورت حال بھی پیدا کر دی۔ حاکم اور بالادست طبقے جب اپنے مفاد میں نظام اور اقدار تشکیل دیتے ہیں تو اس میں قدرتی طور پر بنیادی سقم اور نقائص رہ جاتے ہیں یا رکھے جاتے ہیں، اس لئے کہ مساوات، انصاف اور برابری کے اصول ان کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ انہیں اپنے کنٹرول کے لئے اپنی ‘مرضی کے اصول’ گھڑنے پڑتے ہیں اور طاقت کے ذریعے ان کا نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ پدر سری نے یوں تاریخ میں انسانی معاشرے کے ساتھ ایک ہولناک کھلواڑ کیا۔

پدد سری کے ‘ سرکاری وکیلوں’ نے ایک تاریخی فراڈ اور بھی کیا جو ان کے گلے پڑ چکا ہے۔ وہ یہ کہ عورت کی عزت کا تمام تر تصور اس کے ‘جنسی فعل’ کے ساتھ جوڑ دیا گیا، اور مردانگی کا تمام تر تصور اپنی ‘جنسی قوت’ کے ساتھ۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے عورت کو ایک کم سود مند حیثیت میں دھکیل دیا کہ عورت کا جنسی فعل اس کی عزت کا تعین کرے گا اور یہ تعین بھی مرد کرے گا۔ لیکن اپنی مردانگی کا تصور اس نے نیکی، خیر اور سچ سے علیحدہ کرتے ہوئے، خالصتا اپنی جنسی قوت کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب وہ مرد ہے تو اس لئے کہ وہ جنسی طور پر قوی ہے، ورنہ وہ نامرد ہے۔ وہ اس لئے مرد نہیں کہ وہ نیک ہے، راست باز ہے اور ایماندار ہے۔ یوں مردانگی کے عوض مرد نے انسانیت سمیت بہت کچھ کھو دیا۔ اس ساری کشاکش میں خود انسانیت تو لہولہان ہوئی، سب سے زیادہ نقصان علم کو پہنچا؛ تاریخ، فلسفہ اور ادب مرد کے حق میں جانبدار ہو گئے۔ زبان کرپٹ ہوئی اور سچائی مسخ ہوئی۔ لیکن پدر سری کے ذریعے مردوں نے عورتوں کو تو محکوم بنایا ہی، وہ مرد جو پدرسری سوچ کے حامل تھے، خود بھی اس آگ میں ایسے جلے کہ مرد اور جانور میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔



آج ‘میرا جسم، میری مرضی’ کے نعرے سے پدرسری کے در و دیوار ہل گئے ہیں، اور وہ اس لئے کہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں کو فرار کا راستہ نہیں مل رہا۔ عورت کے استحصال پر کھڑی ان کی صدیوں پرانی عمارت منہدم ہو رہی ہے، ان کی کھوکھلی دلیلیں ان کے کام نہیں آ رہیں۔ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی عورتوں پر فحاشی، عریانی، بے اخلاقی، مغربی تہذیب کی نقالی وغیرہ وغیرہ کے الزامات دہرائیں۔ ان کے پاس دوسرا مہذب راستہ بھی ہے، جو مکالمے کا ہے۔ جہاں اختلاف رائے ہے، وہاں شائستگی کے ساتھ اپنا موقف پیش کریں۔ اتفاق رائے ہو تو ٹھیک، بصورت دیگر اپنے اپنے خیالات کی پر امن طریقے سے تشہیر کرتے رہیں۔ جمہوری معاشرے کے یہی آداب ہیں۔

