محمد وارث

لائبریرین
مُشتِ خاکِ ما سراپا فرشِ تسلیم است و بس
سجدۂ ما را جبینے و سرے درکار نیست


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

ہماری مشتِ خاک سراسر فرشِ تسلیم ہے اور بس اس کے سوا کچھ بھی نہیں، ہمارے سجدوں کو کسی پیشانی اور کسی سر کی حاجت نہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
رسمِ زهد و شیوهٔ تقویٰ نمی‌دانیم ما
عشق می‌دانیم و بس این‌ها نمی‌دانیم ما
(محمد فضولی بغدادی)
رسمِ زُہد و شیوهٔ تقویٰ ہم نہیں جانتے۔۔۔۔ ہم عشق جانتے ہیں اور بس، یہ چیزیں ہم نہیں جانتے۔
واہ!! خوب!!
 

حسان خان

لائبریرین
حاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)

تا کَی ببینم رویِ اوباشان را
تا کَی شنوم عیشِ عیاشان را
بدتر ز قیزیلباش نباشد قومی
معدوم کند خدا قزلباشان را
(عبیدالله خان اُزبک)
میں کب تک اوباشوں کا چہرہ دیکھوں؟ میں کب تک عیاشوں کا عیش سُنوں؟ قِزِلباش سے بدتر کوئی قوم نہیں ہے؛ خدا قِزِلباشوں کو معدوم کر دے۔

× ماوراءالنہری اور عثمانی اپنی تحریروں میں 'قزلباشِ اوباش' کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔
× رسول جعفریان کی کتاب 'صفویه در عرصهٔ دین، فرهنگ و سیاست، جلدِ اول' میں یہ رباعی یوں ہی درج ہے، لیکن مجھے شروع کے دو مصرعوں میں وزنی خلل معلوم ہو رہا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
حاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)

تا کَی ببینم رویِ اوباشان را
تا کَی شنوم عیشِ عیاشان را
بدتر ز قیزیلباش نباشد قومی
معدوم کند خدا قزلباشان را
(عبیدالله خان اُزبک)
میں کب تک اوباشوں کا چہرہ دیکھوں؟ میں کب تک عیاشوں کا عیش سُنوں؟ قزلباش سے بدتر کوئی قوم نہیں ہے؛ خدا قزلباشوں کو معدوم کر دے۔

× ماوراءالنہری اور عثمانی اپنی تحریروں میں 'قزلباشِ اوباش' کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔
× رسول جعفریان کی کتاب 'صفویه در عرصهٔ دین، فرهنگ و سیاست، جلدِ اول' میں یہ رباعی یوں ہی درج ہے، لیکن مجھے شروع کے دو مصرعوں میں وزنی خلل معلوم ہو رہا ہے۔
بینم اور شنوم کو مفرد سے جمع (بینیم اور شنویم) کرنے سے دونوں مصرعے رباعی کی بحر میں آ جاتے ہیں، کتابت کی غلطی ہو سکتی ہے :)
 

حسان خان

لائبریرین
حاکمِ ماوراءالنہر عبیدالله خان اُزبک شیبانی کی ایک رباعی:
(رباعی)
یا رب تو دهی صلاح اوباشان را
توفیق به لطفِ خویش عیاشان را
مانندهٔ قومِ عاد گردانی پاک
از رویِ زمین قومِ قزلباشان را
(عبیدالله خان اُزبک)
یا رب! تم اوباشوں کو صلاح، اور عیاشوں کو اپنے لطف سے توفیق عطا کرنا۔۔۔ [یا رب!] رُوئے زمین سے قِزِلباشوں کی قوم کو قومِ عاد کی مانند پاک کر دینا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بینم اور شنوم کو مفرد سے جمع (بینیم اور شنویم) کرنے سے دونوں مصرعے رباعی کی بحر میں آ جاتے ہیں، کتابت کی غلطی ہو سکتی ہے :)
شکریہ۔ :)
'عبیدی' کے تخلص سے شاعری کرنے والے اِس شاعر کا دیوان ہنوز خطی نسخے کی شکل میں موجود ہے، لہٰذا کتابت ہی کی کوئی غلطی ہو گی۔ :)
ویسے، صدہا دواوین ایسے موجود ہیں جو ابھی تک کتب خانوں میں نسخوں ہی کی شکل میں موجود ہیں، اور ابھی تک اُن دیوانوں کی تصحیح شدہ طباعت شائع نہیں ہوئی ہے۔ تاجکستان و ازبکستان میں یہ صورت حال مزید افسوس ناک ہے کہ وہاں لکھی جانے والی قدیم فارسی کتابوں اور تاریخی متون کا ۵ فیصد بھی شائع نہیں ہوا ہے۔ :(
 
