تمہید
-----
میرے دادا جان صدرالاولیاء حضرت معظم قاضی محمد صدر الدینؒ کی حیات طیبہ اور وفات پر والد گرامی حضرت قاضی عبد الدائم دائمؔ مُد ظلہ العالی نے فارسی زبان میں ”قصیدہ غزلیہ برنگ مرثیہ“ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ یہ نظم اتنی پردرد اور پرتاثیر تھی کہ اس کو پڑھ کے ایران کے خانہٕ فرہنگ کے سابق ڈائریکٹر ”آقائے تسبیحی“ باوجود ایرانی ہونے کے دنگ رہ گئے اور بے ساختہ پکار اٹھے ” بخدا یادِ حافظ شیراز تازہ گشت“۔ اس نظم کے تین اشعار پیش کرنے سے قبل 2 باتیں بتاتا چلوں کہ دادا جان میرے والد گرامی کو پیار سے ” مِنّا “ کہا کرتے تھے جو کہ ہماری زبان میں برخوردار کے مترادف ہے اور دوسری بات یہ کہ والد گرامی ہر روز فجر کی نماز کے بعد حضرت معظمؒ کے مزار پر مراقبے کے لئے تشریف لے جاتے ہیں۔
نمی یا بم ترا آقا! کجا ر فتی ؟ چرارفتی؟
بہجر تو دلم شد ریش وچشمم اشکبار آمد
سر بالیں بیا یکدم ، ببیں تو حال نزعم را
دو چشمم وا، جگر خستہ ، بدل ہم انتظار آمد
نمی بینم کسے راکو مرا ’’منَّا ‘‘ بفرماید
بشوق ایں ندایت ،خاک پایت بر مزار آمد
میرے آقا! اب میں آپ کو کہیں بھی نہیں پاتا (دیکھتا)۔ آپ کدھر چلے گئے ہیں اور کیوں چلے گئے ہیں۔
آپ کی جدائی میں دل پگھل گیا اور آنکھیں اشکبار ہیں۔
عالمِ نزع کے وقت آپ اچانک میرے سرہانے آ کے جلوہ گر ہو جائیے گا
(کیوں کہ اس وقت میں) ناتواں دل کے ساتھ اپنی آنکھیں کھولے آپکا منتظر رہوں گا۔
اب کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو مجھے ” میرا منا“ کہ کے پکارے۔
اِسی پکار کو سننے کے لئے ”آپکے پاؤں کی خاک“ آپکے مزار پر حاضر ہوتی ہے۔
محمد وارث ،
حسان خان ،
محمد خلیل الرحمٰن
اگر ترجمہ میں کوئی فرق لگے تو آگاہ کر دیجئے گا۔