روز دیگر اور شب دیگر سے کیا مراد ہے یہاں ؟(رباعی)
در عشقِ تو نه سیم و نه زر میباید
اینجا لبِ خشک و چشمِ تر میباید
با این شب و روز کامِ دل نتْوان یافت
روزِ دگر و شبِ دگر میباید
(رشید کاشانی)
تمہارے عشق میں نہ سِیم اور نہ زر لازم ہیں؛ [بلکہ] یہاں تو لبِ خشک و چشمِ تر لازم ہیں؛ اِن شب و روز کے ساتھ دل کی مراد حاصل نہیں کی جا سکتی؛ [کوئی] روزِ دیگر اور [کوئی] شبِ دیگر لازم ہیں۔
شکریہجو شب و روز اہلِ دل پر گزرتے ہیں وہ محرومِ عشق کے شب و روز سے یکسر متفاوت ہوتے ہیں ، یہی مراد ہیں یہاں ، اور کچھ نہیں ۔
جیسا کہ کہا گیا کہ ۔
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا۔کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا۔
سنگ و خشت سے بنے جہاں اور عشق کے جہاں کا تفاوت بھی وہی ہے جو یہاں کاشانی نے ذکر کیا ۔ واللہ اعلم
یہ بیتِ ملمّع نوائی کی بجائے جامی سے منسوب کی گئی ہے، لیکن مجھے یہ بیت جامی کے دیوان میں نظر نہیں آئی تھی۔برادرِ عزیزم حسان خان سے درخواست ہے کہ اس ملمع شعرِ فارسی و ترکی کا ترجمہ پیش کردیں:۔
ای لبت پر خنده و چشمِ سیاهت مستِ خواب
ایککی زلفینگ آره سیده آی یوزینگ دور آفتاب
(امیر علی شیر نوایی)
یہ مقالہ بھی دیکھیے:یہ سہ بیتی بند سعدی شیرازی کی "مثلثات" میں موجود ہیں۔ان میں اولیں بیت عربی میں، دوئمین بیت فارسی میں اور سوئمین بیت شیرازی لہجے میں ہے۔عربی اور شیرازی بیت کا ترجمہ منوچہر دانش پژوہ کے مقالے
ملمات و مثلثات یا اشعاردو زبانه و سه زبانه سے لیا گیا ہے
لیعف المهتدی عن سؤ من ضل
ولا یستهزکم من قائم زل
منم کافتادگان را بد نگفتم
که ترسیدم که روزی خود بیفتم
کمسسکی اوت اس بخت آو بهریت
مخن هر دم برای چنداکی بگریت
(سعدی شیرازی)
جو کوئی راہ یافتہ ہوا (ہدایت یافتہ ہوا) اسے چاہیے کہ وہ گمراہ کی بدی سے گریز کرے اور اس کا استہزاء نہ کرے، کیونکہ بسیار دانا ایسے ہیں جو لغزش کرکے غلط راہ پر گرگئے۔
میں ہوں کہ افتادگانِ (راہِ خطا) کی بدی نہیں کرتا کہ مجھے خوف ہوتا ہے ایک روز میں بھی نہ گِر جاؤں۔
جب مسکین گرگیا اور قسمت نے اس کی آبرو تباہ کردی، ہردم اس پر مت ہنس خواہ کتنا بھی وہ گریہ و زاری کرے،