واہآوایِ روانبخشِ دری هر شب و هر روز
از هر در و هر کویِ بخارا به من آید
(توختهمیش توختهیف 'پیمان')
شہرِ بخارا کے ہر در و ہر کوچے سے ہر شب و روز زبانِ فارسی کی روح بخش آواز میری جانب آتی ہے۔
× شاعر کا تعلق ازبکستان سے ہے۔
کسی شاعر نے محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:بیر پری سلسلهٔ عشقینه دۆشدۆم ناگه
شیمدی بیلدیم سببِ خلقتِ آدم نه ایمیش
(محمد فضولی بغدادی)
میں ایک پری کی زنجیرِ عشق میں ناگاہ گرفتار ہو گیا؛ اب مجھے معلوم ہوا کہ آدم کی تخلیق کا سبب کیا تھا۔
Bir pəri silsileyi-eşqinə düşdüm nagəh
Şimdi bildim səbəbi-xilqəti-adəm nə imiş
× ایک جا مصرعِ اول کا متن یہ نظر آیا ہے:
"بیر پری سلسلهٔ زلفۆنه دۆشدۆم ناگه"
میں ایک پری کی زنجیرِ زلف میں ناگاہ گرفتار ہو گیا
قلم کی محرم و قاصد کجا دردِ سخن داردقلم کی محرم و قاصد کجا دردِ سخن دارد
چرا احوالِ ما را از زبانِ خود نمی پُرسی
شیخ علی حزیں لاھیجی
قلم (یعنی تحریر) کب (ہمارے درد کا) محرم ہے اور قاصد کہاں وہ درد بیان کر سکتا ہے جو کہ باتوں میں ہوتا ہے، تُو کیوں ہمارا حال اپنی زبان سے (رو برو ہو کر) نہیں پوچھتا؟
واہرباعی
اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرفِ معمّا نہ تو خوانی و نہ من
ھست از پسِ پردہ گفتگوئے من و تو
چوں پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من
(عمر خیام)
اسرارِ ازل نہ تو جانتا ہے اور نہ میں، یہ حروفِ معما نہ تو نے پڑھے ہیں اور نہ میں نے، میری اور تیری گفتگو تو بس پردے کے پیچھے سے ہے، جب پردہ گرے گا (اٹھے گا) تو نہ تو رہے گا اور نہ میں۔
یہ عمر خیام نیشاپوری کی مشہور رباعی ہے لیکن اس رباعی کا دوسرا مصرع مختلف طریقوں سے ملتا ہے جیسے:
ویں خطِّ مُقرمط نہ تو ذانی و نہ من (اس قرارگاہ کے کچھے ہوئے خط/لکیروں کو نہ تو جانتا ہے اور نہ میں) اور اسطرح سے بھی
ویں خطِّ مقرمط نہ تو خوانی و نہ من
لیکن میں نے اوپر رباعی میں وہی مصرع لکھا ہے جو زیادہ مشہور ہے۔