مقدارِ یارِ همنَفَس چون من نداند هیچ کس
ماهی که بر خشک اوفتد قیمت بداند آب را (سعدی شیرازی)
کوئی بھی شخص میری طرح یارِ کی قدر و قیمت نہیں جانتا؛ جو مچھلی خشکی پر گر جائے، وہ ہی آب کی قیمت جانتی ہے۔
در دستِ روزگار گُلِ آرزوئے من
زآنگونہ شد فسردہ کہ بُو ہم نمی دہد
بابا فغانی شیرازی
زمانے کے ہاتھوں میں میری آرزؤں کا پھول کچھ اس طرح سے مُرجھایا اور مسلا گیا ہے کہ وہ اب خوشبو بھی نہیں دیتا۔ (مُرجھایا ہوا پھول پرانا ہو جائے تو اُس میں خوشبو بھی باقی نہیں رہتی)۔
که گفت در رخِ زیبا نظر خطا باشد
خطا بُوَد که نبینند رویِ زیبا را (سعدی شیرازی)
کس نے کہا کہ رُخ زیبا پر نظر کرنا خطا ہے؟ خطا تو یہ ہے کہ چہرۂ زیبا کو نہ دیکھا جائے۔
صرصرِ هجرِ تو، ای سروِ بلند
ریشهٔ عمرِ من از بیخ بِکند (رودکی سمرقندی)
اے سروِ بلند! تمہارے ہجر کی تُند و شدید بادِ سرد نے میری عمر کی بیخ کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ × بیخ = جڑ، بنیاد
تو را در آینه دیدن جمالِ طلعتِ خویش
بیان کند که چه بودهست ناشکیبا را (سعدی شیرازی)
تمہیں آئینے میں اپنے چہرے کی زیبائی کا نظارہ بیان کر دے گا کہ تمہارے عاشقِ بے صبر و حوصلہ پر کیا گذرتی رہی ہے۔
کسی ملامتِ وامق کند به نادانی
حبیبِ من که ندیدهست رویِ عذرا را (سعدی شیرازی)
اے میرے حبیب! وہ ہی شخص نادانی سے وامق کی ملامت کرتا ہے جس نے عذرا کا چہرہ نہ دیکھا ہو۔ × وامق، عذرا کا عاشق تھا۔
نه تختِ جم نه مُلکِ سلیمانم آرزوست
راهی به خلوتِ دلِ جانانم آرزوست (صائب تبریزی)
نہ مجھے تختِ جمشید اور نہ ملکِ سلیمان کی آرزو ہے؛ مجھے تو [فقط] محبوب کے دل کی خلوت تک ایک راہ کی آرزو ہے۔
بشْکند از جورِ گردون گر نسوزد دل ز عشق
دانهای کز برق سالم ماند رزقِ آسیاست (ناجی شیرازی)
اگر دل عشق سے نہیں جلتا تو اُسے چرخِ فلک کا ستم شکستہ کر دیتا ہے؛ جو دانہ برق سے سلامت رہ جائے وہ چکّی کا رزق بن جاتا ہے۔
گرچه پیدا و نهان با هم نمیگردند جمع
آن که پنهان است و پیدا در جهان پیداست کیست (صائب تبریزی)
اگرچہ ظاہر اور نہاں باہم جمع نہیں ہوتے؛ [لیکن] وہ [ذات] جو دنیا میں [بیک وقت] پنہاں [بھی] ہے اور ظاہر [بھی]، ظاہر ہے [کہ] کون ہے۔
آنکہ خواہد در صفِ مرداں بقائے نام خویش
خون دشمن سرخ تر از خونِ فرزندش بود غالبؔ
جو شخص ، عالی ظرف انسانوں میں اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے۔اُس کی نگاہ میں دشمن کا خون اپنے بیٹے کے خون سے زیادہ سرخ ہوتا ہے ۔
(یعنی وہ دشمن کا خون بہانا ایسا ہی سمجھتا ہے جیسے کسی اپنے عزیز کو مار دیا۔) (مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
بگزار کہ از راہ نشینان تو باشم
پائے کہ بود مرحلہ پیمائے ندارم غالبؔ
