اس شعر کا ریفرنس اگر کسی کو معلوم ہو تو بتا دے۔
‏ہر چہ بِینی یار ہست اغیار نیست
غیرِ اُو جُز وہم و جُز پِندار نیست
میں جہاں بھی دیکھوں، اپنے محبوب کو دیکھتا ہوں۔ غیر کو نہیں۔
اس کے علاوہ ہر کوئی وہم بن گیا ہے
 
مولانا جامی کے اس شعر کا ترجمہ کوئی صاحب فرما دیں۔


از حسن ملیح خود شوری بہ جہاں کردی
هر زخمیّ بسمل را مصروف فغاں کردی
(مولانا عبد الرحمٰن جامی)
 

حسان خان

لائبریرین
اس شعر کا ریفرنس اگر کسی کو معلوم ہو تو بتا دے۔
‏ہر چہ بِینی یار ہست اغیار نیست
غیرِ اُو جُز وہم و جُز پِندار نیست
میں جہاں بھی دیکھوں، اپنے محبوب کو دیکھتا ہوں۔ غیر کو نہیں۔
اس کے علاوہ ہر کوئی وہم بن گیا ہے
اِس بیت کا ترجمہ یہ ہے:
تم جو کچھ بھی دیکھتے ہو وہ یار ہے، اغیار نہیں ہے؛ اُس کے (یعنی یار کے) سوا ہر چیز صرف وہم و گمان ہے۔
شاعر کا نام معلوم نہیں۔

مولانا جامی کے اس شعر کا ترجمہ کوئی صاحب فرما دیں۔


از حسن ملیح خود شوری بہ جہاں کردی
هر زخمیّ بسمل را مصروف فغاں کردی
(مولانا عبد الرحمٰن جامی)
اِس بیت کا ترجمہ یہ ہے:
تم نے اپنے حُسنِ ملیح سے جہاں میں شورش برپا کر دی اور ہر زخمیِ بسمل کو فغاں میں مصروف کر دیا۔

شاید یہ جامی کی بیت نہیں ہے، کیونکہ کلیاتِ جامی میں مجھے یہ بیت نظر نہیں آئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
منی مکرِ رقیب آواره قېلدې یار کویوندان
چېخاران آدمی فردوس‌دن، تزویرِ شیطان‌دېر
(صائب تبریزی)

مجھے مکرِ رقیب نے کوچۂ یار سے آوارہ کر دیا؛ آدم کو فردوس سے بیرون نکالنے والی چیز فریبِ شیطان ہے۔
حُسین محمدزادہ صدیق نے صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:
مرا مکرِ رقیب آواره کرد از کویِ یارِ خود
ز باغ اخراجِ آدم را سبب، تزویرِ شیطان است

مجھے مکرِ رقیب نے اپنے یار کے کوچے سے آوارہ کر دیا؛ باغِ [جنّت] سے آدم کے اخراج کا سبب فریبِ شیطان ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مرا از اصفهان خوش‌تر نماید کشورِ شیراز
که دیدم ناز و خوبی را فزون در دل‌برِ شیراز
(سُنبُل‌زاده وهبی)

مجھے مُلکِ شیراز اصفہان سے خوب تر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ میں نے شیراز کے دلبر میں زیادہ ناز و خوبی دیکھی ہے۔
× شاعر کا تعلق دیارِ آلِ عثمان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
صحبتِ نیکان، بدان را چون تواند کرد نيک؟
تلخی از بادام نتوانست بيرون بُرد قند
(صائب تبریزی)

نیکوں کی صحبت بدوں کو کیسے نیک کر سکتی ہے؟ قند بادام سے تلخی کو بیرون نہ کر سکا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بی روشنیِ فُروغِ رُویت
اَضْحَتْ غَدَواتُنا عَشایا
(عبدالرحمٰن جامی)

تمہارے چہرے کے پرتَو کی روشنی کے بغیر ہماری صُبحیں شاموں میں تبدیل ہو گئیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
نمی‌خواهم که با من هیچ یاری هم‌نشین گردد
که می‌ترسم دلش ز اندوه من اندوه‌گین گردد
(عبدالرحمٰن جامی)

میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی یار میرا ہم نشین بنے، کہ میں ڈرتا ہوں کہ اُس کا دل میرے غم سے غمگین ہو جائے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی ایک نعتیہ قصیدے میں کہتے ہیں:
سودایِ بهشت از سرِ دانا بِرود لیک
ممکن نبُوَد رفتنِ سودایِ مدینه
(عبدالرحمٰن جامی)

دانا کے سر سے بہشت کا اشتیاق تو چلا جائے گا، لیکن شہرِ مدینہ کا عشق جانا ممکن نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جمہوریۂ آذربائجان سے شائع ہوئی دو کتابوں اور ایرانی آذربائجان سے شائع ہونے والے ایک ادبی مجلّے 'وارلیق' میں صائب تبریزی کی ایک فارسی و تُرکی سے مُرکّب ملمّع غزل نظر آئی ہے، جس کا مقطع یہ ہے:
در دلِ صائب بسی جا کرده آن چشمانِ مست
ایکی کافر بیر مسلمان اؤلدۆرۆر، بیداد هَی!