’میرا جسم، میری مرضی‘ کے پیغام کے خلاف جو لوگ طیش میں آ گئے ہیں، ان کے ردعمل کو سمجھنے کیلئے مردانگی (masculanity) کے تصور کو سمجھنا ہو گا۔ مردانگی مرد کے صنفی کردار اور اس سے وابستہ رویوں اور توقعات کی وضاحت کرتی ہے۔ مردانگی کی مختلف اقسام ہیں: ‘غاصبانہ مردانگی’، ‘نظرانداز شدہ مردانگی’ اور ‘ماتحت مردانگی’۔ مرد کا جارحانہ کردار ‘غاصبانہ مردانگی’ کے زمرے میں آتا ہے۔ ‘غاصبانہ مردانگی’ پدر سری معاشرے کی سب سے غالب قسم ہے۔ اسے پدری معاشروں میں جسمانی طاقت اور احساس برتری کے حامل مردوں کا ایک’مثالی اور قابل فخر’ طرز زندگی سمجھا جاتا ہے۔ مخالف جنس کی طرف رغبت رکھنے والے، متوسط طبقے کے مرد اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ مردانگی کی دیگر ماتحت قسمیں عام لوگوں، نظر انداز شدہ اور سیاہ فام افراد پر مشتمل ہوتی ہیں۔

غاصبانہ مردانگی (hegemonic masculanity) کے حوالے سے، گزشتہ اور حالیہ صدی میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مردوں نے ایسی مردانگی میں خوب سرمایہ کاری کی، جس کے نتیجے میں یہ مردانگی مزید طاقتور، مراعات یافتہ اور پر تشدد ہو گئی ہے۔ موجودہ دور میں یہ سرمایہ کاری اربوں ڈالر میں ہے۔ مردانہ غاصبیت نے خود کو مزید ‘مضبوط اور پرشکوہ ‘ بنانے کے لئے، دوسرے اقدامات کے ساتھ ساتھ عہد جدید میں نئی ٹیکنالوجی کے آلات اور اشیاء کو اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ہالی ووڈ، بالی ووڈ صنعت اور فلمیں، سپورٹس، ذرایع ابلاغ، خصوصاً ایڈورٹایزنگ اور پورنو گرافی میں بے تحاشا سرمایہ کاری اس کی چند مثالیں ہیں۔ غاصبانہ مردانگی اور ‘سرمایہ دارانہ غاصبیت’ (capitalist hegemony) کے الحاق کے نتیجے میں دنیا میں ایک عالمی مقتدرانہ گٹھ جوڑ بھی پیدا ہوا ہے۔



غاصبانہ مردانگی کے حامل مرد خود کو حاصل کردہ ہر طرح کی مراعات، جن میں بہترین تعلیم بھی شامل ہے، کی وجہ سے ‘تخلیقی اور فکری صلاحیتوں’ کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن، احساس برتری اور طاقت کا نشہ انہیں اکھڑ پن، خود غرضی، جنسی تلذذ اور مصنوعی تفاخر کا عادی بنا دیتا ہے۔ ان میں بیشتر مختلف ’ذہنی اور نفسیاتی‘ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو ’عقل کل‘ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ عورتوں، حتی کہ مردانگی کی کمزور اقسام کو،حقارت کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور انہیں ٹوتھ برش یا شیمپو جیسی اشیاء (commodities) سمجھتے ہیں، جنھیں دو دو ٹکے میں خریدا اور بیچا جا سکتا ہے۔ در حقیقت، بقول اداکارہ ریشم دوسروں کو دو دو ٹکے کا سمجھتے ہوئے ”وہ خود ایک ٹکے کے بھی نہیں رہتے“۔

ہم نے دیکھا ہے کہ فکری، سیاسی اور ادبی سطح پر پدر سری کے تحفظ، عورت دشمنی اور عورت متعصبانہ حملوں کے مرتکب افراد کا زیادہ تر تعلق دانشور طبقے سے ہوتا ہے۔ تاریخ میں ایسے ہونہار سپوتوں نے عورت کی محکومیت اور پدرسری نظام کو قائم رکھنے کیلئے بڑی جانفشانی سے فکری اور نظریاتی بنیادیں فراہم کیں، اور آج بھی کرتے آ رہے ہیں۔ آج کل ان حملوں کا سب سے بڑا ذریعہ فلمیں اور ٹی وی ڈرامے ہیں کیونکہ ان کا ناظرین کا حلقہ بہت بڑا ہوتا ہے؛ منافع بھی اسی حساب سے۔ مغرب میں tabloids اخبار اس کی انتہائی عامیانہ مثال ہیں۔