اب مجھے اپنے راہ نشینوں میں بیٹھنے دے۔ اب میرے پاؤں میں اتنی سکت نہیں کہ تیری رہ محبت میں مرحلہ پیمائی کروں (مرحلے پہ مرحلے طے کروں) (مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
در وصل دل آزاری اغیار ندانم
دانند کہ من دیدہ ز دیدار ندانم غالبؔ
میں عالم وصل میں ایسا کھو جاتا ہوں کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوتا اس سے اغیار کی دل آزاری ہو گی۔سب جانتے ہیں کہ میں آنکھوں میں اور جلوہء دوست میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔
عاشق وصل کی سرشاری میں اتنا مستغرق (فنا فی النظارہ)ہو جاتا ہے کہ اُس کی محویت اُسے فرصت نہیں دیتی کہ رقیبوں کی دل آزاری تو در کنار اُسے اُن کا احساس بھی ہو۔ (مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
پرسد سبب بے خودی از مہر و من از بیم
در عذر بخوں غلطم و گفتار ندانم غالبؔ محبوب از راہ کرم میری بے خودی کا سبب پوچھتا ہے اور میں خوف کی وجہ سے کچھ کہ نہیں سکتا اور معذرت کے طور پر خوں میں غلطاں ہو جاتا ہوں اور زباں پر کوئی بات نہیں لاتا ۔
محبوب کے آنے سے عاشق پر بے خودی طاری ہو جاتی ہے اور محبوب محبت سے اُس بےخودی کی وجہ پوچھتا ہے تو عاشق میں یاراے گفتار نہیں۔اس پرسش احوال کی مدت ہی کتنی ہے۔اس لیے معذرت کرتا ہے اور وہ بھی جنبش لب سے نہیں ۔بلکہ بے تابی سے۔یعنی تڑپ کر اور خون میں لوٹ لوٹ کر۔ (مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
بدار، اي پندگو، از دامنم دست
که من پيراهن عصمت دريدم حضرت امیر خسروؒ
اے نصیحت کرنے والے تو میرے دامن سے ہاتھ اُٹھا لے،کیونکہ میں نے اپنی عزت کا دامن پھاڑ ڈالا ہے۔
حضرت امیر خسروؒ
دل چاہتا ہے کہ تجھ سے دل کا حال بیان کر دوں لیکن تکلیف سے ڈر لگتاہے۔اگر دل کی بات بیان نہ کروں تو اندیشہ گفتار سے ڈر لگتا ہے۔
خدا کی پناہ کہ میں تیرے غم میں مر جانے سے ڈرتا ہوں لیکن تجھ سے دور ہو جانےاور تیرے دیدار سے محروم ہو جانے سے ڈرتا ہوں۔
گرفتم آتشِ پنهان خبر نمیداری
نگاه مینکنی آبِ چشمِ پیدا را (سعدی شیرازی)
میں نے تسلیم کر لیا کہ تمہیں [میری] آتشِ پنہاں (یعنی عشق کے سوزِ نہانی) کی خبر نہیں ہے؛ [لیکن کیا] تم [میرے] ظاہر آبِ چشم کو [بھی] نہیں دیکھتے [جو میرے سوزِ نہانی کو آشکار کرتا ہے]؟
شب همه شب انتظارِ صبحرُویی میرود
کان صباحت نیست این صبحِ جهانافروز را (سعدی شیرازی)
تمام شب صبح جیسے چہرے والے کسی محبوب کا انتظار رہتا ہے، کیونکہ ویسی صباحت اِس صبحِ جہاں افروز میں نہیں ہے۔
دُزدیِ بوسه عجب دُزدیِ خوشعاقبتیست
که اگر بازسِتانند دوچندان گردد (صائب تبریزی)
بوسے کی چوری ایک عجب خوش انجام چوری ہے کہ اگر اُسے واپس لے لیں تو وہ دو چنداں ہو جاتی ہے۔ × 'دزدیِ خوشعاقبتیست' کی بجائے 'دزدیِ پُرمَنفَعَتیست' بھی ملتا ہے یعنی 'ایک پُرفائدہ چوری ہے'۔