عبدالرحمٰن جامی کے ایک شعر کی تخمیس:
دردِ ما از تُست، چون جوییم درمان از طبیب؟
چند داری خویش را دور از محبّان ای حبیب؟
بر سرِ خوانِ وصال اغیار و یاران بینصیب
سوخت جانِ بیدلان از داغِ حرمان و رقیب
در حریمِ خلوتِ خاصِ تو محرم همچنان
(موالی تُونی)
ہمارا درد تم سے ہے، ہم طبیب سے کیسے علاج تلاش کریں؟ اے حبیب! کب تک خود کو محبّوں سے دور رکھو گے؟ اغیار تو خوانِ وصال کے پہلو میں موجود ہیں جبکہ یاراں بے بہرہ ہیں۔ داغِ محرومی سے بے دلوں کی جان جل گئی اور رقیب تمہاری خلوتِ خاص کی حریم میں اُسی طرح محرم ہے۔