حسان خان

لائبریرین
به چشمِ مُشتری گردد نگه آب از تماشایم
شود یاقوت خاکستر ز گرمی‌هایِ بازارم
(شوکت بخاری)

میرے نظارے سے خریدار کی چشم میں نگاہ آب ہو جائے؛ میرے بازار کی گرمیوں سے سنگِ یاقوت خاکستر میں تبدیل ہو جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
محفل پہ فارسی سیکھنے کا فورم بھی ہوتا تو ہم بھی مستفید ہوتے
جنابِ محترم! مجھے خوشی ہوئی کہ آپ میری محبوب زبان فارسی کو سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فارسی زبان کا شمار دنیا کی آسان تر زبانوں میں ہوتا ہے، اور اردو کا خوب علم رکھنے والے شخص کے لیے تو یہ زبان بے حد آسان ہے۔ میری نظر میں آپ کے لیے بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ آپ نیٹ پر موجود فارسی سکھانے والی کتب کا مطالعہ شروع کر دیجیے۔ جہاں کوئی مسئلہ پیش آئے وہاں فارسی جاننے والے دوستوں سے پوچھ لیجیے۔ میں نے بھی اِسی طرح فارسی زبان سیکھی تھی۔

پس نوشت: مجھ سے جب بھی فارسی زبان سے متعلق کوئی سوال پوچھا جائے گا، میں ضرور جواب دوں گا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
تار و پود ہستی ام بر باد رفت اما نرفت
عاشقی ہا از دلم، دیوانگی ہا از سرم


رھی معیری

میری ہستی کا تانا بانا بکھر کر ہوا میں چلا گیا لیکن دل سے عاشقیاں اور سر سے دیوانگیاں نہ گئیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
به حرمتِ رمضان کوش اگر ز اهلِ یقینی
همین مه است که آدم طبیعتِ مَلَک استش
(بیدل دهلوی)

اگر تم اہلِ یقین میں سے ہو تو رمضان کی حُرمت [کرنے] کی کوشش کرو؛ یہی وہ ماہ ہے کہ جس میں آدم کے پاس فرشتے کی فطرت ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سعد و نحسِ دهر بیدل کَی دهد تشویشِ ما
همچو طفلان کارِ ما با شنبه و آدینه نیست
(بیدل دهلوی)
اے بیدل! زمانے کی مبارک و منحوس [ساعتیں] ہمیں کب تشویش دیتی ہیں؟ ہمیں بچّوں کی طرح شنبہ اور جمعہ سے کام (یا سروکار) نہیں ہے۔

تشریح: 'شنبہ' ہفتے کے روز کو جبکہ 'آدینہ' جمعے کو کہتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں جمعہ تعطیل کا روز ہوتا تھا، جبکہ روزِ شنبہ سے دوبارہ مکتبوں میں تدریسی سرگرمیوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ لہٰذا بچّوں کی نظر میں 'جمعہ' ایک مبارک روز، جبکہ 'شنبہ' پُرنحوست روز ہوتا تھا، اور وہ تمام ہفتے شنبہ و جمعہ کی فکر ہی میں رہتے تھے۔ بیدل کہہ رہے ہیں کہ ہمیں زمانے کی سعد و نحس ساعتوں اور ایّام سے کوئی پریشانی و تشویش نہیں ہوتی، کیونکہ ہم طفلِ مکتب نہیں ہیں کہ ہمیں روزِ شنبہ یا روزِ جمعہ سے سروکار ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
روزِ وصل از بیمِ هجرانِ توام گریان گذشت
آه عید آمد پس از عمری و در باران گذشت
(رایج سیالکوتی)
تمہارے ہجر کے خوف کے باعث میرا روزِ وصل گریہ کرتے ہوئے گذرا۔۔۔ آہ! ایک عمر بعد عید آئی، اور بارش میں گذری۔

مأخذ: تذکرهٔ یدِ بیضا، میر غلام علی آزاد بلگرامی
 

حسان خان

لائبریرین
غمِ عشقت ز بس بِگْداخت جسمِ ناتوانم را
هُما عینک گذارد تا ببیند اُستُخوانم را
(شوکت بخاری)
تمہارے غمِ عشق نے میرے جسمِ ناتواں کو اِتنا زیادہ پگھلا دیا کہ میرے اُستُخوانوں کو دیکھنے کے لیے ہُما کو عینک لگانی پڑتی ہے۔
× اُستُخوان = ہڈّی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از لبِ من کَی فغان دل‌خواه می‌آید برون
ناله‌ام از ناتوانی آه می‌آید برون
(شوکت بخاری)
میرے لب سے فغاں کب دل کی خواہش کے مطابق بیرون آتی ہے؟ ناتوانی کے باعث میرا نالہ آہ کی شکل میں بیرون آتا ہے۔

'خزانهٔ عامره' میں میر غلام علی آزاد بلگرامی اِس بیت کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"مؤلف گوید ازین بیت مستفاد می‌شود که آه از ناله کم است."
ترجمہ: مؤلف کہتا ہے اِس بیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آہ نالے سے کم ہے۔
 
خرد کمند هوس شکار است‌، ورنه در چشم شوق مجنون
بجز غبار خیال لیلی کجاست آهو درین بیابان
(بیدل دھلوی)
خرد کمندِ ہوس کی شکار ہے ورنہ چشمِ شوقِ مجنوں میں بجز غبارِ خیالِ لیلی اس بیابان میں کہاں نقص ہے۔
 

یاز

محفلین
رازِ درونِ پردہ زرندانِ مست پُرس
اے مدعی نزاعِ تُو باپردہ دار چیست
(حافظ شیرازی)

