حسان خان

لائبریرین
تا مرا حلقهٔ گیسویِ بُتان یاد آید
مُرغِ دل در قفسِ سینه به فریاد آید
(تیمور شاه دُرّانی)

جیسے ہی مجھے بُتوں کا حلقۂ گیسو یاد آتا ہے، قفسِ سینہ میں پرندۂ دل فریاد کرنے لگتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نامِ آں اشک نہادیم و فگندیم بخاک
اگر اے بحرِ محبت گہرے بود ترا


ابوالحسن ورزی

ہم نے اُس (گوہر) کا نام اشک رکھا اور اُسے خاک میں ملا دیا، اے بحرِ محبت اگر تیرا کوئی گوہر تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاهدِ حُسن است در هر جا به رنگی جلوه‌گر
عارفی کز جلوه‌هایِ او خبر دارد کجاست
(محمد فضولی بغدادی)

معشوقِ حُسن ہر جا کسی رنگ میں جلوہ گر ہے۔۔۔ [لیکن] ایسا عارف کہاں ہے جو اُس کے جلووں کی خبر رکھتا ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
باعثِ شدّتِ دیوانگیِ من گردد
چون مرا طُرّهٔ مُشکینِ تو در یاد آید
(تیمور شاه دُرّانی)
جب مجھے تمہاری پیشانی کی مُشک آلود زُلف یاد آتی ہے تو وہ میری دیوانگی کی شدّت کا باعث بن جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به درگاهت ز سوزِ دل شهِ تیمور می‌نالد
که یا رب مهربان گردان مهِ نامهربانم را
(تیمور شاه دُرّانی)

یا رب! تمہاری درگاہ میں تیمور شاہ سوزِ دل کے ساتھ نالہ کر رہا ہے کہ میرے ماہِ نامہربان کو مہربان بنا دو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بداماں خونِ دل از دیدہ افشاندن کجا داند
بساغر آنکہ می ریزد شرابِ ارغوانی را


حبیب افغانی

آنکھوں کے راستے سے (اپنے) دامن میں خونِ دل چھڑکنا کیا جانے وہ کہ جو ساغر میں سرخ شراب انڈیلتا ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
گر شود مجنون به نزدِ ما ندارد اعتبار
چهرهٔ عاشق اگر در عشقِ خوبان زرد نیست

(تیمور شاه دُرّانی)
اگر عاشق کا چہرہ عشقِ خوباں میں زرد نہیں ہے، تو اگر وہ مجنون [بھی] ہو جائے، تو بھی ہمارے نزدیک اُس کی آبرو نہیں ہے۔
خوب!!
 

محمد وارث

لائبریرین
من و ہمچوں غبار از ناتوانی رہ نشیں کشتن
تو و ہمچوں صبا بر خاکِ من دامن کشیدن ہا


رھی معیری

میں اورغبار کی طرح ناتوانی سے راہوں میں پڑے پڑے ہی مارا جانا، تُو اور صبا کی طرح میری خاک سے دامن بچا کر گزر جانا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نی سیم و زر نه کاخ و نه ایوانم آرزوست
دیدن دوباره خطّهٔ طهرانم آرزوست
(حکیم صبوری)

نہ مجھے سِیم و زر اور نہ کاخ و ایوان کی آرزو ہے، [بلکہ] مجھے تو خطّۂ تہران کو دوبارہ دیکھنے کی آرزو ہے۔
× کاخ = محل
 

حسان خان

لائبریرین
مَی‌کَشانِ بزمِ او را حاجتِ میخانه نیست
کرده مست از یک نظر آن نرگسِ شَهلا مرا
(تیمور شاه دُرّانی)
اُس کی بزم کے مَے کَشوں کو میخانے کی حاجت نہیں ہے؛ اُس نرگسِ شہلا [جیسی چشم] نے ایک نظر سے مجھے مست کر دیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

رفتم بہ طبیب و گفتم از دردِ نہاں
گفتا، از غیرِ دوست بر بند زباں
گفتم کہ غذا؟ گفت ہمیں خونِ جگر
گفتم پرہیز؟ گفت از ہر دو جہاں


