حسان خان

لائبریرین
مقصودِ ما ز عید بُوَد دیدنِ رُخت
بی دیدنِ رُخت نَبُوَد عید عیدِ ما

(نجاتی بیگ)
عید سے ہمارا مقصد تمہارے چہرے کا دیدار ہے؛ تمہارے چہرے کے دیدار کے بغیر ہماری عید، عید نہیں ہوتی۔
× شاعر کا تعلق دیارِ آلِ عثمان سے تھا۔

× مصرعِ ثانی کا یہ ترجمہ کرنا بھی ممکن ہے:
تمہارے چہرے کے دیدار کے بغیر عید، ہماری عید نہیں ہوتی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای ز زلفت دم به دم گشته پریشان حالِ من
من گنه‌کارم دو زلفت نامهٔ اعمالِ من
(نجاتی بیگ)

اے کہ تمہاری زُلف سے ہر لحظہ میرا حال پریشان ہو گیا ہے؛ میں گناہ کار ہوں، اور تمہاری دو زُلفیں میرا نامۂ اعمال ہیں۔
(شاعر نے معشوق کی سیاہ زلفوں کو اپنا نامۂ اعمال کہا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
تا بادِ فراقم ز درِ دوست نرانَد
از گریه مُدام آب زنَد دیده به خاکم
(نجاتی بیگ)
[میری] چشم دائماً میری خاک پر گریے سے آب چھڑکتی ہے تاکہ بادِ فراق مجھے دوست کے در سے اُڑا نہ دے۔
 

حسان خان

لائبریرین
افزوده شود حُسنِ گُل از قطرهٔ شبنم
دامن مکَش از من که همان قطرهٔ پاکم
(نجاتی بیگ)

گُل کے حُسن میں قطرۂ شبنم سے اضافہ ہو جاتا ہے؛ مجھ سے دامن مت کھینچو کہ میں وہی قطرۂ پاک ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی مدح میں کہے گئے ایک قصیدے میں ابوالقاسم حسن بن احمد عُنصُری بلخی کہتے ہیں:
شده‌است بسته زبانم ز وصف کردنِ او

به وصفِ هر چه بِخواهی منم گشاده‌زبان
(عنصری بلخی)
اُس کے وصف بیان کرنے سے میری زبان بستہ ہو گئی ہے؛ [حالانکہ] تم جو چیز بھی چاہو، اُس کی توصیف میں مَیں کُشادہ زباں ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی مدح میں کہے گئے ایک قصیدے میں ابوالقاسم حسن بن احمد عُنصُری بلخی کہتے ہیں:
"موافقانِ هُدیٰ را ز فرِّ دولتِ تو

چهار چیز به جایِ چهار گشته عیان
به جایِ محنت نعمت به جایِ غم شادی
به جایِ بیم امید و به جایِ ضَعف توان
مخالفانِ هُدیٰ را ز بیمِ هیبتِ تو
چهار چیز به جایِ چهار شد بُنیان
به جایِ عمر هلاک و به جایِ درمان درد
به جایِ ناز نیاز و به جایِ لَهْو احزان"
(عنصری بلخی)
تمہاری دولت و اقبال مندی کی شان و شوکت سے مُوافقانِ راہِ راست کے لیے چار چیزوں کی بجائے چار چیزیں عیاں ہو گئی ہیں: رنج کی بجائے نعمت، غم کی بجائے شادمانی، خوف کی بجائے امید، اور ناتوانی کی بجائے توانائی۔
تمہاری ہیبت کے خوف سے مخالفانِ راہِ راست کے لیے چار چیزوں کی بجائے چار چیزیں بنیاد پا گئی ہیں: عمر کی بجائے ہلاکت، علاج کی بجائے درد، ناز کی بجائے نیاز، اور تفریح و طرَب کی بجائے غم و اندوہ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(قطعه)
ای که داری خِرَد! بِدان که تو را
با دو کس اختلاط دشوار است
اوّل آن کس که نیست طالبِ تو
از تو و دیدنِ تو بیزار است
دُوُم آن کس که دیدنِ او نیست
دل‌پسندِ تو لیک ناچار است
(محمد فضولی بغدادی)
اے خِرَدمند! جان لو کہ تمہارے لیے دو اشخاص کے ساتھ اختلاط مشکل ہے: اوّل وہ شخص کہ جو تمہارا طالب نہیں ہے، اور جو تم سے اور تمہاری دید سے بیزار ہے۔ دُوُم وہ شخص کہ جس کی دید تمہیں پسند نہیں لیکن ناگُزیر ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چو هست محنتِ هجران به قدرِ مُدّتِ عمر
چرا به وصل نباشد امیدوار کسی؟
(محمد فضولی بغدادی)

