محمد ریحان قریشی
محفلین
مفہوم تو میرے ذہن میں بھی پہلے والا تھا مگر میں نے اسے پرِ پروانہ می آید بہ گوش یعنی پروانے کا پر کان تک آتا ہے پڑھا۔از تپشهای پرِ پروانه میآید به گوش
کاشنای شمع را بیرونِ محفل آتش است
کاشنا = که آشنا
بہتر ترجمہ: پروانے کے پر کی تپشوں سے سنائی دیتا ہے (یعنی معلوم ہوتا ہے) کہ آشنائے شمع محفل کے باہر آتش میں ہے۔
اِس شعر کا مضمون واضح نہیں ہے، لیکن جو مفہوم میرے ذہن میں متشکل ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ پروانہ، کہ شمع کا آشنا ہے، اپنی محفل یعنی شمع کے باہر مضطرب ہے اور اُس کے پروں کی پُراضطراب تپش و لرزش کی آواز سے شاعر کو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ پروانہ وصالِ شمع کے بغیر گویا آتش میں جل رہا ہے اور اپنی محفل میں ورود کے لیے بے تاب ہے۔ یعنی اگر کوئی دیگر ہوتا تو وہ شمع کے نزدیک آنے پر جلتا، لیکن شمع کا عاشق پروانہ شمع سے دوری کے باعث جل رہا ہے۔
پس نوشت: یہ مفہوم بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ شاعر نے پروانے کے پر کی تپشوں سے یہ عمومی نتیجہ نکالا ہے کہ جو کوئی بھی شمع کا آشنا ہو، وہ محفل سے باہر اضطراب کی حالت میں سوزاں رہتا ہے، یا یہ کہ بیرونِ محفل اُس کے لیے آتش کی مانند ہے۔
میں نے سوچا کہ شاید کوئی محاورہ ہو۔ تھوڑا زیادہ غور کرنا چاہیے تھا۔ تصحیح کے لیے شکر گزار ہوں۔