’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ عورت کے ایک ایسے عزم کا اظہار کرتا ہے، جس کے تحت وہ اپنی ذات کی خود مالک بننا چاہتی ہے؛ اس کے تحت وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی ممکنہ جنسی، جسمانی اور ذہنی تشدد کو رد کرتی ہے اور اس کی روک تھام کرنا چاہتی ہے؛ اس کے تحت وہ بچے پیدا کرنے پر مرد کے صوابدیدی اختیار کو ختم کرنا چاہتی ہے؛ اس کے تحت وہ بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے میں رائے کا بنیادی حق مانگ رہی ہے؛ اس کے تحت وہ وراثت میں برابر کا حق چاہتی ہے۔ اس کے تخت وہ ان جرائم کا خاتمہ چاہتی ہے، جو عورتوں کے خلاف جنس کے نام پر کئے جاتے ہیں، مثلا، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، سوارہ، ونی، وٹہ سٹہ، بدل صلح اور جہیز کے نام پر تشدد؛ اس نعرے کے تحت وہ ان عمومی مردانہ رویوں کو بھی رد کرتی ہے، جن کی وجہ سے روٹی یا چائے گرم نہ ملنے پر اسے قتل کر دیا جاتا ہے، مرد کی مرضی کے خلاف کسی بھی بات کے نتیجے میں اسے طلاق دی جاتی ہے، زدوکوب کیا جاتا ہے، گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور ہر وقت ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔



یہ دکھ اور شرم کی بات ہے کہ عورتوں کے خلاف گھر یلو تشدد اور جنسی جرائم میں پاکستان سمیت ہر جگہ اعداد و شمار میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے پے در پے واقعات انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔ لیکن مردوں کے لئے یہ ’صرف تشویشناک‘ بات ہوتی ہے؛ عورتوں کے لئے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ایسے میں وہ اپنے جسم کے تحفظ کا حق بھی نہ مانگیں تو کیا کریں۔ عورت اگر جنسی جرم کا شکار ہوتی ہے تو بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہوتی ہے۔ اسے خود کو بے قصور ثابت کرنے کیلئے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ اکثر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختاراں مائی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوں، اس کے خلاف دوہرے جرم کا ارتکاب ہوتا ہے۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ 2020 کے 8 مارچ کی ریلی کے انعقاد کے سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصاف سے کام لیا۔ یہ اظہار خیال کے بنیادی حق کی جیت ہے۔ اس مقدمے کو جیتنے کیلئے انسانی حقوق کی ممتاز رہنما اور وکیل حنا جیلانی اور دیگر ساتھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔ سندھ حکومت کا عورت مارچ کو تحفظ فراہم کرنے کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔

تاریخ میں اپنی جنسیت پر مرد کے کنٹرول کی وجہ سے عورتوں نے اپنی زندگیوں، صحت اور ذات کی قربانی کی شکل میں بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ قحط پڑا ہے، لڑکی کی قربانی دے دو؛ بارش نہیں ہو رہی، لڑکی کی قربانی دے دو؛ بادشاہ کے گھر اولاد نہیں ہو رہی، لڑکی کی قربانی دو۔ ایام جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، اسلام نے اس رسم کو ختم کیا۔ عورت کو ستی کیا گیا، بیچا گیا اور بے وقعت کیا گیا۔

