چنان با نیک و بد عرفی، به سر بر کز پس مردن
مسلمانت به زمزم شوید و هندو بسوزاند
(عرفی شیرازی)

اے عرفی نیک و بد کے ساتھ ایسے زندگی بسر کرو کہ (تیرے) مرنے کے بعد (تیری ساتھ دل بستگی کا یہ عالم ہو کہ تیری نعش کو) مسلمان آبِ زمزم سے دھوئیں اور ہندو تمہیں (اپنی رسم کے مطابق شوقِ عقیدت سے ) سوختہ کریں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک دوست نے ان اشعار کے درست ترجمے کی درخواست کی ہے۔۔اما میرا سوال یہ ہے کہ مولانا کی اس غزل کی بحر تو مفاعیلن مفاعیلن فعولن ہے، لیکن پہلے مصرعے میں واژہ "عید" میں "عی" کو کیسے ہجائے کوتاہ تصور کیا گیا ہے؟ میں نے ایک جگہ خوانا ہے کہ اگر حرفِ علت لفظ کے آخری حرف کے بعد آئے تو دراں صورت اسے ہجائے کوتاہ تصور کیا جاتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قافیہ کے آخری حرف پر اضافت ہے یا نہیں؟
مجھے اس کا درست انداز اور درست مفہوم ایسے لگ رہا ہے

‎ز روی تست عیدِ آثار ما را ‎
بیا ای عید و عیدی آر ما را
‎تو جانِ عید و از روی تو جانا
‎هزاران عید در اسرار ما را
(مولوی رومی)

تیرے چہرے سے ہم پر عید کے اثرات ہیں۔اے عید! آجا اور ہمارے لئے عیدی لا۔تو عید کی جان ہے اور اے جان تیرے چہرے (کی وجہ) سے ہزاروں عید ہمارے لئے پوشیدہ ہیں۔
پہلے مصرعے میں عید کو اضافت کے ساتھ پڑنے سے وزن خراب ہوگا، تقطیع یوں ہے

ز روے تس - مفاعیلن
ت عی دا ثا - مفاعیلن
ر ما را - فعولن

یہاں عید اور آثار کے دوران الف کا اسقاط یا وصل ہوا ہے۔ آ میں دو الف سمجھے جاتے ہیں اور اسقاط کی صورت میں ایک رہ گیا جو عید کی دال سے وصل کر کے ہجائے بلند بن گیا۔ قافیے میں بھی اضافت نہیں ہے۔
 
آیینه‌های روشن، گوش و زبان نخواهند
از راهِ چشم باشد، گفت و شنود ما را
(صایب تبریزی)

روشن آئینے گوش و زبان نہیں چاہتے ہیں۔ہماری گفت و شنید چشم کی راہ سے ہوتی ہے۔
 
نثارِ بوسه‌ی او نقدِ جان چرا نکنم؟
که تا رسیده به لب، جان به لب رسیده مرا
(صایب تبریزی)

اپنی نقدِ جاں کو اس کے بوسے پر فدا کیوں نہ کروں، کہ جب تک (اس کا بوسہ میرے) لب تک پہنچے گا، میری جان لب تک پہنچی ہوگی۔
 
دنبالِ تو بودن گنه از جانبِ ما نیست
با غمزه بگو تا دلِ مردم نستاند
(سعدی شیرازی)

تیرے تعاقب میں لگے رہنا ہمارا گناہ نہیں ہے۔اپنے ناز (اور ابروؤں کے کرشموں) سے کہو کہ وہ لوگوں کا دل نہ لےجائے (اپنا عاشق نہ بنائے)۔

چون چشمِ تو دل می‌برد از گوشه نشینان
همراهِ تو بودن گنه از جانبِ ما نیست
(حافظ شیرازی)

جبکہ تیری چشم گوشہ نشینوں کا دل لے جاتی ہے، تیرے تعاقب میں لگے رہنا ہمارا گناہ نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر پندِ خردمندان به شیرینی نیاموزی
فلک آن پند را روزی، به تلخی‌ات بیاموزد
(نامعلوم)

اگر تو داناؤں کے اندرز کو شیرینی(آمادگی) سے نہیں سیکھتا ہے تو آسمان تجھے وہی اندرز ایک روز تلخی سے سمجھادے گی۔
'سمجها دے گی' نہیں، بلکہ 'سمجھا دے گا' ہونا چاہیے۔ اردو میں اِس فعل کی مطابقت 'آسمان' کے ساتھ ہونی چاہیے، جو مذکّر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شما را اسبِ تازی باد بی‌حد
بُراقِ احمدِ مختار ما را
(مولانا جلال‌الدین رومی)
آپ کے لیے عربی اسپ بے شمار ہوں۔۔۔ ہم کو تو احمدِ مُختار (ص) کا بُراق [چاہیے]۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شما را سیم و زر بادا فراوان
جمالِ خالقِ جبّار ما را
(مولانا جلال‌الدین رومی)