(پردے کے اندر کے راز رندوں سے پوچھ لے۔ اے مدعی پردہ دار سے تیرا جھگڑا کیا ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
خرد کمند هوس شکار است‌، ورنه در چشم شوق مجنون
بجز غبار خیال لیلی کجاست آهو درین بیابان
(بیدل دھلوی)
خرد کمندِ ہوس کی شکار ہے ورنہ چشمِ شوقِ مجنوں میں بجز غبارِ خیالِ لیلی اس بیابان میں کہاں نقص ہے۔
کمندِ ہوس شکار = ہوس (آرزو؛ خواہشِ نفس) کا شکار کرنے والی کمند
آهُو = ہرن، غزال

فارسی میں 'عیب و نَقص' کا معنی رکھنے والا 'آهُو' بھی موجود ہے، لیکن وہ اب متروک ہو چکا ہے۔ اور بیدل کی اِس بیت میں 'غزال' والا 'آهُو' استعمال ہوا ہے۔


خرد کمندی هوس‌شکار است، ورنه در چشمِ شوقِ مجنون
به جز غبارِ خیالِ لیلی کجاست آهُو درین بیابان
(بیدل دهلوی)
عقل، آرزو اور خواہشِ نفس کا شکار کرنے والی ایک کمند ہے۔ ورنہ اِس بیاباں میں مجنوں کی چشمِ شوق میں لیلیٰ کے خیال کے غبار کے بجز کوئی آہُو کہاں ہے؟

تشریح: لیلیٰ و مجنوں کی داستان میں ہے کہ آوارۂ بیاباں مجنون کو کسی شکاری کے دام میں ایک آہو نظر آیا تھا اور چشمِ آہو سے اُسے چشمِ لیلیٰ یاد آ گئی تھی، اور پس اُس نے شکاری سے آہو کو آزاد کرنے کی خواہش کی تھی۔ یہاں بیدل اُسی داستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انسان کی عقل اُس کی اپنی آرزوؤں اور نفسانی خواہشوں ہی کا شکار کرتی ہے، یعنی اُس کی خود کی آرزوؤں ہی کو منعکس کرتی ہے۔ لہٰذا بیاباں میں مجنوں کو اپنی چشمِ شوق میں آہو نظر نہیں آیا تھا، بلکہ یہ لیلیٰ کے خیال کا غبار ہی تھا جو آہُو بن کر اُس کی نظروں میں ظاہر ہو گیا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بی زوالِ تن سلامت نیست در آشوبِ عشق
کشتی‌ات تا نشکند نتوان ازین طوفان گذشت

(رایج سیالکوتی)
عشق کے آشوب میں تن کے زوال کے بغیر سلامتی نہیں ہے؛ جب تک تمہاری کشتی نہ ٹوٹ جائے، اِس طوفان سے گذرا نہیں جا سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
از کرم آن شوخ گاهی یک دو دشنامم نداد
رایج ایامِ مروّت‌کیشی و احسان گذشت

(رایج سیالکوتی)
اّس شوخ نے کبھی از راہِ کرم مجھے ایک دو دُشنام نہ دیے؛ اے رائج! مروّت و احسان کے ایّام گذر گئے۔
× دُشنام = گالی
 

حسان خان

لائبریرین
قلبِ آذربائجان تبریز کا ذکر تو فارسی شاعری میں بارہا ہوا ہے، لیکن مجھے آج بارِ اوّل حالیہ جمہوریۂ آذربائجان کے دارالحکومت باکو کا ذکر کسی فارسی بیت میں نظر آیا ہے:
ای نسیمی چون خدا گفت اِنَّ ارضی واسِعه
خطهٔ باکو به جا بگذار کاین جایِ تو نیست

(سید عمادالدین نسیمی)
اے نسیمی! چونکہ خدا نے فرمایا ہے: "یقیناً میری زمین وسیع ہے"، [تو پس] خطّۂ باکو کو چھوڑ دو کہ یہ تمہاری جا نہیں ہے۔
× عربی اقتباس سورۂ عنکبوت کی آیت ۵۶ سے مقتبس ہے۔
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
شدم به زُهدِ قوی غرّه و ندانستم
که زورِ عشق به عَجز افکَنَد توانا را

(امیر علی‌شیر نوایی)
میں [اپنے] زُہدِ قوی پر مغرور ہو گیا تھا۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ عشق کا زور توانا کو عاجزی کے ساتھ گرا دیتا ہے۔
بہت خوب!! کیا کہنے!!
 

حسان خان

لائبریرین
به روزِ حشر اگر چشمم نبیند حق تعالیٰ را
بِسوزد آتشِ آهم بهشت‌آبادِ عُقبیٰ را
(فضل‌الله نعیمی استرآبادی)

اگر بروزِ حشر میری چشم حق تعالیٰ کو نہ دیکھے تو میری آتشِ آہ بہشت آبادِ عُقبیٰ کو جلا ڈالے گی۔
 

لاریب مرزا

محفلین
بہ جہلِ خویش بکن اعتراف و دانا باش
کہ افتخار بہ دانش دلیلِ نادانیست


واعظ قزوینی

اپنے نہ جاننے کا اعتراف کر اور عقلمند و دانا بن جا، کہ اپنی دانش پر فخر کرنا اور اُس کی ڈینگیں مارنا نادانی اور جہالت کی دلیل ہے۔
خوب!!
 

حسان خان

لائبریرین
به چشمِ عقلِ روشن‌بین جهان تاریک می‌گردد
چو مجنون در خیال آرد سوادِ زلفِ لیلیٰ را

(فضل‌الله نعیمی استرآبادی)
جب مجنوں [اپنے] خیال میں زلفِ لیلیٰ کی سیاہی کو لاتا ہے تو عقلِ روشن بیں کی چشم میں جہان تاریک ہو جاتا ہے۔
 
Top