محمد وارث

لائبریرین
لیکن یہ خاطر نشین رکھیے کہ 'اقبال' کا لفظ کئی فارسی ابیات میں بھی استعمال ہوا ہو گا۔ :)
جن شعرا کا یہاں ذکر ہوا ہے ان کے زیادہ کلام کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ حافظ کا اردو ترجمہ مقبول و معروف ہے، میرا پہلا فارسی دیوان بھی یہی حافظ مترجم تھا۔ سعدی کی گلستان و بوستان کے تراجم ہو چکے لیکن غزلیات کے نہیں ہوئے جو اب ہو رہے ہیں۔ صائب زود فہم اور انتہائی اچھا شاعر ہے اور اس لیے شاید زیادہ ترجمہ ہوتا ہے۔ اقبال کے اردو تراجم معروف ہیں۔ رومی کی غزلیات کے اردو تراجم کبھی نہیں ہوئے، اب ہو رہے ہیں لیکن مثنوی کی شہرت ہر جگہ ہے۔ بیدل کا کلام مشکل ہے لیکن بیدل یہاں کافی مقبول ہے اور مکمل ترجمہ تو نہیں لیکن پھر بھی کافی کلام کا ترجمہ پہلے ہو چکا ہے۔ عمر خیام برصغیر میں بہت معروف رہا ہے لیکن یہاں کلام نہ ہونے کے برابر میں ہے، میں نے خود بھی کی بار کوشش کی لیکن پھر نہ جانے کیوں رک سا جاتا ہوں :)
 

حسان خان

لائبریرین
تو شعرِ سعدی می‌خواندی و من رویِ تو می‌دیدم
من از هر بیتِ سعدی بیتِ ابرویِ تو می‌دیدم
(لایق شیرعلی)

تم شعرِ سعدی پڑھ رہی تھی اور میں تمہارا چہرہ دیکھ رہا تھا؛ میں سعدی کی ہر بیت میں تمہارے ابروؤں کی بیت دیکھ رہا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مولوی رومی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مصرعِ زیبا دیکھیے:
من و بالای مناره، که تمنای تو دارم...
میں ہوں اور مینار کا بالائی حصہ ہے، کہ میں تمہاری تمنا رکھتا ہوں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
مدعی در گذر از دعویء طرز بیدل
سحر مشکل کہ بہ اندازہ ء اعجاز رسد

اے مدعی ، تو بیدل کے انداز کے دعوےکو چھوڑ ہی دے تو اچھا ہو
جادو،خواہ کتنا ہی موثر کیوں نہ ہومعجزے کےآگےبھلاکب ٹھہرتا ہے
ابو المعانی
صدرالدین عینی اپنی کتاب 'میرزا عبدالقادرِ بیدل' میں لکھتے ہیں:
نویسنده و شاعرِ متفکرِ عصرِ نوزدهمِ بخارا - احمد دانش (وفاتش ۱۸۹۷) بیدل را بسیار دوست می‌داشت و بعضی چیزهای دشوارفهمِ او را شرح می‌کرد. اما خود نه در نظم و نه در نثر اسلوبِ او را تقلید نمی‌کرد و هم‌صحبتانِ خود را از تقلید کردنِ او منع می‌نمود و به طرزِ هزل می‌گفت: "بیدل پیغمبر است، معجزه را در اختیارِ پیغمبر گذاشتن درکار است. شما ولی شده کرامات نشان دهید هم می‌شود".

بخارا کے قرنِ نوزدہم کے مصنف اور مفکر شاعر احمد دانش (م ۱۸۹۷) بیدل کو بسیار محبوب رکھتے تھے اور اُس کی بعض دشوار فہم چیزوں کی شرح کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ خود نظم اور نثر دونوں میں اُس کے اسلوب کی تقلید نہیں کرتے تھے اور اپنے ہم صحبتوں کو اُس کی تقلید کرنے سے منع کرتے تھے اور شوخی سے کہا کرتے تھے کہ "بیدل پیغمبر ہے، معجزے کو پیغمبر ہی کے تصرف میں رہنا چاہیے۔ آپ ولی بن کر کرامات دکھا دیں، تب بھی کام چل جائے گا۔"
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
حاجی بعزمِ کعبہ کہ احرام بستہ ای
در دیدہ ساز جائے مغیلاں چنانکہ من


خواجوی کرمانی

اے حاجی کہ تُو نے کعبہ کا عزم کیے ہوئے احرام باندھ لیا ہے تو اب (راستے کے) کانٹوں کے لیے آنکھوں میں جگہ بھی بنا، میری طرح۔
 
دلِ دردمندِ سعدی ز محبتِ تو خون شد
نہ کُشی بہ تیغِ ہجرش نہ بہ وصل مے رسانی
(سعدی شیرازی)

سعدی کا دلِ دردمند تیری محبت سے خون ہوگیا
نہ تو اسے شمشیرِ ہجر سے قتل کرتا ہے، نہ اسے (فردوسِ)وصل تک پہنچاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
برِ دربانِ تو آیم ندهد راه و براند
خبرش نیست که پنهان چه تماشای تو دارم
(مولانا جلال‌الدین رومی)

میں تمہارے دربان کے پاس آتا ہوں، وہ (مجھے) راہ نہیں دیتا اور بھگا دیتا ہے؛ اُسے خبر نہیں ہے کہ میں (اپنے) باطن میں تمہارا کیسا تماشا رکھتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
دلِ دردمندِ سعدی ز محبتِ تو خون شد
نہ کُشی بہ تیغِ ہجرش نہ بہ وصل مے رسانی
(سعدی شیرازی)