لیکن زمانہ بدل گیا ہے۔ خود عورتوں نے تحریکوں اور انتھک جدوجہد کے ذریعے اسے بدلا ہے۔ 1911 میں جب 8 مارچ کا عالمی دن پہلی بار منایا گیا، صرف تین ملکوں میں عورتوں کو ووٹ کا محدود حق حاصل تھا۔ آج 193 ممالک میں وہ ووٹ کا حق استعمال کر سکتی ہیں۔ آج دنیا کے 90 ممالک میں ‘گھریلو تشدد’ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 عورتوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ ہمارے تین صوبوں، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں ‘گھریلو تشدد’ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ وفاقی سطح پر ‘جنسی ہراسیت’ کے خلاف، فوجداری اور دیوانی، دونوں طرح کے قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح ریپ اور گینگ ریپ اور منفی رسومات، جیسے ونی، سوارہ، بدل صلح، حق وراثت سے انکار اور ‘قرآن سے شادی’، کے خلاف وفاقی قوانین موجود ہیں۔ آئین نے تمام شہریوں کو اظہار رائے اور انجمن سازی کا حق بھی دیا ہے۔



میرا جسم، میری مرضی کا پیغام آئین میں موجود تمام بنیادی انسانی حقوق اور مندرجہ بالا قوانین کی روشنی میں ایک درست اور جائز مطالبہ اور عورتوں کا بنیادی حق ہے۔ یہ تمام قوانین عورت کی ذات اور جسم کو ہر طرح کی خلاف ورزی اور زیادتیوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یوں، عورتیں دراصل اپنی انہی آزادیوں کے حصول اور تحفظ کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ پدرسری، سیکس ازم اور عورت دشمن خیالات کے حامل مردوں کو اس نعرے پر تکلیف ہی یہ ہے کہ اس نعرے نے مرد کے لامحدود صوابدیدی جنسی اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اگر عورتوں کے اس حق کو پاکستان میں جمہوری حقوق کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ایسا ہی جیسے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ضیاالحق کے آرٹیکلB 2-58 کو ختم کر دیا گیا ہے، جس کے تحت صدر مملکت کو پارلیمنٹ توڑنے کا صوابدیدی اختیار حاصل تھا۔ جس کا جی چاہے، جب جی چاہے، پارلیمنٹ کو روند ڈالے۔ 1990 کی دہائی میں چار بار عوام کی منتحب قومی اسمبلی کو توڑا گیا۔ تب پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ‘ہماری پارلیمنٹ، ہماری مرضی’۔ تب سے 20 سال ہو گئے ہیں، کم از کم اس انداز سے پارلیمنٹ توڑنے کی ہمت کسی کو نہ ہوئی۔ پارلیمنٹ کا وجود عوام کی رائے کا مظہر ہے۔ اس کا احترام جمہوریت کی بنیادی شرط ہے۔ اسی طرح آزادی انسانی وجود کی لازمی شرط ہے۔ عورت انسانی وجود ہے اور آزادی سے وابستہ ہے۔ ‘میرا جسم، میری مرضی’ عورت کی اسی آزادی کا بے باک اظہار ہے۔

