مولانا جلالالدین رومی کے فرزند بهاءالدین محمد سلطان وَلَد اپنی ایک غزل کی ابتدائی چار ابیات میں فرماتے ہیں:
مؤمنان را خواند اِخوان در کلامِ خود خدا
پس بِباید صلحشان دادن بهم ای کدخدا
جنگ باشد کارِ دیو و صلح کردارِ مَلَک
صلح را باید گُزیدن تا پذیرد جان صفا
روحهایِ پاک را این صلح آمیزد بهم
قطرهها از یک شدن جویی شود ژرف ای فتیٰ
جمله یک گردید بیغش تا بهم بحری شوید
بعد از آن ایمِن شوید از خوفِ دشمن وز فنا
(بهاءالدین سلطان وَلَد)
مؤمنوں کو خدا نے اپنے کلام میں برادر پکارا ہے۔ پس، اے رئیس، اُن کے درمیان صلح کرانا لازم ہے۔ جنگ شیطان کا کام، جبکہ صلح فرشتے کا عمل ہے۔ صلح کو مُنتخَب کرنا لازم ہے تاکہ جان صفا و پاکیزگی حاصل کر لے۔ پاک روحوں کو یہ صلح باہم مِلاتی ہے۔ اے نوجوان! قطرے ایک ہو جانے سے ایک گہرا دریا بن جاتے ہیں۔ آپ سب کے سب خالصتاً ایک ہو جائیے، تاکہ آپ باہم ایک بحر بن جائیں۔ اُس کے بعد دشمن کے خوف اور فنا سے محفوظ و بے خوف ہو جائیے۔