(صائب تبریزی)
صائب کے دل پر وہ چشمانِ مست بہ شدّت متصرّف ہو گئی ہیں؛ دو کافر ایک مسلمان کو قتل کر رہے ہیں، ہائے فریاد!

Dər dile Saeb bəsi ca kərdə an çeşmane məst

İki kafər bir müsəlman öldürür, bidad hey
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی ایک نعتیہ غزل میں کہتے ہیں:
گر کاذب است دعویِ عشقِ تو بهرِ چیست
فِي عَيْنِيَ البُكاءُ وَفِي جِسْمِيَ النُّحُول
(عبدالرحمٰن جامی)

[اے رسول!] اگر آپ کے عشق کا دعویٰ کاذب ہے تو پھر میری چشم میں گریہ اور میرے جسم میں لاغری کس لیے ہے؟
 
اِس بیت کا ترجمہ یہ ہے:
تم جو کچھ بھی دیکھتے ہو وہ یار ہے، اغیار نہیں ہے؛ اُس کے (یعنی یار کے) سوا ہر چیز صرف وہم و گمان ہے۔
شاعر کا نام معلوم نہیں۔


اِس بیت کا ترجمہ یہ ہے:
تم نے اپنے حُسنِ ملیح سے جہاں میں شورش برپا کر دی اور ہر زخمیِ بسمل کو فغاں میں مصروف کر دیا۔

شاید یہ جامی کی بیت نہیں ہے، کیونکہ کلیاتِ جامی میں مجھے یہ بیت نظر نہیں آئی۔

ترجمے کی اصلاح کے لیے بہت بہت شکریہ۔
اور میں نے یہ غزل مولانا جامی کے نام سے آن لائن پڑھی تھی۔

از حسن ملیح خود شوری بجهان کردی
هر زخمیّ بسمل را مصروف خدا کردی
بی جرم و خطاه قتلم از ناز بتان کردی
خود تیغ زدی بر من، نام دیگران کردی
مدهوش به یک ساغر ای پیر مغان کردی
دل بُردی و جان بُردی بی تاب و توان کردی
این جامی بیچاره از عشق تو آواره
آوارهء غربت را در خاک نهان کردی
 

حسان خان

لائبریرین
نغمهٔ حافظ شنو ز خامهٔ صائب
"چند نشینی که خواجه کَی بِدر آید"
(صائب تبریزی)

حافظ کا نغمہ صائب کے خامے سے سنو۔۔۔ کب تک [اِس انتظار] میں بیٹھو گے کہ خواجہ کب بیرون آئے گا؟
× مصرعِ ثانی حافظ شیرازی کا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بر درِ اربابِ بی‌مروّتِ دنیا
چند نشینی که خواجه کَی به در آید؟
(حافظ شیرازی)

بے مروّت و بے رحم اربابِ دنیا کے در پر کب تک [اِس امید میں] بیٹھو گے کہ آقا کب در سے بیرون آئے گا [اور تمہارے حق میں لطف و توجہ کرے گا]؟
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی ایک نعتیہ قصیدے میں کہتے ہیں:
هرگز به تماشایِ بهشتت نکَشَد دل
گر چشم گشایی به تماشایِ مدینه
(عبدالرحمٰن جامی)

اگر تم شہرِ مدینہ کے نظارے کی جانب [اپنی] چشم کھول لو تو [تمہارا] دل تمہیں بہشت کے نظارے اور سیر و گردش کے برائے ہرگز نہ کھینچے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی اپنی ایک غزل کے مقطع میں کہتے ہیں:
چنان گفت این غزل را در جوابِ مولوی صائب
که روحِ شمسِ تبریزی ز شادی در سجود آمد
(صائب تبریزی)

صائب نے اِس غزل کو مولویِ [رومی] کے جواب میں اِس [احسن] طرز سے کہا کہ شادمانی سے شمس تبریزی کی روح سُجود میں آ گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی ایک نعتیہ غزل میں کہتے ہیں:
بارانِ رحمتی تو که از آسمانِ جود

بر عاشقانِ تشنه‌جگر کرده‌ای نزول
(عبدالرحمٰن جامی)
[اے رسول!] آپ بارانِ رحمت ہیں کہ آپ نے جُود و کرم کے آسمان سے تشنہ جگر عاشقوں پر نُزول کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی ایک نعتیہ غزل میں کہتے ہیں:
هرچند رفت طاقتم از جان و جان ز تن
وَاللهِ لَيْسَ حُبُّكَ عَنْ مُهْجَتِي يَزُول
(عبدالرحمٰن جامی)

[اے رسول!] ہرچند کہ میری جان سے طاقت اور میرے تن سے جان چلی گئی، [لیکن] خدا کی قسم! میری جان و روح سے آپ کی محبت نہیں نکلتی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شَرَفِ آدمی از عشق بُوَد هر که نشد
عاشق او را نبُوَد بر دگران هیچ شرف
(عبدالرحمٰن جامی)

انسان کا شرف عشق سے ہے؛ جو بھی شخص عاشق نہ ہوا، اُسے دیگروں پر کوئی شرف حاصل نہیں ہے۔
 
Top