حسان خان

لائبریرین
من نخواهم کرد دست از دامنِ وصلت رها
گر زمین و آسمان زیر و زبر خواهد شدن
(سید عمادالدین نسیمی)

اگر زمین و آسماں زیر و زبر ہو جائیں گے (تو بھی) میں تمہارے دامنِ وصل سے دست نہیں کھینچوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
در شبستانی که گردد کِلکِ صائب شعله‌ریز
شمع در زیرِ پرِ پروانه پنهان می‌شود
(صائب تبریزی)

جس شبستان میں صائب کا قلم شعلہ ریز ہوتا ہے، [وہاں] شمع [شرمسار ہو کر] پرِ پروانہ کے زیر میں پنہاں ہو جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از بلاها هیچ بیمی نیست اندر زندگی
سایه‌بان باشد به سر گر قامتِ بالایِ تو
(عالم جان عارفی سمرقندی)

اگر [میرے] سر پر تمہاری قامتِ بالا سائبان [کے طور پر موجود] ہو تو مجھے زندگی میں بلاؤں سے ذرا بھی خوف نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(قطعه)
دلا گر آیدت روزی غمی پیش
چو یاری باشدت غم‌خوار غم نیست
برایِ روزِ محنت یار باید
وگرنه روزِ راحت یار کم نیست
(عبدالرحمٰن جامی)
اے دل! اگر کسی روز تمہیں کوئی غم پیش آ جائے، تو اگر تمہارے پاس کوئی غم خوار یار ہو تو غم نہیں ہے۔
رنج کے روز کے لیے یار کی ضرورت ہے، ورنہ راحت کے روز یار کم نہیں ہوتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فرماں روائے طبرستان کے لیے کہے گئے مرثیے میں ایک جا خاقانی شروانی کہتے ہیں:
"دیروز چو آفتاب بودی

امروز چو کیمیات جویم
دوشت همه شب چو بدر دیدم
امشب همه چون سُهات جویم"
(خاقانی شروانی)
"تم دِیروز آفتاب کی مانند تھے، [لیکن] اِمروز مَیں تمہیں کیمیا کی مانند تلاش کر رہا ہوں۔ (یعنی دِیروز تم آفتاب کی مانند ہر جگہ ظاہر و آشکار تهے، لیکن اِمروز تم کیمیا کی مانند نایاب ہو گئے ہو۔)؛ گذشتہ تمام شب مَیں نے تمہیں ماہِ تمام کی مانند دیکھا تھا، [لیکن] اِس کُل شب تمہیں [مشکل سے نظر آنے والے ستارے] سُہا کی مانند تلاش کر رہا ہوں۔"
× دِیروز = روزِ گذشتہ، گذشتہ کل
× اِمروز = آج
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شہرِ اصفہان کی ستائش میں کہے گئے قصیدے میں خاقانی شروانی کہتے ہیں:
دستِ خضر چون نیافت چشمه دوباره
کرد تیمّم به خاکِ پایِ صفاهان
(خاقانی شروانی)

دستِ خضر کو جب چشمۂ [آبِ حیات] دوبارہ نہ مِلا تو اُس نے اصفہان کی خاکِ پا سے تیمّم کیا۔
 
شہید ناز او بزم وجود است
نیاز اندر نہاد ہست و بود است
نمی بینی کہ از مہر فلک تاب
بسیمائے سحر داغ سجود است
(اقبال)
کائنات کی ہر شے اپنے خالق کے ساتهه اپنی فریفتگی کا اظہار کر رہی هے.سب اپنے ربّ کے سامنے اپنے سر جهکاے هوے هیں. تم دیکهو تو، صبح طلوع هوتا هوا سورج ،کائنات کے ماتهے پر سجدوں کے اثر سے پڑنے والے نشان کی طرح نظر آتا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
رود گر نامِ آن لب‌هایِ شیرین بر زبانِ ما
شود شهد و شَکَر شرمَنده در پیشِ دهانِ ما

(تیمور شاه دُرّانی)
اگر اُن لب ہائے شیریں کا نام ہماری زبان پر جاری ہو جائے تو ہمارے دہن کے پیش میں شہد و شَکَر شرمندہ ہو جائیں گے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا مرا استادِ مکتب کرد تعلیمِ سخن
در زبانم نیست غیر از حَرفِ گفتگویِ دوست
(تیمور شاه دُرّانی)

