محمد وارث

لائبریرین

پھول سے نسبت نہیں کچھ روئے زیبا کو ترے
درمیاں پھولوں کے مثلِ خار ہے تیرا وجود
(احمد علی برقی اعظمی)
اعظمی صاحب کے ترجمے سے میں تھوڑا پہلے بھی گھبرایا تھا یعنی "درمیاں پھولوں کے مثلِ خار ہے تیرا وجود" یہاں یوں لگ رہے کہ پھولوں کے درمیان تیرا وجود مثلِ خار ہے، ظاہر ہے کہ سعدی کا یہ مطلب نہیں تھا بلکہ یہ ہے کہ درمیاں کانٹوں کے مثلِ گل تُو ہے۔ شاکر القادری صاحب کا ترجمہ خوب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اعظمی صاحب کے ترجمے سے میں تھوڑا پہلے بھی گھبرایا تھا یعنی "درمیاں پھولوں کے مثلِ خار ہے تیرا وجود" یہاں یوں لگ رہے کہ پھولوں کے درمیان تیرا وجود مثلِ خار ہے، ظاہر ہے کہ سعدی کا یہ مطلب نہیں تھا بلکہ یہ ہے کہ درمیاں کانٹوں کے مثلِ گل تُو ہے۔ شاکر القادری صاحب کا ترجمہ خوب ہے۔
آپ نے درست فرمایا۔ میرا اِس جانب پہلے خیال نہیں گیا تھا، لیکن ابھی آپ نے توجہ دلائی ہے تو واقعی یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اردو مصرعے میں مترجم الٹی بات کہہ گئے ہیں۔ اگر 'درمیاں خاروں کے مثلِ پھول۔۔۔' کہا ہوتا تو مفہوم کی درست تر ادائیگی ہو سکتی تھی۔ ممکن ہے مترجم نے یہی کہا ہو، لیکن انٹرنیٹ پر کتابت کی غلطی کی وجہ سے معکوس ہو گیا ہے۔
پس نوشت: 'مثلِ پھول' جیسی تراکیب اردو میں عموماً درست نہیں سمجھی جاتیں، اس لیے شاید اردو منظوم ترجمے کا متن وہی ہو جو گذشتہ مراسلے میں درج ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایک منظوم ترجمہ 'عین بیخود' صاحب کا بھی نظر آیا ہے:
پھول کو نسبت کہاں ہے روئے زیبا سے ترے
اس طرح پھولوں میں تو ہے، جس طرح کانٹوں میں پھول
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گفتم که از چه خواجهٔ انجم شد آفتاب
گفتا ز بندگیِ رخِ نازنینِ من
(فروغی بسطامی)

میں نے کہا کہ: خورشید کس سبب سے ستاروں کا سردار ہوا ہے؟ اُس نے کہا: میرے رخِ نازنین کی غلامی کے باعث۔
 

حسان خان

لائبریرین
عمری‌ست وفا مُمتحِنِ ناز و نیاز است
نی تیغ ز دستِ تو جدا شد نه سر از ما
(بیدل دهلوی)

وفا کو ناز و نیاز کا امتحان لیتے ہوئے ایک عمر ہو گئی ہے [لیکن] نہ تو تمہارے دست سے تیغ جدا ہوئی، اور نہ ہم سے [ہمارا] سر۔
 

حسان خان

لائبریرین
به عمر اگر عملی غیرِ عشق کردستی
کنون ز کردهٔ بی‌حاصلت پشیمان باش
(فروغی بسطامی)

اگر تم نے [اپنی] عمر میں عشق کے سوا کوئی عمل کیا ہے تو اب اپنے فعلِ بے حاصل پر پشیمان ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
چو دانه‌ای که بمیرد هزار خوشه شود
شدم به فضلِ خدا صد هزار چون مُردم
(مولانا جلال‌الدین رومی)

جس طرح کوئی دانہ مر کر ہزار خوشوں میں تبدیل ہو جاتا ہے؛ (اُسی طرح) جب میں مر گیا تو خدا کے فضل سے صد ہزار ہو گیا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
با خارِ غمم، خارِ گُل اے مُرغِ چمن چیست؟
کایں خارِ من اندر جگر و خارِ تو در پاست


