حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
این رافضیان که امتِ شیطانند
بی‌دینانند و سخت بی‌ایمانند
از بس که خطافهم و غلط‌پیمانند
خاقانی را خارجی می‌دانند
(خاقانی شروانی)
یہ رافضی کہ اُمّتِ شیطان ہیں؛ یہ بے دین ہیں اور سخت بے ایمان ہیں؛ یہ اتنے زیادہ خطا فہم و غلط پیماں ہیں کہ خاقانی کو خارجی سمجھتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
دردی‌ست مرا به دل دوایم بکنید
گِردِ سرِ آن شوخ فدایم بکنید
دیوانه‌ام و رُوی به صحرا دارم
زنجیر بیارید و به پایم بکنید
(خاقانی شروانی)

میرے دل میں ایک درد ہے، میری دوا کر دیجیے؛ اُس شوخ کے سر کے گِرد مجھے فدا کر دیجیے؛ میں دیوانہ ہوں، اور میرا رُخ صحرا کی جانب ہے؛ زنجیر لے آئیے اور میرے پاؤں میں کر دیجیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چند روزی بود اگر مُهرِ سلیمان معتبر
تا قیامت سجده‌گاهِ خلق مُهرِ کربلاست
(صائب تبریزی)
اگر مُہرِ سلیمان چند روز کے لیے معتبر تھی تو مُہرِ کربلا قیامت تک سجدہ گاہِ خلق ہے۔

× مُہرِ کربلا = خاک سے بنے جس قُرص (ٹکیا) پر شیعہ سجدے میں پیشانی رکھتے ہیں، اُسے مُہر کہتے ہیں اور اُسے عموماً کربلا کی خاک سے بنایا جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
این جهان پاک خواب‌کردار است
آن شناسد که دلش بیدار است
(رودکی سمرقندی)

یہ جہاں بالکل مثلِ خواب ہے؛ [یہ چیز] وہی جانتا ہے جس کا دل بیدار ہے۔

× ایک مضمون میں مصنّف نے خیال ظاہر کیا ہے کہ رُودکی نے مندرجۂ بالا بیت کا مضمون رسول (ص) سے منسوب اِس حدیث سے اخذ کیا ہے: "الدنيا كحُلم النائم" یعنی دنیا خوابیدہ شخص کی رُؤیا کی مانند ہے۔

این جهان را که به صورت قائم است
گفت پیغمبر که حُلمِ نائم است

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اِس جہاں کو، کہ جو صورتاً قائم و استوار ہے، پیغمبر (ص) نے خوابیدہ شخص کی رُؤیا کہا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ابرِ چمن را ز گُل، روئے تو آمد بیاد
نعرۂ بسیار زد، گریۂ بسیار کرد


مولانا عبدالرحمٰن جامی

ابرِ چمن (موسمِ بہار کے بادل) کو پھول دیکھ کر تیرا چہرہ یاد آ گیا، سو (دیوانہ ہو کر) اُس نے بہت نعرے لگائے، بہت ہی رویا۔
 
از تلخیء مے شکوہء مخمور محال است
صائب گلہ از تلخی دشنام ندارد


مے کی تلخی سے مخمور کا شکوہ کرنا محال ہے۔ صائب بھی(محبوب کے) دشنام کی تلخی سے گلہ نہیں رکھتا۔


صائب تبریزی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از تلخیء مے شکوہء مخمور محال است
صائب گلہ از تلخی دشنام ندارد


مے کی تلخی سے مخمور کا شکوہ کرنا محال ہے۔ صائب بھی(محبوب کے) دشنام کی تلخی سے گلہ نہیں رکھتا۔


صائب تبریزی
یہاں 'از' شاید 'کے بارے میں' یا 'کے سبب' کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ فارسی میں 'از چیزی شکوه/گله کردن' کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی کسی چیز کے بارے میں یا کسی چیز پر شکوہ/گلہ کرنا۔
 

حسان خان

لائبریرین
صباحِ عیشِ ما را شامِ غم در آستین باشد
شبِ وصل از برایِ روزِ هجران شد سپید اینجا
(میرزا هادی سمرقندی)

ہماری صبحِ عیش آستین میں شامِ غم لیے ہوئے ہے؛ شبِ وصل یہاں روزِ ہجراں کے لیے سفید ہوئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کامِ دل حاصل توان کرد از فرو رفتن به خویش
یوسفِ مقصود در آغوش باشد چاه را
(میرزا هادی سمرقندی)

خود میں اندر جا کر مرادِ دل حاصل کی جا سکتی ہے؛ یوسفِ مقصود چاہ کی آغوش میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عشقِ نوآغازِ ما را هیچ انجامی مباد
قلبِ ناآرامِ ما را هیچ آرامی مباد
(لایق شیرعلی)

ہمارے عشقِ نوآغاز کا کوئی اختتام نہ ہو!۔۔۔ ہمارے دلِ ناآرام کو کوئی آرام نہ ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
گر خَزان‌ریز است، با بویِ بهارت زنده‌ام،
در گلستانِ دلم جز تو گل‌اندامی مباد.
(لایق شیرعلی)
اگرچہ موسمِ خَزاں ہے، میں تمہاری بہار کی امید کے ساتھ زندہ ہوں۔۔۔ میرے دل کے گلستان میں تمہارے بجز کوئی گُل اندام نہ ہو!

