واہ!! بہت خوب!!از بزرگِ بے ہنر، طفلِ ہنر ور بہتر است
سنگِ کوہستاں کجا ہمسنگِ قدرِ گوہر است
غلام علی مداح
بے ہنر بزرگ سے، ہنر مند بچہ بہتر ہے۔ (جیسے کہ) پہاڑوں کا (بڑا سا) پتھر قدر و قیمت میں (ایک چھوٹے سے) گوہر کے کہاں برابر ہوتا ہے۔
حُسین محمدزادہ صدیق نے صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:عاشقین گؤز یاشېنا رحم ائیلهمز اۏل آفتاب
آغلاماق ایله آپارماز اۏد الیندن جان، کباب
(صائب تبریزی)
وہ آفتاب (یعنی وہ مثلِ آفتاب معشوق) عاشق کے اشکوں پر رحم نہیں کرتا۔۔۔ گریہ کرنے سے کباب، آتش کے دست سے اپنی جان کو خلاصی نہیں دلا دیتا۔
(یعنی گریہ کرنے کے باوجود کباب آتش سے بچا نہیں رہ جاتا، کیونکہ آتش کو کباب کے اِس گریے پر رحم نہیں آتا اور بالآخر کباب کی 'جان' چلی جاتی ہے۔)
× آتش پر پکانے کے دوران کباب سے جو قطراتِ چربی خارج ہوتے ہیں اُنہیں مجازاً 'اشکِ کباب' کہا جاتا ہے۔
Aşiqin göz yaşına rǝhm eylǝmǝz ol afitab
Ağlamaq ilǝ aparmaz od ǝlindǝn can kǝbab
× چند ویب گاہوں اور نُسخوں میں 'آغلاماق' (گریستن/گریہ کرنا) کی بجائے 'یېغلېماق/yığlımaq' نظر آیا ہے، جو 'آغلاماق' ہی کی ایک قدیمی شکل ہے۔
ترجمہ درست ہے، لیکن میرا گمان ہے کہ مصرعِ ثانی میں 'خواستن' 'چاہنے' کے معنی میں نہیں، بلکہ زمانۂ مستقبل کا مفہوم دینے کے لیے بروئے کار لائے جانے والے کُمَکی فعل کے طور پر استعمال ہوا ہے اور یہاں 'خواهد' سے قبل متصّل ہونے والا 'با' صرف تزئینی ہے، یا پھر تأکید کے لیے استعمال ہوا ہے۔۔ یعنی ترجمہ یہ ہو گا: کہ ہوا تیرے کوچے سے اِس خاک کو اُڑا کر لے جائے گی۔گربہ کویت خاک گردم نیست غم، لیکن غم است
کز سرِ کویت بخواہد باد برد ایں خاک را
امیر خسروؒ
اگر میں تیرے کوچے میں خاک ہو جاؤں تو کوئی غم نہیں ہے، بلکہ غم تو یہ ہے کہ ہوا تیرے کوچے سے اِس خاک کو اُڑا کر لے جانا چاہے گی۔