فارسی شاعری جہاں بھی لکھی ہو زیر اضافت کہیں بھی نہیں ڈالتے۔ریحان بھائی، میرے خیال سے مصرعِ ثانی میں خیال اور آسمان ہا کے درمیان بھی اضافت ہے یعنی فانوسِ خیالِ آسمان ہا۔
آسمان کو فانوسِ خیال سے تشبیہ دی گئی ہے اور اُس کا شمع جیسے یار کے گرد رقص کرنا بیان کیا گیا ہے۔
فارسی گویوں کو مشکل نہیں ہوتی کیونکہ عموماً یہ واضح رہتا ہے کہ اضافتیں کہاں کہاں موجود ہیں اور پھر وہ طفلی سے پڑھتے پڑھتے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اکثر کتابوں میں صرف وہیں زیرِ اضافت ڈالی جاتی ہے جہاں اِس کے بغیر ابہام کا خدشہ ہو۔فارسی شاعری جہاں بھی لکھی ہو زیر اضافت کہیں بھی نہیں ڈالتے۔
اس سے پڑھنے والوں کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا؟
وارث بھائی، اس بہترین شعر کے مصرعِ اول میں 'چرخ' اور 'زحمت' کے درمیان 'تو' غلطی سے حذف ہو گیا ہے۔عشق خصمِ من بس است اے چرخ زحمت مکش
درست فرمایا آپ نے خان صاحب اور شکریہ نشاندہی کے لیے، نوازش برادرموارث بھائی، اس بہترین شعر کے مصرعِ اول میں 'چرخ' اور 'زحمت' کے درمیان 'تو' غلطی سے حذف ہو گیا ہے۔
مولوی محمد احتشام الدین حقی دہلوی نے اس غزل کا یوں منظوم ترجمہ کیا ہے:صلاح کار کجا و من خراب کجا
ببین تفاوت ره کز کجاست تا به کجا
چه نسبت است به رندی صلاح و تقوا را
سماع وعظ کجا نغمه رباب کجا
ز روی دوست دل دشمنان چه دریابد
چراغ مرده کجا شمع آفتاب کجا
مبین به سیب زنخدان که چاه در راه است
کجا همیروی ای دل بدین شتاب کجا
قرار و خواب ز حافظ طمع مدار ای دوست
قرار چیست صبوری کدام و خواب کجا
حافظ شیرازی
صلاح کار کہاں اور دلِ خراب کہاں
کہاں یہ جادۂ مستاں، رہِ صواب کہاں
علاقہ زہد کو کیا کاروبارِ رنداں سے
سماع و واعظ کہاں نغمۂ رباب کہاں
رخ ِنگار سے الجھے گا کیا رقیب کا دل
چراغ مردہ کہاں شمع آفتاب کہاں
کنواں ہے راہ میں اس شوخ کے زنخداں کا
ٹھہریے حضرتِ دل، چل پڑے جناب کہاں
فسانہ خواب کا حافظ سے پوچھتے کیا ہو
نہ ہے قرار، نہ آسودگی تو خواب کہاں
ترجمہ: مجروح سلطانپوری
مجروح نے حافظ کی اس غزل کے آٹھ میں سے صرف پانچ اشعار ترجمہ کئے تھے- مکمل غزل محفل اور گنجور پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے؛ اس کا وہ ترجمہ جو ڈاکٹر خالد حمید نے کیا تھا، محفل پر یہاں موجود ہے- اس غزل کے پہلے شعر کے قوافی پر محفل میں کچھ گفتگو بھی ہوئی تھی -
ویسے دوسرے مصرعے کا یہ ترجمہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ صاحب نفس کف خاک ہو جائے؟تلاش حقیقت ہمیں است و بس
کہ گردد کف خاک صاحب نفس
حقیقت کی تلاش بس اسی قدر ہے کہ یہ مٹھی بھر مٹی (انسان) صاحب نفس (مطمئنہ) بن جائے۔
میرزا عبدالقادر بیدلؒ
تلاش حقیقت ہمیں است و بس
کہ گردد کف خاک صاحب نفس
حقیقت کی تلاش بس اسی قدر ہے کہ یہ مٹھی بھر مٹی (انسان) صاحب نفس (مطمئنہ) بن جائے۔
میرزا عبدالقادر بیدلؒ
یہ نفسِ مطمئنہ والا ترجمہ جس نے بھی کیا ہے، اپنی نفسانی خواہش کے مطابق کیا ہےویسے دوسرے مصرعے کا یہ ترجمہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ صاحب نفس کف خاک ہو جائے؟
یہ نفسِ مطمئنہ والا ترجمہ جس نے بھی کیا ہے، اپنی نفسانی خواہش کے مطابق کیا ہے
عربی میں زیرزبر سے تو ایمان بھی زیر و زبر ہو جاتا ہے، عربی میں نفس دو تلفظوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ نَفَس، فے کی حرکت کے ساتھ بروزنِ چمن، اس کا مطلب سانس ہے۔نف،س، فے کے سکون کے ساتھ بر وزنِ درد، اس کا مطلب، روح، ہستی، وغیرہ وغیر ہ ہے۔
قرآن اور مذہبیات میں جو نفسِ مطمئنہ یا نفسِ امارہ یا لوامہ استعمال ہوتے ہیں وہ یہی دوسرے والا ہے یعنی نف،س۔
شعر کے وزن کو اگر دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر بیچارے نے نَفَس باندھا ہے، صاحب نَفَس یا سانسوں کا مالک یعنی زندہ انسان، یعنی شعرکا مطلب وہ ہوگا جو قریشی صاحب نے لکھا یعنی حقیقت کی تلاش بس یہی ہے کہ ایک زندہ انسان خاک کی مٹھی ہو جائے۔باقی چونکہ بیدل کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ لکھا جاتا ہے سو شعر کا ترجمہ بھی اسی پس منظر میں کر دیا گیا ہے۔