میں طبیب کے پاس گیا اور اُس کو اپنے دردِ نہاں کے متعلق بتایا، اُس نے کہا کہ دوست کے علاوہ ہر کسی کے سامنے اپنے زبان بند رکھ۔ میں نے پوچھا، غذا کون سی استعمال کروں؟ اُس نے کہا یہی خونِ جگر۔ میں نے پوچھا کہ پرہیز کیا کروں؟ اُس نے کہا ہر دو جہاں سے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
تا بر دلم ابوابِ معانی شد باز
مکشوف شدم حقیقت از لِبسِ مجاز
برخاست مرا حُجُب ز پیشِ دیده
معشوقِ ازل جلوه‌گری کرد آغاز
(مظفّر علی شاه کرمانی)
جیسے ہی میرے دل پر ابوابِ معانی وا ہوئے؛ لباسِ مجاز میں سے مجھ پر حقیقت مکشوف ہو گئی؛ میرے دیدے کے پیش سے پردے اُٹھ گئے؛ [اور] معشوقِ ازلی نے جلوہ گری آغاز کر دی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پیری آں نیست کہ برسر بزند موئے سفید
ہر جوانے کہ بہ دل عشق ندارد، پیر است


شاعر: نا معلوم

بُڑھاپا یہ نہیں ہے کہ کسی کے سر میں سفید بال آ جائیں، بلکہ ہر وہ جوان کہ جس کے دل میں عشق نہیں ہے، وہ بُوڑھا ہی ہے۔
 
پیری آں نیست کہ برسر بزند موئے سفید
ہر جوانے کہ بہ دل عشق ندارد، پیر است


شاعر: نا معلوم

بُڑھاپا یہ نہیں ہے کہ کسی کے سر میں سفید بال آ جائیں، بلکہ ہر وہ جوان کہ جس کے دل میں عشق نہیں ہے، وہ بُوڑھا ہی ہے۔
واہ بہت خوب
 

حسان خان

لائبریرین
نتواند که کند شرحِ دلِ سختِ تُرا
بهرِ کاتب که اگر خامهٔ فولاد آید
(تیمور شاه دُرّانی)

اگر کاتب کے لیے فولادی قلم آ جائے تو بھی وہ تمہارے دلِ سخت کی شرح نہیں لکھ سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
در بساطِ آفرینش جا به جا گردیده‌ام
ره‌زنِ ایمانِ مردُم چشمِ جادویِ تو بود
(تیمور شاه دُرّانی)

میں آفرینش کی بِساط پر جا بجا گھوما پھرا ہوں، [اور میں نے پایا ہے کہ] مردُم کے ایمان کی رہزن تمہاری چشمِ جادوگر تھی۔
 

لاریب مرزا

محفلین
پیری آں نیست کہ برسر بزند موئے سفید
ہر جوانے کہ بہ دل عشق ندارد، پیر است


شاعر: نا معلوم

بُڑھاپا یہ نہیں ہے کہ کسی کے سر میں سفید بال آ جائیں، بلکہ ہر وہ جوان کہ جس کے دل میں عشق نہیں ہے، وہ بُوڑھا ہی ہے۔
یہ تو الٹ بات نہیں کر دی شاعر نے؟؟ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ فخرالدین عراقی

شوقے، کہ چو گُل دل شکفاند، عشق است
ذہنے، کہ رموزِ عشق داند، عشق است
مہرے، کہ تو را از تو رہاند، عشق است
لُطفے، کہ تو را بدو رساند، عشق است


وہ شوق کہ جو پُھول کی طرح دل کو شق کر دے اور کِھلا دے، وہ عشق ہے۔ وہ عقل و ہوش کہ جو عشق کے رموز جانے، وہ عشق ہے۔ وہ محبت کہ جو تجھے تجھ سے ہی رہائی دلا دے، وہ عشق ہے اور وہ لطف کہ جو تجھے اُس تک پہنچا دے، وہ عشق ہے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
پیری آں نیست کہ برسر بزند موئے سفید
ہر جوانے کہ بہ دل عشق ندارد، پیر است


شاعر: نا معلوم

بُڑھاپا یہ نہیں ہے کہ کسی کے سر میں سفید بال آ جائیں، بلکہ ہر وہ جوان کہ جس کے دل میں عشق نہیں ہے، وہ بُوڑھا ہی ہے۔
بدقسمت ہیں وہ لوگ جو عقل و دانش تو رکھتے ہیں مگر عشق کی استطاعت نہیں رکھتے ۔
 
Top