اہلی شیرازی

میرے (محبوب کے) غم کے کانٹے کے سامنے اے مُرغِ چمن (تیرے محبوب) پھول کا کانٹا بھلا کیا حیثیت رکھتا ہے کیونکہ میرا کانٹا جگر میں ہے اور تیرا کانٹا پاؤں میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما از تو به غیر از تو نداریم تمنا
حلوا به کسی دِه که محبت نچشیده‌ست
(سعدی شیرازی)

ہم تم سے تمہارے سوا کوئی تمنا نہیں رکھتے؛ حلوا ایسے شخص کو دو جس نے محبت نہیں چکھی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چون شوق کامل افتاد حاجت به رهنما نیست
سیلاب را به دریا آخر که راهبر شد
(صائب تبریزی)

جب شوق کامل ہو جائے تو رہنما کی حاجت نہیں ہوتی؛ سیلاب کا بحر کی طرف آخر کون رہبر ہوا؟
 

حسان خان

لائبریرین
با غم رقیق طبعم از آن سان گرفت اُنس
كز در چو غم درآید گویدْش مرحبا

(مسعود سعد سلمان لاهوری)
غم کے ساتھ میری طبعِ رقیق اِس طرح مانوس ہو گئی ہے کہ جب غم دروازے سے اندر آتا ہے تو وہ اُسے مرحبا کہتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز طوفانِ سرشکِ خود به گردابی گرفتارم
که عمرِ نوح اگر یابم نبینم رویِ ساحل‌ها
(هلالی جغتایی)

میں اپنے اشکوں کے طوفان کے باعث ایسے گرداب میں گرفتار ہوں کہ اگر عمرِ نوح پاؤں تو بھی ساحلوں کا چہرہ نہیں دیکھ پاؤں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گر بادہ می خورم بسرِ من خمارِ تو
ور در چمن روم بدلم خار خارِ تو


امیر خسروؒ

اگر میں بادہ نوشی کرتا ہوں تو میرے سر میں تیرا ہی خمار ہے اور اگر میں چمن میں جاتا ہوں تو میرے دل میں تیری ہی خواہش اور آرزو ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کم از یک دم زدن ما را اگر در دیده خواب آید
غم عشقت بجنباند بہ گوش اندر جرس ما را

انوری
اگر ہماری آنکھوں میں لمحے بھر کو نیند آجاتی ہے ۔
تو تمہارے عشق کا غم ہمارے کان میں گھنٹی بجا دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به فغان نه لب گشودم که فغان اثر ندارد
غمِ دل نگفته بهتر همه کس جگر ندارد
(علامه اقبال)

میں نے فغاں کے لیے لب نہیں کھولے کہ فغاں اثر نہیں رکھتی؛ غمِ دل ناگفتہ ہی بہتر ہے کہ ہر کوئی جگر نہیں رکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
فغان که نیست به جز عیبِ یک‌دگر جُستن
نصیبِ مردمِ عالَم ز آشنایی هم
(صائب تبریزی)

افسوس کہ مردمِ عالَم کو آشنائی سے بھی بجز یک دیگر کے عیوب ڈھونڈنے کے کچھ نصیب نہیں ہوتا۔
× یک دیگر = ایک دوسرے
 

محمد وارث

لائبریرین
گرچہ بر واعظِ شہر ایں سخن آساں نشود
تا ریا ورزد و سالوس مسلماں نشود


حافظ شیرازی

اگرچہ واعظِ شہر کو یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوگی (لیکن یہ حقیقت ہے کہ) جب تک وہ ریا کاری و مکاری و فریب کاری و حیلہ کاری و دروغ گوئی کرتا رہے گا (صحیح معنوں میں) مسلمان نہ ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
حافظ، وظیفهٔ تو دعا گفتن است و بس
در بندِ آن مباش که نشْنید یا شنید
(حافظ شیرازی)

اے حافظ! تمہارا فریضہ دعا کرنا ہے اور بس۔۔۔ اِس فکر میں مت رہو کہ اُس نے سنی یا نہیں سنی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دوش می‌گفت که فردا بِدهم کامِ دلت
سببی ساز خدایا که پشیمان نشود

(حافظ شیرازی)
گذشتہ شب وہ کہہ رہا تھا کہ "میں فردا تمہارے دل کی مراد پوری کروں گا"؛ خدایا، کوئی ایسا سبب فراہم کر کہ وہ [اپنے کہے پر] پشیمان نہ ہو۔
 
آخری تدوین:
Top