دوامِ عشق اگر خواهی مکن با وصل آمیزش
که آبِ زندگی هم میکند خاموش آتش را
(صائب تبریزی)
اگر تم عشق کا دوام چاہتے ہو تو وصل کے ساتھ آمیزش مت کرو؛ کہ آبِ حیات بھی آتش کو خاموش کر دیتا ہے۔
۱۹۱۵ء میں دیارِ آلِ عثمان میں شائع ہونے والی کتاب 'مجوهراتِ صائبِ تبریزی' میں مؤلف 'محمد خلوصی' نے اِس بیت کا تُرکی زبان میں ترجمہ یوں کیا تھا:
ای واقفِ ذوقِ عشق اولان دلخسته! اگر دوامِ عشقی آرزو ایدرسهڭ صقین وصلتی اعتیاد ایدنمه! زیرا آتشه آبِ حیات بیله دوکسهڭ ینه سونر!..
Ey vâkıf-ı zevk-i aşk olan dil-haste! Eğer devâm-ı aşkı arzu edersen, sakın vuslatı i’tiyâd edinme! Zira ateşe âb-ı hayât bile döksen yine söner!
اے ذوقِ عشق سے واقف دل خستہ! اگر تم دوامِ عشق کی آرزو کرتے ہو تو خبردار وصل کی عادت مت اختیار کرو! کیونکہ اگر تم آتش پر آبِ حیات بھی اُنڈیلو، تو بھی وہ بجھ جاتی ہے۔