رباعی
از کفر و ز اسلام برون صحرائیست
ما را به میان آن فضا سودائیست
عارف چو بدان رسید سر را بنهد
نه کفر و نه اسلام و نه آنجا جائیست

(مولانا رومی)

کفر و اسلام سے پرے ایک صحرا ہے، اس درمیانی جگہ کی بابت سب کا اپنا گمان ہے، جب عارف وہاں پہنچا تو اس نے نہ کفر و اسلام پایا اور نہ ہی یہ کہ وہاں ایسی جگہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ناصح سخنِ ساختہ ات پُر نمکین است
رحم است بزخمے کہ تو مرہم شدہ باشی


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

اے ناصح، تیری بنائی ہوئی باتیں تو نمک سے اَٹی پڑی ہیں، رحم اُس زخم پر کہ جس کا مرہم تُو بنا ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
کرده عاجز عاشقان را پنجهٔ نظّاره‌اش
چشمِ شوخِ او غزالِ شیرگیری بوده‌است
(شوکت بخاری)
عاشقوں کو اُس کے نظارے کے پنجے نے عاجز کر دیا ہے؛ اُس کی چشمِ شوخ شیر کا شکار کرنے والی غَزال ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رویِ شاهانِ ستم‌گر گر کنی نیکو نظر
سرخ از خونابهٔ اشکِ فقیری بوده‌است
(شوکت بخاری)

اگر تم ستم گر پادشاہوں کے چہروں پر غور سے نگاہ کرو [تو تمہیں نظر آئے گا کہ] وہ کسی فقیر کے اشکِ خونیں سے سُرخ ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
می‌کند مینا بیاضِ گردنِ خود را بلند
مَی‌پرستان صبحِ عید آمد نشاطی سر کنید
(شوکت بخاری)
مِینا اپنی گردن کی سفیدی کو بلند کر رہا ہے؛ مَے پرستو! صبحِ عید آ گئی، نشاط و شادمانی کا آغاز کیجیے۔
× مِینا = آبگینۂ شراب
× 'بَیاض' کا معنی سفیدی بھی ہے، اور وہ دفترِ سفید بھی جس میں چیزیں یا اشعار وغیرہ لکھے جاتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بی‌قراری نیست از طفلی ز ما یک دم جدا
مادرِ ایّام ما را شِیر از سیماب داد
(شوکت بخاری)

زمانۂ طِفلی [ہی] سے ایک لمحہ [بھی] بے قراری ہم سے جدا نہیں ہے؛ مادرِ ایّام نے ہمیں سیماب سے شِیر پلایا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
صاحبِ دیوان البانوی شاعر نظیم فراقولا (م. ۱۷۶۰ء) کی ایک فارسی بیت:
طبیب دست بِدار از دوایِ خستگی‌ام

طبیبِ عشق کند گر کند علاج مرا
(نظیم فراقولا)
اے طبیب! میری خستگی و بیماری کی دوا کرنے سے دست کھینچ لو۔۔۔ اگر میرا علاج کرے گا تو طبیبِ عشق کرے گا۔

چہار لسانی شاعر نظیم فراقولا نے اپنا اوّلین دیوانِ اشعار فارسی میں ترتیب دیا تھا۔ بعد ازاں، عربی، ترکی اور البانوی میں بھی ایک ایک دیوان مکمّل کیا۔ اُن کے فارسی، تُرکی، اور عربی دواوین صرف مخطوطوں کی شکل میں موجود ہیں، لیکن اُن کا البانوی دیوان شائع ہو چکا ہے، جو میری نظروں سے بھی گذرا ہے۔ اُن کے البانوی دیوان کی زبان البانوی اور فارسی و تُرکی کا امتزاج ہے اور فارسی کلمات اور اضافتوں کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔
کیا ہی خوب ہو اگر وہ ہزاروں فارسی کتابیں اور شعری مجموعے شائع ہو جائیں جو سراسرِ دنیا کے کتب خانوں میں ابھی تک مخطوطوں کی شکل میں موجود ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گدایانِ تُرا سنگِ قناعت چون به دست آید
ز چینی‌خانهٔ فغفور آوازِ شکست آید
(شوکت بخاری)

تمہارے گداؤں کے دست میں جب سنگِ قناعت آئے تو فغفور کے چینی خانے سے ٹوٹنے کی آواز آئے۔
× فَغفُور = چین کے پادشاہوں کا لقب
× چینی خانہ = وہ خانہ جس میں چینی ظُروف (برتن) ہوں [بحوالۂ لغت نامۂ دہخدا]

ایک نسخے میں بیت کا مصرعِ ثانی یہ ہے:
به چینی‌خانهٔ فغفور سیلابِ شکست آید
یعنی: فغفور کے چینی خانے میں ٹوٹنے کا سیلاب آ جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گُلِ راحت چه خواهی از گلستانِ جهان شوکت
که جایِ گُل ازین گلزار خارِ پا به دست آید
(شوکت بخاری)

