ارتضی عافی
محفلین
باشہ تشکر آغا جانارتضی عافی
شما اینجا شعرھاے فارسی را با ترجمہء اردو خاندہ مے تانین
باشہ تشکر آغا جانارتضی عافی
شما اینجا شعرھاے فارسی را با ترجمہء اردو خاندہ مے تانین
عالی استگر چو فرہادم بتلخی جاں برآید حیف نیست
بس حکایتہائے شیریں باز مے ماند ز من
اگر کڑواہٹ سے فرہاد کی طرح میری جان نکل جائے کوئی افسوس نہیں۔ بہت سی میٹھی حکایتیں تو میری باقی رہ جائیں گی
ترجمہ:قاضی سجاد حسین
(یہاں لفظ "شیریں" ذوالمعنی ہے۔اس سے مراد فرہاد کی معشوق شیریں بھی ہوسکتی ہے اور اس کا اصلی مطلب میٹھی بھی ہوسکتی ہے)
بہت ممنون ہو بھائی صاحب، دراصل فارسی سے قطعی نابلد ہوں اور ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس میں مصنف نے فارسی اشعار کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔۔ سو پڑھ تو لیتا ہوں مگر اشعار کا مفہوم نہ معلوم ہونے کے سبب تشنگی رہ جاتی ہے۔۔ بہر حال بہت شکریہ(اے) صنم کہ مجھے اپنے دین و دل پر اعتماد نہیں ہے
آدھے غمزہ میں اِس کو(دل) اور اُس کو(دین) کو لُوٹ لو۔
یہ غمزہ ہے، غمزدہ نہیں۔
غمزہ=آنکھ کا اشارہ
اِس مصرعے میں خار اور سر کے مابین بھی اضافت آئے گی۔من از روئیدنِ خار سرِ دیوار فہمیدم
وارث بھائی، فارسی میں اِس مصدر کا درست املاء 'گذشتن' ہے۔بے نیازانہ ز اربابِ کرم می گزرم
چوں سیہ چشم کہ بر سرمہ فروشاں گزرد
طالب آملی
میں اربابِ کرم کے پاس سے بے نیازانہ گزر جاتا ہوں جیسے کہ سیاہ آنکھوں والا سرمہ فروشوں کے پاس سے گزر جاتا ہے۔ (جیسے سیاہ آنکھوں والے کو سرمے کی حاجت نہیں ہوتی ویسے مجھے بھی لوگوں کے کرم اور مہربانی کا احسان لینے کی حاجت نہیں)۔
ویسےگ کے ساتھ ذ آئے تو ایک عجیب سی چبھن کاسا احساس ہوتا ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے ساچق میں چ کے ساتھ ق کا آنا ۔وارث بھائی، فارسی میں اِس مصدر کا درست املاء 'گذشتن' ہے۔
برادر جان، ایسا ہی ایک اور شعر دیکھیے:گر چو فرہادم بتلخی جاں برآید حیف نیست
بس حکایتہائے شیریں باز مے ماند ز من
اگر کڑواہٹ سے فرہاد کی طرح میری جان نکل جائے کوئی افسوس نہیں۔ بہت سی میٹھی حکایتیں تو میری باقی رہ جائیں گی
ترجمہ:قاضی سجاد حسین
(یہاں لفظ "شیریں" ذوالمعنی ہے۔اس سے مراد فرہاد کی معشوق شیریں بھی ہوسکتی ہے اور اس کا اصلی مطلب میٹھی بھی ہوسکتی ہے)
آوازِ تیشه امشب از بیستون نیامد
شاید به خوابِ شیرین فرهاد رفته باشد
(بِندرابن داس خوشگو)
آج شب بیستون سے تیشے کی آواز نہیں آئی؛ شاید فرہاد خوابِ شیریں میں چلا گیا ہو۔
خوابِ شیریں میں ایہام ہے، اس کا مطلب 'میٹھی نیند' بھی ہو سکتا ہے اور 'شیریں کا خواب' بھی۔ شعر کا سارا لطف اسی ذومعنی ترکیب سے ہے۔
بیستون = وہ کوہ جہاں پر فرہاد شیریں کے لیے جوئے شِیر کھودا کرتا تھا
تیشہ = سنگ تراشی اور چوب تراشی کا آلہ، کلہاڑا
ویسے جن فارسی الاصل الفاظ میں 'ذ' موجود ہے اُنہیں اوائل میں عربی کی طرح ذال کی آواز ہی کے ساتھ تلفظ کیا جا تا تھا۔ اِس کے علاوہ ایک قاعدہ یہ بھی تھا کہ جن فارسی الفاظ میں دال سے قبل کوئی حرفِ صامت یا حرکت ہوتی تھی، اُن میں دال کو ذال لکھا اور پڑھا جاتا تھا۔ خراسانی عہد کے کئی قلمی نسخوں میں اِس قاعدے کی پیروی کی گئی ہے۔ قرنِ سیزدہمِ میلادی کے بعد سے یہ ذال، جسے ذالِ معجم کے نام سے جانا جاتا ہے، فارسی زبان سے مفقود ہو گیا تھا، اور اُس دور کی اب شائع ہونے والی اغلب کتابوں میں بھی جدید املاء ہی استعمال کیا جاتا ہے جن میں ذال کا یہ استعمال نظر نہیں آتا۔ لیکن چند فارسی الفاظ مثلاً گذشتن، پذیرفتن، آذر وغیرہ کے معیاری املاء میں اِس کی نشانی باقی رہ گئی ہے۔ویسےگ کے ساتھ ذ آئے تو ایک عجیب سی چبھن کاسا احساس ہوتا ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے ساچق میں چ کے ساتھ ق کا آنا ۔
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنین هایل
کجا دانند حالِ ما سبکبارانِ ساحلها
(حافظ شیرازی)
بجا فرمایا آپ نے خان صاحب، کوشش میری یہی ہوتی ہے کہ اس کو ذال ہی سے لکھوں لیکن ساری عمر سے اردو میں زے دیکھ دیکھ کر کبھی کبھی انجانے میں زے ہی سے لکھ جاتا ہوںوارث بھائی، فارسی میں اِس مصدر کا درست املاء 'گذشتن' ہے۔
اِس شعر کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح قسم کے بغیر کوئی شخص کسی دروغ پر یقین نہیں کرتا، اُسی طرح تمہارے بغیر کسی کو میری ہستی کا باور نہیں ہے۔کسے بدونِ تو باور نکردہ است مرا
کہ با تو نسبتِ من چون دروغ با قسم است
(فاضل نظری)
تیرے سوا کسی کو مجھ پر یقین نہیں رہا کہ تیرے ساتھ میری نسبت اس جھوٹ کی طرح ہے جس پر قسم (کھائی جاتی)ہے (یعنے جیسے جھوٹ پر قسم کھائی جائے تو جھوٹ مضبوط ہوجاتا ہے، اتنی مضبوط میری تیرے ساتھ نسبت ہے)۔
از تپشهای پرِ پروانه میآید به گوشاز تپش ہائے پر پروانہ می آید بہ گوش
آشنائے شمع را بیرون محفل آتش است
(محفل کے باہر) گرمیوں سے پروانے کا پر کان تک آتا ہے۔ شمع کے آشنا کو بیرون محفل آتش ہے۔
ابوالمعانی میرزا عبد القادر بیدل