حسان خان

لائبریرین
گر به تیغِ رشک ریزم خونِ خود نبوَد عجب
هر که او را دوست می‌دارد من او را دشمنم
(محمد فضولی بغدادی)
اگر میں تیغِ رشک سے اپنا خون بہا دوں تو عجب نہیں ہے؛ جو بھی اُسے (یعنی محبوب کو) دوست رکھتا ہے، میں اُس کا دشمن ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
نمی‌خواهم که بیند هیچ کس در خواب آن مه را
همه شب چون ننالم خلق را بیدار می‌خواهم
(محمد فضولی بغدادی)
میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اُس ماہ کو خواب میں دیکھے؛ میں تمام شب کیوں نہ نالہ کروں؟ میں خلق کو بیدار رکھنا چاہتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حجابِ هستیِ من مانِع است وصلِ ترا
شکایت از که کنم در میان رقیب منم
(محمد فضولی بغدادی)
میری ہستی کا حجاب تمہارے وصل کا مانِع ہے۔۔۔ میں کس کی شکایت کروں؟ درمیان میں رقیب میں [ہی] ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فضولی پاک کن از کینهٔ اغیار لوحِ دل
که ذوق از مِهرِ مه‌رویان دلِ بی‌کینه می‌بیند
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! لوحِ دل کو کینۂ اغیار سے پاک کر دو؛ کہ ماہ رُویوں کی محبت سے ذوق دلِ بے کینہ [ہی] کو حاصل ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هیچ یاری بی جفایِ طعنهٔ اغیار نیست
بهرِ یک گُل محنتِ صد خار می‌باید کشید
(محمد فضولی بغدادی)

کوئی بھی یار طعنۂ اغیار کی جفا کے بغیر نہیں ہے؛ ایک گُل کی خاطر صد خاروں کا رنج اٹھانا لازم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ندارم ذوقی از مرگِ رقیبان زآنکه می‌ترسم
بمیرد خاکِ ره گردد بگیرد باز دامانش
(محمد فضولی بغدادی)

مجھے رقیب کی موت سے کوئی ذوق و نشاط نہیں ہے، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مر کر خاکِ راہ بن جائے گا اور دوبارہ اُس (محبوب) کا دامن پکڑ لے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز غیرت سوخت ای خورشید جانم رحم کن بر من
به هر خاکی میَفکن سایهٔ سروِ روانم را
(محمد فضولی بغدادی)

غیرت سے میری جان جل گئی، اے خورشید! مجھ پر رحم کرو؛ میرے سروِ رواں کے سائے کو ہر خاک پر مت گراؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
نمی‌خواهم که گوید هیچ کس احوالِ من با او
که می‌میرم ز غیرت گر کسی گوید سخن با او
(محمد فضولی بغدادی)

میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص میرے احوال اُس سے کہے، کہ اگر کوئی شخص اُس کے ساتھ گفتگو کرے گا تو میں غیرت سے مر جاؤں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بس کہ چوں منصور بر ما زندگانی تلخ شد
دارِ خوں آشام را دار الاماں پنداشتیم


صائب تبریزی

بس کہ منصور حلاج کی طرح ہم پر بھی زندگانی تلخ ہو گئی تھی سو ہم نے بھی خون آشام دار (سُولی) کو دار الاماں سمجھ لیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
براہِ عشق قدم نِہ کہ در طریقِ سلوک
بسوئے منزلِ مقصود جستجو کافیست


چندر بھان برہمن

عشق کی راہ میں قدم اُٹھا کہ طریقِ سلوک میں منزلِ مقصود کی طرف جستجو ہی کافی ہے، (منزل چاہے ملے نہ ملے جستجو ہی اصل چیز ہے)۔
 
نسبتِ نیست بذاتِ تو بنی آدم را
برتراز عالم و آدم تو چہ عالی نسبی

(حاجی محمد جان قدسی مشھدی)

آپ (ص) کی ذات کی نسبت بنی آدم سے نہیں ہے بلکہ آپ (ص) تو تمام جہانوں اور آدم سے برتر ہیں، آپ (ص) کا نسب کیا اعلیٰ ہے۔
 
نسبتِ نیست بذاتِ تو بنی آدم را
برتراز عالم و آدم تو چہ عالی نسبی

(حاجی محمد جان قدسی مشھدی)

آپ (ص) کی ذات کی نسبت بنی آدم سے نہیں ہے بلکہ آپ (ص) تو تمام جہانوں اور آدم سے برتر ہیں، آپ (ص) کا نسب کیا اعلیٰ ہے۔

سبحان اللہ!
انتہائی اعلی!
 