آپ کے لیے سیم و زر فراواں ہو۔۔۔ ہم کو تو خالقِ جبّار کا جمال [چاہیے]۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر عالَم همه عید است و عشرت
برو عالَم شما را یار ما را
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اگر دنیا تماماً عید و عشرت ہے، تو جاؤ دنیا آپ کے لیے، [اور فقط] یار ہمارے لیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
امروز توبه بِشْکنم، پرهیز را برهم زنم
کآن یوسفِ کنعانِ من از شهرِ کنعان می‌رسد
(مولانا جلال‌الدین رومی)

میں اِمروز توبہ توڑ دوں گا [اور] پرہیز کو درہم برہم کر دوں گا؛ کہ میرا وہ یوسفِ کنعان شہرِ کنعان سے پہنچ رہا ہے۔
 
هر آنکس که در جانش بغضِ علی‌ست
ازو زارتر در جهان زار کیست
(ابوالقاسم فردوسی طوسی)

جس کسی کی جان (یا روح) میں حضرت علیؑ کا بغض ہو اس سے زیادہ پریشان حال دنیا میں کون ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تشنیع می‌زنی که جفا کرد آن نگار
خوبی که دید در دو جهان کو جفا نکرد
(مولانا جلال‌الدین رومی)

تم طعنہ مارتے ہو کہ اُس محبوب نے جفا کی۔۔۔ دو جہاں میں ایسا حَسین کس نے دیکھا ہے کہ جس نے جفا نہ کی ہو؟
 

حسان خان

لائبریرین
عنوان، بسی بلند است معراجِ فکرِ صائب
کَی می‌توان رسیدن جایی که او رسیده
(عنوان تبریزی)

اے عُنوان! صائب تبریزی کی فکر کی معراج بِسیار بلند ہے؛ اُس جگہ کب پہنچا جا سکتا ہے جہاں وہ پہنچا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
در طریقِ شاعری سبکِ جدید آغاز کن
چشمِ اِخوانِ وطن از خوابِ غفلت باز کن
(میر غلام حضرت شایق جمال)

راہِ شاعری میں جدید اُسلوب کا آغاز کرو؛ چشمِ برادرانِ وطن کو خوابِ غفلت سے بیدار کرو۔
× شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اشتراکی دورِ حکومت میں افغان شعراء کے قلم سے ایسی شاعری نکلتی تھی:
"زمین را نیز همچون دلبرانم دوست می‌دارم،

و هر کس را که همچون کارگر، دهقان
کند با دستِ پُر از آبله زیبا و آبادش،
کند با اشکِ پیشانیِ خود سرسبز و شادابش."
(صالح محمد خالق)
"میں زمین کو بھی اپنے دلبروں کی طرح دوست رکھتا ہوں،
اور ہر اُس شخص کو جو مزدور و دہقان کی مانند
[اپنے] پُرآبلہ دست سے اُسے زیبا و آباد کرتا ہے،
[اور] اپنی پیشانی کے اشک سے اُسے سرسبز و شاداب کرتا ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ما بِنایِ بَردَگی از بیخ ویران می‌کنیم
کاخِ اِستِثمار را با خاک یکسان می‌کنیم
(فضلِ حق فکرت)
ہم غلامی کی عمارت کو بیخ سے ویراں کر دیں گے؛ ہم استثمار و استحصال کے محل کو خاک کے ساتھ یکساں کر دیں گے۔
× بیخ = جڑ

× شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شعر کز سوزِ دل بُوَد عاری
نیست جز دفترِ سیه‌کاری
(خلیل‌الله خلیلی)
جو شاعری سوزِ دل سے عاری ہو، وہ دفترِ سیاہ کاری کے بجز کچھ نہیں ہے۔
× دفتر = ڈائری
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میانِ سینهٔ سوزان به غیرِ آه ندارم
چو شمعِ مرده امیدی به صبح‌گاه ندارم
(خلیل‌الله خلیلی)

[میرے] سینۂ سوزاں کے اندر بجز آہ نہیں ہے؛ شمعِ مردہ کی طرح مجھے وقتِ صبح کی کوئی امید نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
افغان شاعر خلیل اللہ خلیلی ایک مصرع میں کہتے ہیں:
"دین و آزادی‌ست در ذرّاتِ خونِ ما نهان"
(خلیل‌الله خلیلی)

"دین و آزادی ہمارے خون کے ذرّات میں نہاں ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
ما دشمنِ خودیم بر اختر چه تهمت است
ما شکوه کم کنیم که از ما به ما رسید
(غلام قادر گرامی)
ہم [ہی] خود کے دشمن ہیں، ستارے پر کیا تہمت لگائی جائے؟۔۔۔ ہم شکایت کم کرتے ہیں، کیونکہ ہم پر آنے والی [آفت و بلا] ہماری [ہی] جانب سے پہنچی ہے۔
 
Top