جب ہجر کا رنج عُمر کی مدت کے بقدر ہے تو پس کوئی شخص وصل کا امیدوار کیوں نہ ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی کے ایک فارسی قصیدے کا مطلع:
بر آنم که از دل‌بران برکَنَم دل
نه سهل است کاری چنین، ربِّ سهِّل
(محمد فضولی بغدادی)

میرا ارادہ ہے کہ میں دلبروں سے [اپنے] دل کا تعلق قطع کر دوں۔۔۔ [لیکن] اِس طرح کا کوئی کام آسان نہیں ہے۔ اے میرے رب! [اِسے] آسان کر دے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ہرچند کہ جاں زار و دل از ہجر غمیں است
غم نیست اگر مصلحتِ یار ہمیں است


شرف قزوینی

ہرچند کہ (میری) جان زار زار اور دل ہجر سے غمناک ہے لیکن اگر مصلحتِ یار یہی ہے تو پھر کوئی غم نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی اپنے تُرکی دیوان کے دیباچے میں کاتبِ غلط تحریر پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
(قطعه)

باد سرگشته به سانِ قلم آن بی‌سر و پا
که بُوَد تیشهٔ بنیادِ معارف قلمش
زینتِ صورتِ لفظ است خطش لیک چه سود
پردهٔ شاهد معناست سوادِ رقمش
(محمد فضولی بغدادی)
وہ بے سر و پا [کاتب] قلم کی مانند سرگشتہ رہے (یعنی قلم کی مانند اُس کا سر قطع ہو جائے) کہ جس کا قلم معارف کی بنیاد [ڈھانے والا] تیشہ ہے؛ اُس کا خط صورتِ لفظ کی زینت ہے، لیکن کیا فائدہ؟ کہ اُس کی تحریر شاہدِ معنیٰ کا حجاب ہے۔ (یعنی اُس کی غلط تحریر سے لفظ کا معنی پوشیدہ ہو جاتا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
رحم بر زاریِ من یار ندارد چه کنم؟
یار پروایِ منِ زار ندارد چه کنم؟
(محمد فضولی بغدادی)

یار میری زاری پر رحم نہیں کرتا، میں کیا کروں؟۔۔۔ یار کو مجھ زار کی پروا نہیں ہے، میں کیا کروں؟
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی نے اپنے دیوانِ فارسی کے دیباچے میں فارسی دیوانِ شعر مرتّب کرنے کا سبب یہ واقعہ بتایا ہے:

".... روزی گذارم به مکتبی افتاد. پری‌چهره‌ای دیدم فارسی‌نژاد. سهی سروی که حیرتِ نظارهٔ رفتارش الف را از حرکت انداخته بود و شوقِ مطالعهٔ مصحفِ رخسارش، دیدهٔ نابینایِ صاد را عینِ بصر ساخته بود:

سروِ چمنِ لطف، قدِ دل‌کشِ او
شمعِ شبِ قدر، عارضِ مه‌وشِ او
سروی که ز دیده می‌خورَد آب مُدام
شمعی که همیشه از دل است آتشِ او
چون توجهٔ من دید، از گفت‌هایِ من چند بیتی طلبید. من نیز چند بیتی از عربی و ترکی به او ادا نمودم. و لطایف چند نیز از قصیده و معما بر او افزودم. گفت که: این‌ها زبان من نیست، و به کارِ من نمی‌آید. مرا غزل‌هایِ جگرسوزِ عاشقانهٔ فارسی می‌باید!
ابهام در معانی و اغلاق در کلام
کارِ اکابرِ علمایِ زمانه است
تابِ عذابِ فکر ندارند دل‌بران
مرغوبِ دل‌بران، غزلِ عاشقانه است!
بی تکلف از این سخن مرا خجالتی دست داد و آتشی در دل افتاد که خرمنِ اندوختهٔ مرا همه سوخت و در شبستانِ خیالم، شمعِ شوقِ غزلِ فارسی برافروخت. شبی چند، خود را در آتشِ تفکر گداختم و در غزلیاتِ فارسی دیوانی مرتب ساختم که هم مدققانِ کامل را مضمون‌هایِ مبهمش دل‌فریب است و هم ظریفانِ ساده‌دل را از مائدهٔ مذاقش نصیب."

"۔۔۔ایک روز میرا گذر ایک مکتب سے ہوا۔ وہاں میں نے ایک فارسی نژاد پری رُخ دیکھا۔ وہ ایک سروِ سہی تھا کہ جس کی رفتار کے نظارے کی حیرت نے الف کی حرَکت ختم کر دی تھی اور جس کے مصحفِ رخسار کے مطالعے کے شوق نے نابینائے کامل کی چشم کو عینِ بصر بنا دیا تھا:
(شعر) اُس کا قدِ دلکش چمنِ لطف کا سرو ہے؛ اُس کا مثلِ ماہ رُخسار شبِ قدر کی شمع ہے؛ ایسا سرو کہ جو ہمیشہ دیدے سے آب پیتا ہے؛ ایسی شمع کہ جس کی آتش ہمیشہ دل سے ہوتی ہے۔ (یعنی جو ہمیشہ اپنی آتشِ دل سے روشن ہوتی ہے۔)
جب اُس نے میری توجہ دیکھی تو میری کہی ہوئی چند ابیات طلب کیں۔ میں نے بھی عربی و ترکی کی چند ابیات اُس کو بیان کر دیں۔ ساتھ ہی قصیدے اور معمّے کے چند لطائف کا بھی اضافہ کر دیا۔ اُس نے کہا کہ یہ میری زبان نہیں ہیں، اور میرے کام نہیں آئیں گی۔ مجھے فارسی کی جگرسوز و عاشقانہ غزلیں چاہییں!
(شعر) معانی میں ابہام اور کلام میں پیچیدگی اکابرِ علمائے زمانہ کا کار ہے؛ [لیکن] دلبروں کو عذابِ فکر و تفکر کی تاب نہیں ہوتی اور اُن کی مرغوب چیز تو غزلِ عاشقانہ ہے۔
تکلف برطرف، اِس سخن سے میں شرمندہ ہو گیا اور میرے دل میں ایک آتش لگ گئی جس نے میرا جمع کیا ہوا تمام خِرمن جلا دیا اور میرے شبستانِ خیال میں شوقِ غزلِ فارسی کی شمع روشن کر دی۔ میں نے چند شب خود کو آتشِ تفکر میں پگھلایا اور فارسی غزلیات کا ایک دیوان مرتّب کیا کہ جس کے دل فریب مبہم مضامین نکتہ سنجانِ کامل کے لیے بھی دل فریب ہیں اور جس کے مائدۂ ذوق سے ظریفانِ سادہ دل بھی بہرہ ور ہوں گے۔"


کہنہ نثر کا ترجمہ کرنا ایک مشکل کار ہے، اِس لیے خطا کا امکان رہتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
از غمزہ گہہ عتاب و گہے خندہ می کُنی
ما را چو شمع می کشی و زندہ می کنی