جب سے مجھے استادِ مکتب نے سُخن کی تعلیم دی ہے، میری زبان پر دوست کی گفتگو کے سوا کوئی حَرف نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر شود مجنون به نزدِ ما ندارد اعتبار
چهرهٔ عاشق اگر در عشقِ خوبان زرد نیست

(تیمور شاه دُرّانی)
اگر عاشق کا چہرہ عشقِ خوباں میں زرد نہیں ہے، تو اگر وہ مجنون [بھی] ہو جائے، تو بھی ہمارے نزدیک اُس کی آبرو نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
زاہد اگرت سُبحۂ صد دانہ عزیز است
ما را بخدا گریۂ مستانہ عزیز است


واقف لاہوری (بٹالوی)

اے زاہد، اگر تجھے سو دانوں والی تسبیح عزیز ہے تو بخدا ہمیں بھی اپنا گریۂ مستانہ بہت عزیز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نوشتم نامه را بر کاغذِ زرد
که هجرانت مرا یعنی چنین کرد
(تیمور شاه دُرّانی)

میں نے مکتوب کو زرد کاغذ پر لکھا۔۔۔ [تاکہ تم جان جاؤ] کہ مجھے تمہارے ہجر نے ایسا کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز عمرِ رفته همین جسمِ ناتوان مانده
گذشته قافله و گَردِ کاروان مانده
(شاه ابراهیم سالک قزوینی)
عمرِ رفتہ میں سے یہی جسمِ ناتواں باقی رہ گیا ہے؛ قافلہ گذر گیا ہے اور گَردِ کارواں باقی رہ گئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در دل گذشت یادِ لبت شد دهان لذیذ
آری ز شهد و قند بِگردد زبان لذیذ
(تیمور شاه دُرّانی)

دل میں تمہارے لب کی یاد گذری، میرا دہن خوش مزہ ہو گیا۔۔۔ بے شک! شہد و قند سے زبان خوش مزہ ہو جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
وفایِ خود مگر صرفِ رقیبان کرده‌ای، ای گُل!
که من جُستم بسی، بُویِ وفا از تو نمی‌آید
(محمد فضولی بغدادی)
اے گُل! تم نے اپنی وفا کو شاید رقیبوں پر صرف کر دیا ہے، کہ میں بے بِسیار تلاش کی، [لیکن] تم سے بُوئے وفا نہیں آتی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یار در چشم و نگہ سرگرمِ جُست و جوئے اُوست
پردہ ہائے دیدہ ام گویا نقابِ رُوئے اُوست


غنی کاشمیری

یار تو آنکھوں میں (بسا) ہے اور نگاہیں اُس کی جستجو میں سرگرم ہیں، گویا میری اپنی آنکھوں کے پردے ہی اُس کے چہرے کا نقاب (بن گئے) ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر نبودی مظهرِ ذاتِ خدا آدم کجا
مستحقِّ اِسْجُدُوا گشتی ز علّامِ علیم
(سید عمادالدین نسیمی)
اگر آدم ذاتِ خدا کا مظہر نہ ہوتا تو وہ کب خدائے علّام و علیم کی جانب سے 'اِسْجُدُوا' (تم سب سجدہ کرو) کا مستحق بنتا؟
× مندرجۂ بالا بیت میں سورۂ بقرہ کی آیت ۳۴ کی جانب اشارہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مصحفِ حق است رویش چشم و ابرو سوره‌ها
قامت و زلف و دهانش چون الف لام است و میم
(سید عمادالدین نسیمی)
اُس کا چہرہ مُصحَفِ حق ہے [اور اُس کی] چشم و ابرو سورتیں ہیں؛ [جبکہ] اُس کی قامت و زلف و دہن الف، لام اور میم کی مانند ہیں۔ (یعنی قامت الف کی مانند راست، زُلف لام کی مانند خم، اور دہن میم کی مانند تنگ ہے۔)
 
تا صاحب فرزند نگردی، نتوان یافت
در عالم ایجاد، حقوق پدری را
(صائب تبریزی)

جب تک تو صاحبِ فرزند نہیں ہوجاتا، عالمِ ایجاد میں حقوقِ پدری نہیں پاسکتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
معزول گشتہ عقل بمُلکِ جنوں ولے
عشق است آنکہ رہبرِ کامل بوَد مرا


محمد حسین جلیلی بیدار کرمانشاہی

مُلکِ جنون میں عقل معزول ہو گئی ہے لیکن عشق موجود ہے کہ وہ میرے لیے رہبرِ کامل ہے۔
 
Top