یہ مسدّس حافظ شیرازی کا قطعاً نہیں ہے۔امامِ ہشتم حضرت علی رضا علیہ سلام کے بارے میں حافظ شیرازی کی مسدس کا پہلا بند:۔
ای حریمِ بارگاهت، کعبهِ عز و علا
نورِ چشمِ مصطفی یعنی علی موسی رضا
ماهِ گردونِ ولایت، شمعِ جمعِ اصطفا
میوهِ بستانِ جنت، بلبلِ نیکو سرا
دایما از غیب میآید بگوشم این ندا
کالسلام ای حضرتِ شاهِ خراسان السلام
(حافظ شیرازی)
اے وہ کہ تیری بارگاہ کا حرم عزت اور بلندی کا کعبہ ہے
مصطفےٰ کی آنکھوں کا نور یعنے علی موسیٰ رضا
ولایت کے آسمان کا چاند،برگزیدہ جماعت کی شمع
جنت کے باغ کا میوہ، عمدہ گانے والی بلبل
ہمیشہ غیب سے میرے کان میں یہ آواز آتی ہے
کہ السلام، اے حضرتِ شاہِ خراساں السلام
مترجم: قاضی سجاد حسین
برادرم حسان خان، کیا موجودہ دور کی تحقیق سے پہلے حافظ شیرازی، شیخ سعدی وغیرہم سے یہی منسوب اشعار اور شاعری ایران میں بھی رائج تھیں یا یہ خالص ہندوستانی اختراعات ہیں؟یہ مسدّس حافظ شیرازی کا قطعاً نہیں ہے۔
حافظ شیرازی سے منسوب ایسے اکثر الحاقی اشعار برِّ صغیری نسخوں اور کتابوں میں پائے جاتے ہیں، لیکن چند نادرست انتسابات ایران میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً، بعض ایرانی ویب گاہوں پر مندرجۂ ذیل منقبت حافظ شیرازی کے نام سے درج مِلتی ہے:برادرم حسان خان، کیا موجودہ دور کی تحقیق سے پہلے حافظ شیرازی، شیخ سعدی وغیرہم سے یہی منسوب اشعار اور شاعری ایران میں بھی رائج تھیں یا یہ خالص ہندوستانی اختراعات ہیں؟
واہ واہراہ سخت و شیشہء عمرِ گرامی نازک است
صحبتِ مینا و خارا تا کجا خواہد گذشت
چندر بھان برہمن
زندگی کی راہ سخت پتھریلی ہے اور عمرِ عزیز کا شیشہ نازک ہے، مینا (شیشے) اور سخت پتھر کی صحبت آخر کہاں تک بھی جائے گی؟
واہ واہ!! کیا کہنے!! کیا خوبصورت شعر ہے۔ آج کے دن کی سب سے خوبصورت بات!!رُباعی از مُلا مُظفر حُسین
زاہد بہ کرم تُرا چو ما نشناسد
بیگانہ ترا چو آشنا نشناسد
گفتی کہ گنہ مکن کہ من قہارم
ایں را بہ کسے گو کہ ترا نشناسد
زاہد، تجھے اُس طرح نہیں جانتا جس طرح ہم تجھے تیرے لطف و کرم سے جانتے ہیں، اور کوئی بیگانہ تجھے اُس طرح نہیں جانتا جس طرح آشنا جانتا ہے۔ تُو نے کہا کہ گناہ مت کر کہ میں قہار ہوں، (اے خدا) یہ اُس سے کہہ کہ جو تجھے (اور تیرے فضل و لطف و کرم کو) نہیں جانتا۔
کمال سر جی واہ واہسوزندہ تر از آتشِ دوزخ شدہ آہم
ایں شعلہ مگر عادتِ خوئے تو گرفتہ است
میر جعفر مشہدی
میری آہ، آتشِ دوزخ سے بھی زیادہ جلانے والے ہو گئی ہے، اِس شعلے (میری آہ) نے بھی شاید تمھاری خو کی عادت اپنا لی ہے۔
خوبصورت جینکنم ترکِ صفایِ حرمِ میکدهها
منزلم گر طرفِ باغِ جِنان خواهد بود
(شوقی ادِرنهلی)
اگر میری منزل گوشۂ باغِ جنّت ہو گی [تو بھی] میں میکدوں کے حرم کی پاکیزگی کو ترک نہ کروں گا۔
× شاعر کا تعلق سلطنتِ عثمانیہ سے تھا۔