اہلی شیرازی

اپنے غمزوں سے تُو کبھی ہم پر عتاب کرتا ہے اور کبھی مسکرا دیتا ہے (اور لطف و کرم کرتا ہے) یعنی شمع کی طرح کبھی ہمیں بُجھا دیتا ہے اور کبھی جلا دیتا ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
ای ز زلفت دم به دم گشته پریشان حالِ من
من گنه‌کارم دو زلفت نامهٔ اعمالِ من
(نجاتی بیگ)
اے کہ تمہاری زُلف سے ہر لحظہ میرا حال پریشان ہو گیا ہے؛ میں گناہ کار ہوں، اور تمہاری دو زُلفیں میرا نامۂ اعمال ہیں۔
(شاعر نے معشوق کی سیاہ زلفوں کو اپنا نامۂ اعمال کہا ہے۔)
دو زلفوں سے مراد دو کنڈل (curl)؟؟
 

لاریب مرزا

محفلین
(قطعه)
ای که داری خِرَد! بِدان که تو را
با دو کس اختلاط دشوار است
اوّل آن کس که نیست طالبِ تو
از تو و دیدنِ تو بیزار است
دُوُم آن کس که دیدنِ او نیست
دل‌پسندِ تو لیک ناچار است
(محمد فضولی بغدادی)
اے خِرَدمند! جان لو کہ تمہارے لیے دو اشخاص کے ساتھ اختلاط مشکل ہے: اوّل وہ شخص کہ جو تمہارا طالب نہیں ہے، اور جو تم سے اور تمہاری دید سے بیزار ہے۔ دُوُم وہ شخص کہ جس کی دید تمہیں پسند نہیں لیکن ناگُزیر ہے۔
واہ!! بہت عمدہ!!
 

لاریب مرزا

محفلین
محمد فضولی بغدادی کے ایک فارسی قصیدے کا مطلع:
بر آنم که از دل‌بران برکَنَم دل
نه سهل است کاری چنین، ربِّ سهِّل
(محمد فضولی بغدادی)

میرا ارادہ ہے کہ میں دلبروں سے [اپنے] دل کا تعلق قطع کر دوں۔۔۔ [لیکن] اِس طرح کا کوئی کام آسان نہیں ہے۔ اے میرے رب! [اِسے] آسان کر دے۔
خوب!!
 

حسان خان

لائبریرین
آنچه بر لوحِ قضا منشیِ تقدیر نوشت
عاشقانت ز رُخ و زلف و جبین می‌خوانند
(سید عمادالدین نسیمی)

مُنشیِ تقدیر نے لوحِ قضا پر جو کچھ لکھا ہے اُسے تمہارے عاشقاں [تمہارے] رُخ و زلف و جبین سے خوانتے ہیں۔
× خواننا (بر وزنِ 'جاننا') = پڑھنا
 

حسان خان

لائبریرین
از آن قصر گورِ کُهن بهتر است
که در اختیارِ کسِ دیگر است
به زندانِ تاریک بُردن به سر
به از شهرِ محکومِ قومِ دگر
دلا گر به طبعِ تو غیرت بُوَد
نباید اطاعت به غیرت بُوَد
خلیل است خوش‌تر از آن دار، دار
که باشد اجانِب در آن حکم‌دار
(ابراهیم خلیل)
اُس قصر سے کُہنہ قبر بہتر ہے جو کسی دیگر کے اختیار میں ہو۔
تاریکِ زندان میں زندگی بسر کرنا کسی دیگر قوم کے زیر حکومت شہر [میں زندگی بسر کرنے] سے بہتر ہے۔
اے دل! اگر تمہاری فطرت میں غیرت ہو تو تمہیں غیر کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔
اے خلیل! اُس دار (گھر) سے دار (سُولی) خوب تر ہے کہ جس میں اجنبی افراد حاکم ہوں۔
× قصر = محل

× شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 
آخری تدوین:
Top