اے شوکت! گلستانِ جہاں سے گُلِ راحت کیا چاہتے ہو؟۔۔۔ کہ گُل کی بجائے اِس گُلزار سے خارِ پا دست میں آتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
بیا کیفیّتِ احوالِ این میخانه از من پُرس
زبانِ موجِ مَی را هیچ کس چون من ‌نمی‌داند
(شوکت بخاری)

آؤ اِس میخانے کے احوال کی کیفیت کو مجھ سے پوچھو؛ موجِ شراب کی زبان کو کوئی بھی شخص میری طرح نہیں جانتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سجده‌گاهِ دل ندارد حاجتِ شمعِ چراغ
ز آتشِ سنگِ خود این محراب روشن می‌شود
(شوکت بخاری)

سجدہ گاہِ دل کو شمعِ چراغ کی حاجت نہیں ہوتی؛ یہ محراب خود [ہی] کے سنگ کی آتش سے روشن ہوتی ہے۔
 

عین احمد

محفلین
‏السلام علیکم اریب بھائی کیسے مزاج ہیں آپ کے ؟ہمیں انکا ترجمہ درکار ہے --
-
شفیعٌ مطاعٌ نبیٌ کریم، قسیمٌ جسیمٌ بسیمٌ وسیم

سعدی رح
 

حسان خان

لائبریرین
‏السلام علیکم اریب بھائی کیسے مزاج ہیں آپ کے ؟ہمیں انکا ترجمہ درکار ہے --
-
شفیعٌ مطاعٌ نبیٌ کریم، قسیمٌ جسیمٌ بسیمٌ وسیم

سعدی رح
وعلیکم السلام!
گلستان کی یہ بیت عربی میں ہے، اور اِس کا ترجمہ یہ ہے:
حضرتِ محمد (ص) شفیع، فرما‌ں روا، نبیِ کریم، صاحبِ جمال، تنومند و خوش اندام، خندا‌ں رُو اور خوب صورت ہیں۔
 

عین احمد

محفلین
حسان بھائی اس گلستان میں اور بھی عربی میں لکھے ہوے بیت ہیں اگر ہم وہ تحریر کریں تو ترجمہ کر دیجیے گا -
 

حسان خان

لائبریرین

طارق حیات

محفلین
دوستوں سے حضرت بیدل کی مندرجہ ذیل غزل کے ترجمے کی گذارش کی جاتی ہے۔

وحشی صحرای حسن نرگس فتان ‌کیست
موجهٔ دریای ناز ابروی جانان‌کیست
سایه‌ زلف ‌که شد سرمه‌کش چشم شام
خنده فیض سحر چاک گریبان کیست
حسن بتان اینقدر نیست فریب نظر
گر نه تویی جلوه‌گر آینه حیران‌ کیست
صدگل عیشم به دل خنده زد از شوق زخم
تکمه‌ جیب امید غنچهٔ پپکان‌ کیست
آتش دل شد بلند از کف خاکسترم
باد مسیحای شوق جنبش دامان کیست؟
رنگ بهار خیال می‌چکد از دیده‌ام
این‌گل حیرت نگاه شبنم بستان‌ کیست
ناز به خون می تپد در صف مژگان یار
بر در این میکده حلقهٔ مستان کیست
سبحه‌ دل را نشد رشته‌ جمعیتی
درتک و پوی خیال ریگ بیابان کیست
دل ز پی‌اش رفت و من می‌روم از خویشتن
عیب جنونم مکن ناله به فرمان‌کیست
از مژه تا دامنم مشق ز خود رفتنیست
اشک جنون ‌تاز من طفل دبستان‌ کیست
بیدل اگر لعل او نیست تبسم‌فروش
شبنم‌ گلهای زخم‌ گرد نمکدان‌ کیست
 

حسان خان

لائبریرین
به صحرایِ غمش تنها نه من سرگشتگی دارم
که همچون گَردباد اینجا سرِ افلاک می‌گردد
(شوکت بخاری)

اُس کے غم کے صحرا میں صرف میں ہی سرگشتہ نہیں ہوں، بلکہ یہاں آسمانوں کا سر [بھی] گَردباد کی مانند گھومتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رِشتهٔ شیرازهٔ اوراقِ کثرت وحدت است
جاده‌ها چون جمع گردد شاه‌راهی می‌شود
(شوکت بخاری)
اوراقِ کثرت کی شیرازہ بندی کرنے والا دھاگا وحدت ہے؛ جادے (راستے) جب جمع ہو جاتے ہیں، ایک شاہراہ بن جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از طپیدن‌ها دلِ من کرد بی‌تاب آه را
رِشته را این گوهر از غلطانیِ خود تاب داد
(شوکت بخاری)

میرے دل نے [اپنے] طپیدنے سے آہ کو بے تاب کر دیا؛ اِس گوہر نے اپنی غلطانی سے دھاگے کو موڑ دیا۔

× طَپِیدنا = دھڑکنا
 
Top