پاکستان سمیت، مشرقی معاشروں میں پدر سری کی بنیاد پدر شجری ہے، یعنی حسب نسب اور وراثت کا سلسلہ مرد سے شروع ہوتا ہے۔ یوں، یہ نعرہ پدرسری نظام کی اسا س، جو عورت پر تسلط کے مفروضے پر کھڑی ہے، کو مسترد کرتا ہے۔ وہ اشرافیہ، طبقات اور اس کے حامی ادارے اور افراد، جو پدر سری نظام کے حامی ہیں، عورتوں پر اپنی اتھارٹی، اپنا کنٹرول کھونا نہیں چاہتے، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ یہاں اس سادہ سی بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ پدر سری کے خلاف بات کرنا، مردوں کے خلاف بات کرنا نہیں۔ پدر سری کسی معاشرے میں مردوں کے ایک بڑے گروہ کے معاشرتی غلبے کا نام ہے۔ لہذا اس کے خلاف بات کرنا یا اس کو رد کرنا اس مخصوص ذہنیت اور اس مردانہ معاشرتی غلبے کے خلاف بات کرنا ہے، جس کے نتیجے میں عورتیں محکومیت کا شکار ہوتی ہیں اور معاشرے میں عدم توازن، ناانصافی اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ آج ہم اکیسویں صدی کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں، معروضی حقائق بدل چکے ہیں؛ وہ طبقے جنھیں تاریخ میں بزور طاقت ترقی کے عمل سے باہر کر دیا گیا تھا، آج زندگی کے ہر شعبے اور ترقی کے ہر عمل میں شمولیت اور برابر کا حصہ مانگ رہے ہیں۔ عورتوں کی تحریک ترقی و تبدیلی کے اس عمل میں سب سے آگے ہے۔



مراکشی فیمنسٹ فاطمہ مرنیسی نے گذشتہ صدی کے آخری برسوں میں کہا تھا: ”تاریخ کی کتابیں مردوں نے لکھی ہیں اسی لئے وہ تاریخی واقعات کو مذہبی تقدس دے دیتے ہیں۔ عورت کے ماضی کو تبدیل کرنا تو مشکل ہے لیکن وہ مستقبل کی تشکیل ضرور کر سکتی ہے۔ مثلاً یہ ایک نہایت اہم اور نازک سوال ہے کہ کیا ہم دوبارہ پردہ کے پیچھے جا سکتے ہیں؟ کیا ہم والڈ سٹی میں پھر جا سکتے ہیں؟ کیا ہم ان خیالی فیصلوں کے اندر پھر بند ہوسکتے ہیں جنہیں ہمارا قومی وقار کہا جاتا ہے؟ میں پیش آگاہی کا دعویٰ تو نہیں کرتی لیکن یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا۔ عورتیں پڑھی لکھی ہوں یا ناخواندہ، اب وہ اپنے مسائل کی تشخیص کر رہی ہیں اور انہیں سامنے بھی لارہی ہیں۔ جن مسائل کو پہلے جذباتی کہہ دیا جاتا تھا آج عورتیں ثابت کر رہی ہیں کہ وہ خالصتاً سیاسی مسائل ہیں“۔

’میرا جسم، میری مرضی‘ کے پیغام میں پنہاں گھریلو تشدد، جنسی تشدد اور ذہنی تشدد کی موجودہ لڑائی سے قبل عورتوں کو کئی آگ کے دریا عبور کرنے پڑے، اور دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کی جدوجہد جاری ہے۔ ’ میرا وجود، عقلی وجود‘ کا حق منوانے کےلئے عورتوں اور ان کی رہنما نظریہ دانوں کو دو ہزار سال لگے۔ اس دریا کو عبور کرنے میں فیمنسٹوں کو بے حد کامیابی ہوئی ہے۔ ’میری شہریت، میر احق‘ ہے، کے دریا کو پاٹنے میں عورتیں اس وقت بھی مصروف عمل ہیں۔ خود پاکستان میں اس وقت عورتوں کو شہریت کا برابر حق حاصل نہیں ہے۔ ’ میری تعلیم میرا حق‘ ایک پرانی اور سخت لڑائی رہی ہے اور ہے۔ ملالہ یوسف زئی کو اسی حق کے لئے آواز بلند کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانا پڑی۔ ’ میرا ووٹ میرا حق‘ کے دریا کو عبور کرنے میں عورتوں کو طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ روزگار اور برابر کی اجرت، ملازمت کے مساوی مواقع، شادی اور طلاق کے بہتر قوانین، ملکیت اور جائیداد کے حق کے لئے عورتیں ہر ملک میں جدو جہد کر رہی ہیں۔ وہ انتہا پسندی کے خلاف اور امن کے قیام، ماحولیاتی تبدیلی، بہتر سائبر لاز کے لئے تحریکوں کی پہلی صف میں موجود ہیں۔ جمہوریت کے تحفظ اور اپنے سیاسی حقوق کے لئے بھی عورتیں پیش پیش ہیں۔