آخری تدوین:
بینم اور شنوم کو مفرد سے جمع (بینیم اور شنویم) کرنے سے دونوں مصرعے رباعی کی بحر میں آ جاتے ہیں، کتابت کی غلطی ہو سکتی ہے :)
تا کی شنوم عیشے عیاشاں را: مفعول مفاعیلن مفعولن فع
تا کی بینم روی اوباشاں را: مفعولن مفعولن مفعولن فع

یوں بھی ہو سکتے ہیں شاید۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تا کی شنوم عیشے عیاشاں را: مفعول مفاعیلن مفعولن فع
تا کی بینم روی اوباشاں را: مفعولن مفعولن مفعولن فع

یوں بھی ہو سکتے ہیں شاید۔
جی ہاں شنوم والا مصرعہ ہو سکتا ہے، بینم والے میں ببینم کی ب ہٹا دیں تو وہ بھی موزوں ہے جیسا کہ آپ نے لکھا۔ کتابت کی غلطی اس صورت میں دو کی بجائے ایک مصرعے میں رہ جاتی ہے :)
 

حسان خان

لائبریرین
خدایا شاهِ ما را صحتِ کامل کرامت کن
به غیر از دردِ دین از دردها او را حمایت کن
(صائب تبریزی)
اے خدا! ہمارے شاہ کو صحتِ کامل عطا کر، [اور] دردِ دین کے سوا [تمام] دردوں سے اُس کی حفاظت کر۔

× صائب تبریزی نے یہ شعر شاہ سلیمان صفوی کے لیے کہا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
همچو من دیوانه‌ای تا در عجم پیدا نشد
در عرب مجنون نرَست از تهمتِ دیوانگی
(سنجر کاشانی)
جب تک عجم میں مجھ جیسا کوئی دیوانہ ظاہر نہ ہوا، [تب تک] عرب میں مجنوں کو دیوانگی کی تہمت سے نجات نہ ملی۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگرچه زنده رود آبِ حیات است
ولی شیرازِ ما از اصفهان بِه
(حافظ شیرازی)

اگرچہ زندہ رُود آبِ حیات ہے، لیکن ہمارا شیراز اصفہان سے بہتر ہے۔
× زنده رُود/زاینده رُود = اصفہان سے بہنے والے دریا کا نام
 

حسان خان

لائبریرین
هر که بتواند سفیدی از سیاهی فرق کرد
می‌شمارد بِه ز آبِ خضر، آبِ زنده رود
(صائب تبریزی)

جو شخص بھی سفیدی اور سیاہی کے درمیان فرق کر سکتا ہے وہ آبِ زندہ رُود کو آبِ خضر سے بہتر شمار کرتا ہے۔
× زنده رُود/زاینده رُود = اصفہان سے بہنے والے دریا کا نام
 

حسان خان

لائبریرین
شبِ عید است و من از یار بعیدم افسوس
ماه دیدم رُخِ چون ماه ندیدم افسوس
(عاقل خان رازی خوافی)
شبِ عید ہے اور میں یار سے دور ہوں، افسوس!۔۔۔ میں نے ماہ دیکھ لیا، [لیکن] ماہ جیسا چہرہ نہیں دیکھا، افسوس!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زان مَیِ لعل که خُم‌خانه به حافظ دادی
جُرعه‌ای نیز مرا ریز به جام ای شیراز
(شهریار تبریزی)
اے شیراز! جو شرابِ لعل تم نے خُم خانے میں حافظ کو دی تھی اُس میں سے ایک جُرعہ میرے جام میں بھی اُنڈیل دو۔
× جُرْعَہ = گھونٹ
 