سعدی کا دلِ دردمند تیری محبت سے خون ہوگیا
نہ تو اسے شمشیرِ ہجر سے قتل کرتا ہے، نہ اسے (فردوسِ)وصل تک پہنچاتا ہے۔
تخاطب کے اسلوب سے ایسا لگتا ہے یہاں ہجرش کے بجائے ہجرت ہونا چاہیئے ۔ گنجور میں یہ شعر اس طرح ہے ۔
دل دردمند سعدی ،ز محبت تو خون شد
نہ بہ وصل می رسانی نہ بہ قتل می رہانی
 

حسان خان

لائبریرین
تخاطب کے اسلوب سے ایسا لگتا ہے یہاں ہجرش کے بجائے ہجرت ہونا چاہیئے ۔ گنجور میں یہ شعر اس طرح ہے ۔
دل دردمند سعدی ،ز محبت تو خون شد
نہ بہ وصل می رسانی نہ بہ قتل می رہانی
نہ کُشی بہ تیغِ ہجرش میں 'ش' مفعولی ہے، یعنی نہ تو اُسے تیغِ ہجر سے قتل کرتے ہو۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
عمرِ من بی‌رُخت ای زهره‌جبین می‌گذرد
حیف از اوقاتِ شریفم که چنین می‌گذرد
(مولانا خضری)

اے زہرہ جبیں! میری عمر تمہارے چہرے کے بغیر گذر رہی ہے؛ میرے اوقاتِ شریف پر افسوس، جو اِس طرح گذر رہے ہیں!
 
آخری تدوین:
تخاطب کے اسلوب سے ایسا لگتا ہے یہاں ہجرش کے بجائے ہجرت ہونا چاہیئے ۔ گنجور میں یہ شعر اس طرح ہے ۔
دل دردمند سعدی ،ز محبت تو خون شد
نہ بہ وصل می رسانی نہ بہ قتل می رہانی
یہ لغت نامہء دہخدا میں اس طرح درج تھا، لہٰذا میں نے اسی طرح لکھ دیا تھا، البتہ تصحیح کا بسیار سپاس گزار ہوں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در سخن، طُغرل، طریقِ پُختگان را پیشه کن
میوه‌ات گر خام باشد، نیست در دندان لذیذ
(نقیب خان طغرل احراری)

اے طغرل! سخن میں پُختوں کی راہ کو اپناؤ؛ اگر تمہارا میوہ خام ہو تو وہ دانتوں میں لذیذ نہیں لگتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای نگاهِ شفقت‌آمیزت مرا از جان لذیذ
هر چه باشد در جهان خوش‌تر، مرا از آن لذیذ
(نقیب خان طغرل احراری)

اے تمہاری نگاہِ شفقت آمیز مجھے جان سے (زیادہ) لذیذ ہے؛ (اور) دنیا میں جو کچھ بھی خوب تر ہو، مجھے اُس سے (زیادہ) لذیذ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شُهرهٔ آفاق شد از عشقِ شیرین کوه‌کَن
نام مجنون است از سودای لیلی یادگار
(نقیب خان طغرل احراری)

فرہادِ کوہ کَن شیریں کے عشق سے شہرۂ آفاق ہوا، اور مجنوں کا نام لیلیٰ کی محبت کے سبب یادگار ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تونگر را نہ زیبد لب بخواہش آشنا کردن
چوں نبود دست خالی بدنما باشد دعا کردن


غنی کاشمیری

مالدار اور دولت مند لوگوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے ہونٹوں پر مزید خواہشیں لائیں، کہ جیسے جب ہاتھ خالی نہ ہوں (ہاتھوں میں کوئی چیز ہو) تو دعا کرنا بدنما ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
می‌کَشد قُلّابِ جذبِ عشق سُویت دم به دم
بسملِ شوقِ تو‌اَم، بال و پری درکار نیست
(نقیب خان طغرل احراری)

عشق کی کشش کا قُلّاب (مجھے) ہر دم تمہاری جانب کھینچتا ہے؛ میں تمہارے اشتیاق کا بسمل ہوں، (مجھے) کوئی بال و پر درکار نہیں ہیں۔
× قُلّاب = شکاری کانٹا، ہُک
 

حسان خان

لائبریرین
غمِ تو، تا نَفَس باقی‌ست، با من هر نَفَس بادا
به جز روی گُلت دیگر به چشمم خار و خس بادا
(نقیب خان طغرل احراری)

جب تک نَفَس باقی ہے، تمہارا غم میرے ساتھ ہر نَفَس رہے؛ تمہارے چہرۂ گل کے سوا ہر دیگر چیز میری نظر میں خار و خس ہو جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چو مرغِ بی‌پر و بالم من از افتادگی، لیکن
به سویت بی‌توقف چون نگه پرواز می‌کردم
(نقیب خان طغرل احراری)

میں افتادگی کے باعث بے پر و بال پرندے کی مانند ہوں، لیکن میں تمہاری جانب نگاہ کی طرح بے توقف پرواز کرتا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بسکه از سر تا به پای او لطافت می‌چکد
وصفِ او سازی، دهانت گردد از گفتار تر
(نقیب خان طغرل احراری)

اُس کے سر سے پا تک اِتنی زیادہ لطافت ٹپکتی ہے کہ (اگر) تم اُس کا وصف بیان کرو تو تمہارا دہن گفتار سے تر ہو جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
طغرل، آسایش اگر خواهی تو اندر روزگار
دستِ خود کوتاه کن جز عشق از کارِ دگر
(نقیب خان طغرل احراری)

اے طغرل! اگر تم زمانے میں آسائش چاہتے ہو تو عشق کے سوا (ہر) کارِ دیگر سے اپنا دست کھینچ لو۔
 
Top