ان طویل لڑائیوں اور بے مثال جدوجد کے دوران عورت کا اپنی جنسیت پر کنٹرول کا نظریہ مقبول عام ہوا۔ فیمنسٹوں نے اسے ایک ابدی راز کی طرح گرہ میں باندھ لیا کہ عورتوں کی محکومی کا سلسلہ ان کی جنسیت پر مرد کے کنٹرول سے شروع ہوا تھا، اس کا اختتام اس کنٹرول کے خاتمے کے ساتھ ہی ممکن ہے۔



گذشتہ برس کے عورت مارچ میں اس کے علاوہ دیگر نعرے اور پوسٹر بھی دیکھنے میں آئے۔ ان میں مردوں کو یہ تلقین کی گئی تھی کہ گھر کے اپنے کام خود کر لیا کریں، مثلا” ‘ اپنا کھانا خود گرم کرو’ یا ‘ اپنے موزے خود دھوو’۔ ظاہر ہے گھر کے اپنے کام خود کر لینے میں تو کوئی برائی نہیں، اس لئے ان پر زیادہ بحث نہیں کرتے، اچھی بات کہیں سے بھی ملے، اس پر عمل کرنا چاہیے۔ کچھ نعرے ایسے بھی تھے، مثلاً ‘ہنسی تو ہنسی’ اور ‘بیٹھنے کا صحیح طریقہ’۔ ‘ہنسی تو ہنسی’ ایک عمومی معاشرتی رویے اور ‘ہنسی تو پھنسی’ کے محاورے کا ردعمل ہے، جس میں عورت کی ہنسی کا غلط مطلب لیا جاتا ہے۔ اس نئے نعرے میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ لڑکی اگر مرد کے ساتھ بات کرتے ہوئے ہنس دے تو اس کا کوئی غلط مطلب نہ نکالا جائے۔ یہ نعرہ معاشرے میں عورت کی ذات کے بارے میں صدیوں سے رائج اس منفی مفروضے کو رد کرتا ہے کہ عورت عقلی وجود نہیں رکھتی اور عورت کا ہر فعل ‘جنسی فعل’ ہے اور یہ کہ ‘وہ آسانی سے قابل حصول’ ہے۔ یہ نعرہ کہتا ہے کہ ہنسنے کا مطلب ہنسنا ہے، اور بس۔ یوں، یہ نعرہ دراصل عورت کی اپنی ذات پر خود انحصاری کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کا تعلق خاص طور پر اس حق سے بھی ہے کہ کام کی جگہوں پر ‘جنسی ہراسیت’ کے ضمن میں عورتوں کی موجودگی اور ان کے وجود کو ایک باوقار انسانی وجود کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ بیٹھنے کے صحیح طریقے میں ‘اٹھنے بیٹھنے کے آداب’ کے حوالے سے مردوں کو یہ تلقین کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ٹانگیں چوڑی کر کے بیٹھنا عامیانہ حرکت ہے۔ اس کا تعلق بھی جنسی ہراسیت سے ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح تو ہر چیز کا تعلق جنسی ہراسیت سے ہو سکتا ہے، تو ہمارا جواب ہو گا، بالکل صحیح! ہر چیز کا تعلق تہذیب اور بد تہذیبی اور شائستگی اور بےہودگی سے ہوتا ہے، اور ہر چیز کا تعلق ہراساں کرنے یا نہ کرنے سے ہو سکتا ہے۔