× لفظِ 'بُو' مجازاً 'امید و آرزو' کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، اور میں نے یہاں اِسی معنی کو ترجیح دی ہے، لیکن بیتِ ہٰذا میں اِس لفظ سے 'عطر' کا معنی بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شرط است که بر بساطِ عشقت
آن پای نهد که سر ندارد
(خاقانی شروانی)
شرط ہے کہ تمہارے عشق کی بساط پر وہ شخص پاؤں رکھے جو سر نہ رکھتا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
در دردِ تواَم، تو فارغ از من
کس دردی ازین بتر ندارد
(خاقانی شروانی)
میں تمہارے درد میں ہوں، [اور] تم مجھ سے بے خبر و بے نیاز ہو۔۔۔ کوئی شخص اِس سے بدتر درد نہیں رکھتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خاقانی شروانی کی ایک غزل کی ابتدائی دو ابیات:
زهر با یادِ تو شَکَر گردد
شام با رویِ تو سَحَر گردد
دردِ عشقِ تو بوالعجب دردی‌ست
که چو درمان کنم بتر گردد
(خاقانی شروانی)

زہر تمہاری یاد کے ساتھ شَکَر بن جاتا ہے؛ شام تمہارے چہرے کے ساتھ سَحَر بن جاتی ہے۔۔۔ تمہارے عشق کا درد ایک عجیب و غریب درد ہے کہ جب علاج کرتا ہوں تو بدتر ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتم، که به یک عِشوه ربایی ز سرم عقل
یا هوشِ من از تن بِبَری؟ گفت، که هر دو
(کمال خُجندی)

میں نے کہا کہ: [اپنے] اِک ناز و عِشوہ سے تم میرے سر سے عقل ہتھیاؤ گے، یا تن سے میری جان لے جاؤ گے؟ اُس نے کہا کہ: دونوں۔

× قدیم فارسی میں لفظِ 'هوش'، 'جان و روح' کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
چہ عجب اگر دو سلطاں بولایتے نگنجند
عجب ایں کہ می نگنجد بدو عالمے فقیرے


علامہ محمد اقبال، (زبورِ عجم)

اِس میں کیا عجیب بات ہے کہ دو بادشاہ ایک بادشاہت میں نہیں سما سکتے، عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک صاحبِ فقر دونوں جہانوں میں بھی نہیں سما سکتا۔
 
بیدل نشوی بے خبر از چاک گریباں
اینجاست که عنقا ته پا کشت مگس را

(بیدل دھلوی)

اے بیدل! اپنے چاک گریباں سے بے خبر نہ ہو (اپنے باطن میں جھانک)۔۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں عنقا، مگس (مکھی) کا شکار ہو جاتا ہے۔

عنقا : ایک فرضی پرندہ، اصطلاحات صوفیاء میں یہ 'حقیقت' کی علامت کے طور پر مستعمل ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بیدل نشوی بے خبر از چاک گریباں
اینجاست که عنقا ته پا کشت مگس را

(بیدل دھلوی)

اے بیدل! اپنے چاک گریباں سے بے خبر نہ ہو (اپنے باطن میں جھانک)۔۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں عنقا، مگس (مکھی) کا شکار ہو جاتا ہے۔

عنقا : ایک فرضی پرندہ، اصطلاحات صوفیاء میں یہ 'حقیقت' کی علامت کے طور پر مستعمل ہے۔
اِس بیت کے مصرعِ ثانی کا مفہوم تو یہ بن رہا ہے:
یہی وہ جا ہے جہاں عنقا نے مگس کو زیرِ پا قتل کر دیا۔۔۔

گنجور پر اِس بیت کا یہ متن ملا ہے:

بیدل نشوی بی‌خبر از سیرِ گریبان

اینجاست که عنقا تهِ بال است مگس را
(بیدل دهلوی)
اے بیدل! گریباں کی سیر سے بے خبر مت ہونا۔۔۔ یہی وہ جا ہے کہ جہاں عنقا مگس کے پر کے زیر ہے۔
× مَگَس = مکھی
 

حسان خان

لائبریرین
بیدل نشوی غافل از اقبالِ گریبان
هر قطره که در فکرِ خود افتاد گهر شد
(بیدل دهلوی)
اے بیدل! گریبان کی اقبال مندی سے غافل مت ہونا۔۔۔ جو قطرہ بھی اپنی فکر میں مشغول ہوا، گوہر بن گیا۔

1410691618745003_orig.jpg

خطّاط: شاهپور فاخر (از افغانستان)
ماخذ
 
”مطالعہ بیدل فکر برگساں کی روشنی میں“ از علامہ محمد اقبال ترجمہ و تحقیق ڈاکٹر تحسین فاروقی
Mutala-e-Bedil - Fikr-e-Bergson Ki Raushani Men | Rekhta
اِس بیت کے مصرعِ ثانی کا مفہوم تو یہ بن رہا ہے:
یہی وہ جا ہے جہاں عنقا نے مگس کو زیرِ پا قتل کر دیا۔۔۔

گنجور پر اِس بیت کا یہ متن ملا ہے:

بیدل نشوی بی‌خبر از سیرِ گریبان

اینجاست که عنقا تهِ بال است مگس را
(بیدل دهلوی)
اے بیدل! گریباں کی سیر سے بے خبر مت ہونا۔۔۔ یہی وہ جا ہے کہ جہاں عنقا مگس کے پر کے زیر ہے۔
× مَگَس = مکھی
 
Top