واہ!! خوب!!رسمِ زهد و شیوهٔ تقویٰ نمیدانیم ما
عشق میدانیم و بس اینها نمیدانیم ما
(محمد فضولی بغدادی)
رسمِ زُہد و شیوهٔ تقویٰ ہم نہیں جانتے۔۔۔۔ ہم عشق جانتے ہیں اور بس، یہ چیزیں ہم نہیں جانتے۔
بینم اور شنوم کو مفرد سے جمع (بینیم اور شنویم) کرنے سے دونوں مصرعے رباعی کی بحر میں آ جاتے ہیں، کتابت کی غلطی ہو سکتی ہےحاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)
تا کَی ببینم رویِ اوباشان را
تا کَی شنوم عیشِ عیاشان را
بدتر ز قیزیلباش نباشد قومی
معدوم کند خدا قزلباشان را
(عبیدالله خان اُزبک)
میں کب تک اوباشوں کا چہرہ دیکھوں؟ میں کب تک عیاشوں کا عیش سُنوں؟ قزلباش سے بدتر کوئی قوم نہیں ہے؛ خدا قزلباشوں کو معدوم کر دے۔
× ماوراءالنہری اور عثمانی اپنی تحریروں میں 'قزلباشِ اوباش' کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔
× رسول جعفریان کی کتاب 'صفویه در عرصهٔ دین، فرهنگ و سیاست، جلدِ اول' میں یہ رباعی یوں ہی درج ہے، لیکن مجھے شروع کے دو مصرعوں میں وزنی خلل معلوم ہو رہا ہے۔
شکریہ۔بینم اور شنوم کو مفرد سے جمع (بینیم اور شنویم) کرنے سے دونوں مصرعے رباعی کی بحر میں آ جاتے ہیں، کتابت کی غلطی ہو سکتی ہے
تا کی شنوم عیشے عیاشاں را: مفعول مفاعیلن مفعولن فعبینم اور شنوم کو مفرد سے جمع (بینیم اور شنویم) کرنے سے دونوں مصرعے رباعی کی بحر میں آ جاتے ہیں، کتابت کی غلطی ہو سکتی ہے
جی ہاں شنوم والا مصرعہ ہو سکتا ہے، بینم والے میں ببینم کی ب ہٹا دیں تو وہ بھی موزوں ہے جیسا کہ آپ نے لکھا۔ کتابت کی غلطی اس صورت میں دو کی بجائے ایک مصرعے میں رہ جاتی ہےتا کی شنوم عیشے عیاشاں را: مفعول مفاعیلن مفعولن فع
تا کی بینم روی اوباشاں را: مفعولن مفعولن مفعولن فع
یوں بھی ہو سکتے ہیں شاید۔
گذشتہ سے پیوستہ:
"امّا شعرها را دوست میداشتم، هرچند معنیهای آنها را درست نفهمم هم، آهنگِ آنها به من گُوارا مینمود و به یاد کرده خوانده گشتنِ بعضی شعرها کوشش میکردم، سعدی، حافظ، بیدل، صائب، نوایی و فضولی برین شاعرهای گذشته را 'ولی' میدانستم. و شعرگوییِ آنها را از جملهٔ کراماتِ آنها میشمردم."
کتاب: مختصرِ ترجمهٔ حالِ خودم
مصنف: صدرالدین عینی بخارایی
سالِ تحریر: ۱۹۴۰ء
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۵۵ء
"لیکن مجھے اشعار اچھے لگتے تھے، ہرچند میں اُن کے مفاہیم کو درست سمجھ نہ پاتا تھا، پھر بھی اُن کا آہنگ مجھے خوش گوار لگتا تھا اور میں بعض اشعار کو یاد کر کے پڑھتے رہنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ سعدی، حافظ، بیدل، صائب، نوائی اور فضولی جیسے شاعرانِ گذشتہ کو میں 'ولی' سمجھتا تھا اور اُن کی شعرگوئی کو اُن کی کرامات میں سے ایک شمار کرتا تھا۔"