ذرا ٹھنڈے دل سے اور معاشرتی اصلاح کے نقطہ نظر سے غور کریں تو یہ نعرے سماج کو، اور بالخصوص مردوں کو، عورتوں کی طرف سے 8 مارچ کے تحفے کے طور پر وصول کرنے چاہیے تھے اور ان پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ شاید زیادہ تر ایسا ہو بھی کیونکہ خاموش اکثریت کی آواز آسانی سے سنی اور ماپی نہیں جا سکتی اور اکثر وہ ٹی وی ٹاک شوز کے شور وغل میں دب کر رہ جاتی ہے۔ تاہم،اپنے حق کے لئے میدان ِعمل میں وہ عورتیں جنہوں نے اس نعرے کے ذریعے پدرسری نظام کی جڑیں ہلا دیں، اور وہ جنہوں نے ٹی وی ٹاک شوز میں اُن کا دفاع کیا، فیمنسٹ تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عورت مارچ
حسن نثار
06 مارچ ، 2020

پاکستان حسب عادت، حسب معمول، حسب روایت جس کثیر المشکل مرحلہ بلکہ مراحل میں سے گزر رہا ہے اس میں نان ایشوز پر توجہ کورونا اور کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے لیکن WHO CARESاور برپشم قلندر تو ہمارا طرۂ امتیاز ہے ۔پورے ملک کی ’’مرضی‘‘ تو آئی ایم ایف کے پاس گروی پڑی ہے لیکن کچھ بیبیوں کو ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا دورہ پڑا ہے۔

نعرے گھڑتے وقت عقل اور احتیاط سے کام لینا چاہئے تاکہ ان کے ساتھ اینگلنگ اور ٹمپرنگ نہ ہو سکے مثلا اگر ....’’میری روح میری مرضی‘‘’’میری ذات میری مرضی‘‘’’میری سوچ میری مرضی‘‘تو شاید مرد ’’حریفوں اور حاسدوں‘‘ کا ردِ عمل مختلف ہوتا کہ جسم تو یوں بھی فانی شے ہے۔

دوسری بات یہ کہ جن کا ملک صحیح معنوں میں خودمختار نہ ہو، جن کے باپ، بھائی، بیٹے، شوہر وغیرہ نظام کے بالواسطہ یا بلاواسطہ غلام ہوں کیا انہیں بہتر ٹائمنگ پر غور نہیں کرنا چاہئے تھا کہ اس ان پڑھ، ان گھڑ سماج میں بدحالی کے مارے ’’مہنگائی‘‘ پر سوچیں گے یا آپ کے جسم کی ’’مرضی‘‘ پر سر دھنیں گے؟

ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے مثلاً غور فرمائیں کہ فرانس میں 1890کے شماریات کے مطابق عورتوں کو مردوں کی نسبت آدھی اجرت ملتی تھی۔ امریکہ میں 1918میں عورتوں کو مردوں کی تنخواہ کا ایک چوتھائی ملتا تھا۔ یہی حال جرمنی کا تھا۔ 1942تک فرانسیسی قانون کے مطابق بیوی پر خاوند کی تابعداری اور اطاعت فرض تھی۔

انگلینڈ میں عورتوں کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں اور خرید و فروخت عام تھی۔انسانی معاشرہ میں عورت کے سفر کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔نمبر :1قدرتی عہدTHE NATURAL ERAنمبر:2مرد کے جبر کا عہدTHE ERA OF MALE DOMINANCEنمبر:3عورت احتجاج کا عہدTHE ERA OF FEMALE PROTESTنمبر:4عورت مرد حقوق برابری عہدTHE ERA OF EQUALITYیہ دھیمے، دھیرے اور مرحلہ وار ہونے والا کام ہے جسے سافٹ ہینڈلنگ کی ضرورت ہے۔

زور آزمائی سفر کو پیچیدہ، مشکل اور لمبا کر دے گی مثلاً یورپ دیکھ لیں، صلیبی جنگجو جنگوں پر جانے سے قبل اپنی ’’پالتو عورتوں‘‘ کو آہنی لنگوٹ پہنا کر جایا کرتے جسے ’’چیسٹٹی بیلٹس‘‘ کہتے۔

