محمد وارث

لائبریرین
مستانہ کشتگانِ تو ہر سُو فتادہ اند
تیغِ ترا مگر کہ بہ مے آب دادہ اند


میر اشکی قُمی

تیرے مارے ہوئے ہر طرف مست پڑے ہوئے ہیں، شاید کہ تیری تلوار کو مے ساتھ آب و تاب دی گئی ہے (مے کے ساتھ آبیاری کی گئی ہے)۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ز غصہ چون پرِ کاہے شود ز قصہء من
اگر بہ کوه دہم شرح ، آرزوئے ترا

اگر میں کوہ سے تیری آرزو کا فسانہ کہہ ڈالوں
تو یہ غم و غصے سے ورقِ خشک کی مانند ہو جائے

شاطرعباس صبوحی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بندگانِ خاصِ علّام الغیوب
در جہان ِجاں جواسیس القلوب
مولانا۔
علام الغیوب کے خاص بندے ۔
دلوں کی دنیا کے جاسوس ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
سرمایهٔ هر قطره که گم گشت به دریا
سودی‌ست که مانا به زیان است و زیان نیست
(غالب دهلوی)

لغت: "مانا" = ملتا جلتا، مانا میں الفِ آخر فاعلی ہے، ملنے جلنے والا جیسے دانا کا الفِ آخر یعنی جاننے والا۔
ہر اُس قطرے کا سرمایہ جو سمندر میں گم ہو گیا، ایک سود (نفع) ہے جو بظاہر زیاں نظر آتا ہے لیکن زیاں نہیں ہے۔
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
قطرہ سمندر میں غرق ہو کر بظاہر اپنا وجود کھو دیتا ہے لیکن حقیقت میں وہ قطرے سے سمندر بن جاتا ہے۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
به حسنِ خُلق و حسنِ چهره مانَند
به اصحابِ بهشت اصحابِ لاهور
(طالب آملی)

حُسنِ خُلق اور حُسنِ چہرہ میں اہلِ لاہور اہلِ بہشت سے مشابہت رکھتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
گمانم نیست کاندر هفت کشور
بوَد شهری به آب و تابِ لاهور
(طالب آملی)

میرا نہیں گمان کہ ہفت اِقلیم میں کوئی شہر لاہور کی آب و تاب والا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بناز کشت جہانے بُتِ ستم گرِ من
ہنوز برسرِ ناز است ناز پرورِ من


ابوالقاسم نجم الدین قاسم کاہی کابلی

میرے ستم گر محبوب نے اپنے ناز سے ایک جہان کو مار دیا اور پھر بھی وہ میرا ناز پرور ابھی تک اپنے ناز ہی میں ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
گر شعر مرا نہند زیں پس نامے
گر وحی نہ گویند کم از الہامے

امیر خسرو

اگر میرے شعر کا اس زمانے کے بعد کوئی نام رکھا جائے گا تو لوگ اسے اگرچہ وحی نہیں کہیں گے تو کم از کم الہام ضرور کہیں گے-
(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
 

حسان خان

لائبریرین
بی وجودِ ما همین هستی عدم خواهد شدن
تا درین آیینه پیداییم عالم عالم است
(بیدل دهلوی)

ہمارے وجود کے بغیر یہی ہستی عدم ہو جائے گی؛ جب تک اِس آئینے میں ہم ظاہر ہیں، دنیا دنیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ناکس ز تنومندیِ ظاهر نشود کس
چون سنگِ سرِ ره که گران است و گران نیست
(غالب دهلوی)

ایک ناکَس (گھٹیا) انسان ظاہراً تنومندی سے کَس (عظیم) نہیں بن سکتا، اس راستے کے پتھر کی طرح کہ بھاری تو ہوتا ہے لیکن گراں نہیں ہوتا (یعنی اس کی قدر و اہمیت کچھ نہیں ہوتی)۔
انسان کو اُس کی ظاہراً نمود و نمائش، بڑا انسان نہیں بناتی۔ بڑا انسان بننے کے لیے اعلیٰ کردار اور بلند شخصیت درکار ہوتی ہے۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

صائمہ شاہ

محفلین
به حسنِ خُلق و حسنِ چهره مانَند
به اصحابِ بهشت اصحابِ لاهور
(طالب آملی)

حُسنِ خُلق اور حُسنِ چہرہ میں اہلِ لاہور اہلِ بہشت سے مشابہت رکھتے ہیں۔
یہاں متفق کی ریٹنگ بنتی ہے مگر زبردست کو ٹو ان ون سمجھیں :)
 

یاز

محفلین
دم بدم چوں تو مراقب میشوی
داد می بینی زداور اے غوی
(مولانا رومی)


لمحہ بہ لمحہ جب تو غور کرے گا۔ اے گمراہ! تو خدا کی جانب سے انصاف دیکھے گا۔
 

یاز

محفلین
چہ ساز بود کہ بنواخت مطربِ عشاق
کہ رفت عمر و ہنوزم دماغ پرز صداست
(حافظ شیرازی)


وہ کیا ساز تھا جو عاشقوں کے مطرب نے چھیڑا۔ کہ عمر بیت گئی لیکن آواز سے میرا دماغ ابھی تک پُر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اے گریہ،بیا، در غمِ ہجرَش مددے کُن
اے نالہ، برو، در دلِ سختش اثرے کُن


ہلالی چغتائی

اے گریہ، آ، اور اُس کے ہجر کے غم میں کوئی مدد کر، اور اے نالہ، جا اور اُس کے سخت دل میں کچھ اثر کر۔
 

طالب سحر

محفلین
از گناہ بندۂ صاحب جنون
کائنات تازہ ئی آید برون
شوق بیحد پردہ ہا را بر درد
کہنگی را از تماشا می برد

اقبال

عشق کی جذبوں سے سرشار ایک بندے کے گناہ سے ایک نئی کائنات وجود میں آتی ہے-
حد سے بڑھا ہوا عشق سارے پردے پھاڑ (ہٹا) دیتا ہے، اور اس کے تماشے سے قدامت پرستی کا خاتمہ کر دیتا ہے-
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خاموش مانده معبدِ متروکِ سینه‌ام
در او نه آتشی، نه ز گرمی نشانه‌ای
(سیمین بهبهانی)

میرے سینے کا متروک معبد خاموش رہ گیا ہے؛ (اب) اُس میں نہ کوئی آتش ہے، اور نہ گرمی کا کوئی نشان۔
 

حسان خان

لائبریرین
(پیامبرِ عشق)
تو پیامبرِ عشقی و من
آیه‌های تمنّا را
در صحیفهٔ چشمانت
می‌خوانم.
اما چه سازم که
در کفرستانِ دلم
برای پذیرشِ آیینِ تو
جایی نیست!
(ماه‌رخ نیاز)
کابل
۱۳۶۰هش


(پیغمبرِ عشق)
تم پیغمبرِ عشق ہو اور میں
تمنّا کی آیتوں کو
تمہاری آنکھوں کے صحیفے میں
پڑھتی ہوں۔
لیکن کیا کروں کہ
میرے دل کے کفرستان میں
تمہارے مذہب کی قبولیت کے لیے
کوئی جگہ نہیں ہے!
(ماہ رخ نیاز)
کابل
۱۹۸۱ء
 
Top