محمد وارث

لائبریرین
کہ گفت در رُخِ زیبا نظر خطا باشد
خطا بوَد کہ نبینند روئے زیبا را


شیخ سعدی شیرازی

یہ کس نے کہا کہ خوبصورت چہرے کی طرف نظر کرنا خطا ہے، خطا تو وہ کرتے ہیں کہ جو روئے زیبا کو دیکھتے نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
شُورَوی دور سے قبل ماوراءالنہر میں جس طرح تقریباً ہر ترکی گو شخص فارسی زبان جانتا تھا، اُسی طرح فارسی گو مردُم بھی ترکی زبان سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ مثلاً صدرالدین عینی نے ایک جگہ بتایا ہے کہ وہ زمانۂ طفلی ہی سے امیر علی شیر نوائی اور محمد فضولی بغدادی کے آثار سے واقف تھے:
گذشتہ سے پیوستہ:
"امّا شعرها را دوست می‌داشتم، هرچند معنی‌های آنها را درست نفهمم هم، آهنگِ آنها به من گُوارا می‌نمود و به یاد کرده خوانده گشتنِ بعضی شعرها کوشش می‌کردم، سعدی، حافظ، بیدل، صائب، نوایی و فضولی برین شاعر‌های گذشته را 'ولی' می‌دانستم. و شعرگوییِ آنها را از جملهٔ کراماتِ آنها می‌شمردم."
کتاب: مختصرِ ترجمهٔ حالِ خودم
مصنف: صدرالدین عینی بخارایی
سالِ تحریر: ۱۹۴۰ء
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۵۵ء

"لیکن مجھے اشعار اچھے لگتے تھے، ہرچند میں اُن کے مفاہیم کو درست سمجھ نہ پاتا تھا، پھر بھی اُن کا آہنگ مجھے خوش گوار لگتا تھا اور میں بعض اشعار کو یاد کر کے پڑھتے رہنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ سعدی، حافظ، بیدل، صائب، نوائی اور فضولی جیسے شاعرانِ گذشتہ کو میں 'ولی' سمجھتا تھا اور اُن کی شعرگوئی کو اُن کی کرامات میں سے ایک شمار کرتا تھا۔"

ماوراءالنہری شاعر محمد نقیب خان طُغرل احراری نے اپنے 'قصیدۂ بزرگان' میں فضولی کی بھی ستائش کی ہے:
نیست به تُرکی چو فضولی دگر

باده همان باده بُوَد، هر کجاست
ترکی میں فضولی جیسا کوئی دیگر نہیں ہے؛ بادہ جہاں بھی ہو، بادہ ہی ہوتا ہے۔ (یعنی شعر خواہ فارسی ہو یا ترکی، بادہ جیسی ہی لذت دیتا ہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یادِ خرامِ تواَم می‌بَرَد از خویشتن
قامتِ برجسته‌ات مصرعِ دیوانِ کیست
(بیدل دهلوی)
تمہارے خرام کی یاد مجھے بے خود کر دیتی ہے؛ تمہاری قامتِ برجستہ کس کے دیوان کا مصرع ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
در بیابانِ غمش از سر قدم باید تو را
این رهِ عشق است، چون راهِ دگر هموار نیست
(نقیب خان طُغرل احراری)
اُس کے غم کے بیابان میں تمہیں سر کو قدم بنانا لازم ہے؛ یہ راہِ عشق ہے، یہ دیگر راہوں کی طرح ہموار نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر زمان چون شمع اندر خانهٔ دل بینمش
سدِّ راهِ آن پری هرگز در و دیوار نیست
(نقیب خان طُغرل احراری)
میں ہر وقت اُسے شمع کی مانند خانۂ دل کے اندر دیکھتا ہوں؛ در و دیوار ہرگز اُس پری کا سدِّ راہ نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از مولانا رُومی

درویشی و عاشقی بہ ہم سلطانیست
گنجیست غمِ عشق ولے پنہانیست
ویراں کردم بدستِ خود خانۂ دل
چوں دانستم کہ گنج در ویرانیست


درویشی اور عاشقی دونوں ہی بادشاہیاں ہیں اور غمِ عشق ایک خزانہ ہے مگر چُھپا ہوا ہے۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے خانۂ دل کو ویراں کر لیا کیونکہ میں نے جان لیا کہ خزانہ ویرانے ہی میں ہوتا ہے۔
 
Top