انگلینڈ میں 19ویں صدی کے آغاز تک منڈیوں کے علاوہ عورتوں کی خرید و فروخت اخباری اشتہارات کے ذریعہ بھی ہوتی تھی اور اب؟ لیکن یہ سب ’’اوور نائٹ‘‘ نہیں ہوا اور نہ کبھی ہو گا۔ثقہ ترین ڈکشنریوں کے مطابق عورت ہے کیا؟"AN ADULT HUMAN BEING"یا پھر ......"A PERSON CONSIDERED AS HAVING FEMALE CHARACTERISTIC SUCH AS MEEKNESS"مجھے خود اس طرح کی خبریں پڑھ کر مرد کی عقل پہ رونا آتا ہے کہ ’’لڑکی‘‘ ایک معمولی مختصر سے آپریشن تھیٹر میں ایک دروازے سے داخل ہوتی ہے، مائینر سرجری کے بعد دوسرے دروازے سے ’’لڑکا‘‘ بن کر ’’نکلتا‘‘ ہے تو اس کے حقوق میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔

واقعی ایک آدھ کروموسوم کی اونچ نیچ سے حقوق و اختیارات میں یہ فرق غیرانسانی ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ذاتی طور پر مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ عورتوں اور مردوں یعنی دونوں فریقوں نے عورت کی EQUALITY کو UNIFORMITY کے ساتھ گڈمڈ اور کنفیوژ کس طرح کیا کہ یہ سارا کیا دھرا اسی حماقت، لاعلمی اور کنفیوژن کا ہے جسے علمی فکری انداز میں دور کرنے کی ضرورت ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جس جس سماج میں جیسے جیسے یہ کنفیوژن دور ہوتا گیا، یہ مسئلہ طے ہوتا گیا ورنہ وہی جو لینن نے کہا تھا کہ قانون پاس کرنے میں لمحے، عملدرآمد میں برسوں لگیں گے۔یہاں منیر نیازی یاد آتے ہیں جو طنزیہ آواز میں کہا کرتے تھے کہ یہ اک ایسا بددعایا ہوا معاشرہ ہے جس میں آدھی آبادی کو گھروں میں قید کرکے باقی آدھی آبادی گھروں کے باہر لاٹھیاں لیکر بیٹھی ان کی ’’حفاظت‘‘کر رہی ہے۔

ملی نغموں اور ترانوں سے باہر نکل کر دیکھیں تو پاکستان کا جو حال ہے اس میں پوری بالغ آبادی اوور ٹائم کے ساتھ بھی کام کرے تو کم ہے لیکن ہم خود ہی اپنے لئے پتوار کے بجائے لنگر بنے ہوئے ہیں سو’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آستہ ‘‘انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ’’خاندان‘‘ ہے جس کے دوستون ہیں۔

مرد اور عورت ایک ستون کو بڑا یعنی لمبا اور دوسرے ستون کو چھوٹا اور کمزور رکھ کر اس پر خوشحالی کی چھت ڈالنے کا خواب دیکھنے والے ’’مقروض‘‘ مردوں کو اسی چھت کے نیچے دفن ہونے کیلئے تیار رہنا چاہئے تو دوسری طرف ہماری جنگجو خواتین کو بھی سوچنا چاہئے کہ اپنے حقوق کی یہ جنگ جیتنے کیلئے انہیں کس قسم کے ہتھیاروں بلکہ اوزاروں کی ضرورت ہے۔

آخری بات یہ کہ میں غیرمشروط طور پر حقوق کے حصول کی اس مقدس جنگ میں ان کے ساتھ ہوں۔تیری روح تیری مرضی تیری ذات تیری مرضی تیری سوچ تیری مرضی کہ’’جسم‘‘ فانی اور محدود ہے اور آپ لافانی اور لامحدود!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top