محمد وارث

لائبریرین
طمعِ وصال، گفتی، کہ بہ کیشِ ما حرام است
تو بگو کہ خونِ عاشق، بہ کدام دیں حلال است


شیخ بہائی

تُو نے کہا کہ وصال کی طمع رکھنا ہمارے مذہب اور روش میں حرام ہے، (ٹھیک ہے لیکن) یہ بھی کہہ کہ عاشق کا خون کرنا کون سے مذہب میں حلال ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
آوایِ روان‌بخشِ دری هر شب و هر روز
از هر در و هر کویِ بخارا به من آید
(توخته‌میش توخته‌یف 'پیمان')

شہرِ بخارا کے ہر در و ہر کوچے سے ہر شب و روز زبانِ فارسی کی روح بخش آواز میری جانب آتی ہے۔

× شاعر کا تعلق ازبکستان سے ہے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
آوایِ روان‌بخشِ دری هر شب و هر روز
از هر در و هر کویِ بخارا به من آید
(توخته‌میش توخته‌یف 'پیمان')

شہرِ بخارا کے ہر در و ہر کوچے سے ہر شب و روز زبانِ فارسی کی روح بخش آواز میری جانب آتی ہے۔

× شاعر کا تعلق ازبکستان سے ہے۔
واہ
 

حسان خان

لائبریرین
رازِ دل می‌گفتم، ار یک محرمی می‌داشتم
شکوه‌ها می‌کردم از غم، هم‌دمی می‌داشتم
(صدرالدین عینی)

میں رازِ دل کہتا اگر میرے پاس کوئی مَحرَم ہوتا؛ میں غم کے بارے میں شکایتیں کرتا اگر میرے پاس کوئی ہمدم ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بیر پری سلسلهٔ عشقینه دۆشدۆم ناگه
شیمدی بیلدیم سببِ خلقتِ آدم نه ایمیش
(محمد فضولی بغدادی)

میں ایک پری کی زنجیرِ عشق میں ناگاہ گرفتار ہو گیا؛ اب مجھے معلوم ہوا کہ آدم کی تخلیق کا سبب کیا تھا۔

Bir pəri silsileyi-eşqinə düşdüm nagəh
Şimdi bildim səbəbi-xilqəti-adəm nə imiş


× ایک جا مصرعِ اول کا متن یہ نظر آیا ہے:
"بیر پری سلسلهٔ زلفۆنه دۆشدۆم ناگه"
میں ایک پری کی زنجیرِ زلف میں ناگاہ گرفتار ہو گیا
کسی شاعر نے محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:
ناگهان بندیِ زنجیرِ نگاری شده‌ام
حال دانم سببِ خلقتِ آدم چه بُوَد

میں ناگہاں ایک نگار کی زنجیر کا اسیر ہو گیا ہوں؛ حالا میں جان گیا ہوں کہ تخلیقِ آدم کا سبب کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فضولی صفحهٔ جان را ز عکسِ دانهٔ خالش
چُنان پُر کن که مُطلق جا نمانَد داغِ هجران را
(محمد فضولی بغدادی)

اے فضولی! [اپنے] صفحۂ جاں کو اُس کے دانۂ خال کے عکس سے اِس طرح پُر کر لو کہ داغِ ہجراں کے لیے بالکل جگہ نہ بچے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ایں جہاں با تو خوش است و آں جہاں با تو خوش است
ایں جہاں بے من مباش و آں جہاں بے من مرو


مولانا رُومی

یہ جہاں بھی تیرے ساتھ اچھا ہے اور وہ جہاں بھی تیرے ساتھ اچھا ہے، لہذا ِس جہاں میں میرے بغیر مت رہ اور اُس جہاں میں میرے بغیر مت جا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شمعی از وحشت‌نگاهی انجمن گم‌کرده‌ام
بلبلی از پرفشانی‌ها چمن گم‌کرده‌ام
(بیدل دهلوی)
میں ایک شمع ہوں جو وحشت نگاہی سے انجمن گم کر چکی ہے؛ میں ایک بلبل ہوں جو پر فِشانیوں سے چمن گم کر چکا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
همچو اسماعیل نامش تا ابد پاینده باد
هر سر از شوق و شعف قربانِ آن دل‌بر شود
(قاری مسیحا تمهید سمرقندی)

جو سر بھی شوق و شَعَف سے اُس دلبر پر قربان ہوتا ہے، اُس کا نام اسماعیل (ع) کی طرح تا ابد پائندہ ہو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عاشقان را کَی بُوَد غیر از غمِ عشقش غمی
گر قیامت خیزد و گر شورشِ محشر شود
(قاری مسیحا تمهید سمرقندی)
خواہ قیامت برپا ہو جائے یا خواہ شورشِ محشر واقع ہو جائے، عاشقوں کو اُس کے غمِ عشق کے سوا کوئی غم کب ہو گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
فرزندِ کاف و نون‌اند افرادِ کاینات
احمد میانِ ایشان فرزندِ امجد است
(عبدالرحمٰن جامی)