محمد وارث

لائبریرین
نصیر دستِ طلب کے کنم بہ خلق دراز
من التجا بہ خداوندِ لایزال کنم


سید نصیر الدین نصیر

اے نصیر، میں (فانی اور زوال پذیر) لوگوں کے سامنے اپنا دستِ طلب کیا دراز کروں؟ میں تو جاوید و لازوال و لایزال خدا ہی سے التجا کرتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
با غنی گفتم کہ خونِ فعلہ را دیگر مریز
گفت از من ترکِ ایں کردار کردن مشکل است


ابوالقاسم لاہوتی

میں نے دولت مند سے کہا کہ مزدوروں کا مزید خون مت بہا اور اُن کا لہو مت چوس، اُس نے کہا کہ میرے لیے اس کردار کو ترک کرنا ناممکن ہے (کہ یہ میری فطرت میں ہے)۔
 
با غنی گفتم کہ خونِ فعلہ را دیگر مریز
گفت از من ترکِ ایں کردار کردن مشکل است


ابوالقاسم لاہوتی

میں نے دولت مند سے کہا کہ مزدوروں کا مزید خون مت بہا اور اُن کا لہو مت چوس، اُس نے کہا کہ میرے لیے اس کردار کو ترک کرنا ناممکن ہے (کہ یہ میری فطرت میں ہے)۔

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
 

محمد وارث

لائبریرین
تو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم


شیخ عثمان مروندی معروف بہ لعل (لال) شہباز قلندر

تُو ایسا قاتل ہے کہ محض تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے، میں وہ بسمل ہوں کہ (تیرے) خونخوار خنجر کے نیچے تڑپتا ہوں، پھڑپھڑاتا ہوں، حالتِ رقص میں ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نسبتِ نیست بذاتِ تو بنی آدم را
تصحیح: نسبتی نیست۔۔۔۔

اگرچہ مشہور یہی ہے کہ یہ نعت قدسی مشہدی کی ہے، لیکن مجھے شاعر کے دیوان میں یہ نعت نظر نہیں آئی تھی، اور میں نے ایک جگہ خوانا (پڑھا) تھا - یہ یاد نہیں رہا کہ کہاں - کہ یہ نعت کسی اور شاعر کی تھی اور وہاں اُس شاعر کا نام بھی درج تھا۔ اگر وہ مضمون دوبارہ نظر آیا تو اُس شاعر کا نام بتا دوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
بنگر [به] قزلباش و دلِ ابترشان
زهر است به جایِ باده در ساغرشان
ژولیده به فرقشان نه مویِ سیه است
پاشیده فلک خاکِ سیه بر سرشان
(رستم میرزا فدایی)
قِزِلباشوں اور اُن کے دلِ ابتر پر نگاہ کرو؛ اُن کے ساغر میں بادہ کی بجائے زہر ہے؛ اُن کے سر پر سیاہ بال نہیں بکھرے ہوئے، [بلکہ یہ] فلک نے اُن کے سر پر سیاہ خاک افشاں کی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به شعرِ حافظِ شیراز می‌رقصند و می‌نازند
سیه‌چشمانِ کشمیری و تُرکانِ سمرقندی
(حافظ شیرازی)

حافظِ شیرازی کے شعروں پر سیاہ چشمانِ کشمیری اور تُرکانِ سمرقندی رقص کرتے اور ناز کرتے ہیں۔

مولوی محمد احتشام الدین حقّی دہلوی نے اِس بیت کا منظوم ترجمہ یوں کیا تھا:
کلامِ حافظِ شیراز گاتے رقص کرتے ہیں
سیہ چشمانِ کشمیری و تُرکانِ سمرقندی!
 
نقشبنديه عجب قافله سالارانند!
كه برند از ره پنهان به حرم قافله را
از دل سالك ره، جاذبۀ صحبتشان
مي‌برد وسوسۀ خلوت و فكر چله را


(مولانا جامی)

حضراتِ (سلسلہِ) نقشبند عجب قافلہ کے سالار ہیں کہ اپنے متعلقین کو پوشیدہ طریقہ سے بارگاہِ الہٰی تک لے جاتے ہیں۔ انکی صحبت کی کشش سالک کے دل سے خلوت کے خیال اور چلہ کشی کے فکر کو ختم کر دیتی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top