افرادِ کائنات کاف و نون (کُن) کے فرزند ہیں، [اور] احمد (ص) اُن کے درمیان فرزندِ امجد ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
آن را که بر سر افسرِ اقبالِ سرمد است
سر در رهِ محمد و آلِ محمد است
(عبدالرحمٰن جامی)

جس شخص کے سر پر ابدی خوش بختی کا تاج ہوتا ہے، اُس کا سر محمد و آلِ محمد کی راہ میں ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در رهِ عشق فضولی چه غم از کج‌نظران
می‌رسد راست‌روان را مدد از جانبِ حق
(محمد فضولی بغدادی)

اے فضولی! راہِ عشق میں کج نظر افراد سے کیا غم؟ راہِ راست پر چلنے والوں کو حق تعالیٰ کی جانب سے مدد پہنچتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قلم کی محرم و قاصد کجا دردِ سخن دارد
چرا احوالِ ما را از زبانِ خود نمی پُرسی


شیخ علی حزیں لاھیجی

قلم (یعنی تحریر) کب (ہمارے درد کا) محرم ہے اور قاصد کہاں وہ درد بیان کر سکتا ہے جو کہ باتوں میں ہوتا ہے، تُو کیوں ہمارا حال اپنی زبان سے (رو برو ہو کر) نہیں پوچھتا؟
 

لاریب مرزا

محفلین
قلم کی محرم و قاصد کجا دردِ سخن دارد
چرا احوالِ ما را از زبانِ خود نمی پُرسی


شیخ علی حزیں لاھیجی

قلم (یعنی تحریر) کب (ہمارے درد کا) محرم ہے اور قاصد کہاں وہ درد بیان کر سکتا ہے جو کہ باتوں میں ہوتا ہے، تُو کیوں ہمارا حال اپنی زبان سے (رو برو ہو کر) نہیں پوچھتا؟
قلم کی محرم و قاصد کجا دردِ سخن دارد
چرا احوالِ ما را از زبانِ خود نمی پُرسی

واہ!! کیا بات ہے!!
 

صائمہ شاہ

محفلین
رباعی

اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرفِ معمّا نہ تو خوانی و نہ من
ھست از پسِ پردہ گفتگوئے من و تو
چوں پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من


(عمر خیام)

اسرارِ ازل نہ تو جانتا ہے اور نہ میں، یہ حروفِ معما نہ تو نے پڑھے ہیں اور نہ میں نے، میری اور تیری گفتگو تو بس پردے کے پیچھے سے ہے، جب پردہ گرے گا (اٹھے گا) تو نہ تو رہے گا اور نہ میں۔

یہ عمر خیام نیشاپوری کی مشہور رباعی ہے لیکن اس رباعی کا دوسرا مصرع مختلف طریقوں سے ملتا ہے جیسے:

ویں خطِّ مُقرمط نہ تو ذانی و نہ من (اس قرارگاہ کے کچھے ہوئے خط/لکیروں کو نہ تو جانتا ہے اور نہ میں) اور اسطرح سے بھی
ویں خطِّ مقرمط نہ تو خوانی و نہ من

لیکن میں نے اوپر رباعی میں وہی مصرع لکھا ہے جو زیادہ مشہور ہے۔
واہ
جب پردہ گرے گا ، تو نہ تو رہے گا نہ میں ۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
عزتِ شاه و گدا زیرِ زمین یکسان است
می‌کند خاک برایِ همه کس جا خالی
(غنی کشمیری)

شاہ و گدا کی عزّت زیرِ زمیں یکساں ہے؛ خاک ہر شخص کے لیے جا خالی کر دیتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو پادشاهِ کِشوَرِ حُسنی، ولی چه سود؟
رحمی به حالِ هیچ گدایی نمی‌کنی
(محمد فضولی بغدادی)
تم مملکتِ حُسن کے پادشاہ ہو، لیکن کیا فائدہ؟ کہ تم کسی بھی گدا کے حال پر ذرا رحم نہیں کرتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ساقی به رویِ من درِ میخانه باز کن
از درس و بحث و زهد و ریا بی‌نیاز کن
(روح‌الله خُمینی)

اے ساقی! میرے چہرے پر درِ میخانہ وا کرو اور [مجھے] درس و بحث و زُہد و ریا سے بے نیاز کر دو۔
 
آخری تدوین:
زان می که خورد حلاج گر هر کسی بخوردی
بر دار صد هزاران برنا و پیر بودی
(عطار نیشاپوری)

وہ شراب، جو منصور نے نوش کی، اگر ہر کوئی نوش کرتا تو بر سرِ دار لاکھوں پیر و جوان لٹکائے جاتے۔
 
Top