حسان خان

لائبریرین
چار بنیادِ خانهٔ اسلام
گشته‌اند این ذواتِ قُدسی نام
بو بکر، پس عمر، علی، عثمان
رضی الله عنهم العلّام
(طاهر المولوی)
خانۂ اسلام کی چار بنیادیں یہ ذواتِ قُدسی نام بنی ہیں: ابو بکر، عمر، عثمان اور علی۔۔۔ خدائے علیم و علّام اُن سے راضی ہو!

× شاعر کا تعلق تُرکیہ سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مولانا جلال‌الدین رومی کی مدح میں کہی گئی رباعی:
(رباعی)

ای وارثِ اَسرارِ رُسُل مولانا
هر یک سُخَنش دلیلِ کُل مولانا
ای کاش غبارِ قدمت می‌سازم
در چشمِ دویی دیده کُحُل مولانا
(طاهر المولوی)
اے اَسرارِ رسُولاں کے وارث [حضرتِ] مولانا!۔۔۔ اے [وہ حضرتِ] مولانا! کہ جن کا ہر ایک سُخن دلیلِ کُل ہے۔۔۔ اے [حضرتِ] مولانا! اے کاش میں آپ کے قدم کے غُبار کو [اپنی] دُوئی و کثرت دیکھتی رہی چشم کا سُرمہ بنا لوں!

× شاعر کا تعلق تُرکیہ سے تھا۔
× ایک نُسخے میں 'چشمِ دویی دیده' کی بجائے 'چشمِ دو بیننده' درج ہے۔
× 'کحل' کا درست تلفظ 'ح' پر جزم کے ساتھ 'کُحْل' ہے۔ شاعر نے وزن و قافیہ محفوظ رکھنے کے لیے لفظِ ہٰذا کے 'ح' کو مضموم باندھا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یا رب کجاست محرمِ رازی که یک زمان
دل شرحِ آن دهد که چه گفت و چه‌ها شنید
(حافظ شیرازی)

یا رب! کہاں ہے کوئی مَحرمِ راز تاکہ [میرا] دل ایک لمحہ [اُس کو] یہ شرح و بیاں کرے کہ اُس (دل) نے کیا کہا اور کیا کیا سُنا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
از دو چشمم جویِ خون انگیخته‌ست
عشقِ مویِ دل‌برِ خوش‌بویِ تو
(ادیب صابر تِرمِذی)

تمہارے دل لے جانے و
الے اور خوشبودار بالوں کے عشق نے میری دو چشموں سے جُوئے خون جاری کر دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
محروم اگر شدم ز سرِ کویِ او چه شد
از گلشنِ زمانه که بویِ وفا شنید؟
(حافظ شیرازی)

اگر میں اُس کے سرِ کوچہ سے محروم ہو گیا تو کیا ہوا؟ گلشنِ زمانہ سے کس نے بوئے وفا سونگھی ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
دشمنم را بد نمی‌خواهم که آن بدبخت را
این عُقوبت بس که بیند دوست هم‌زانویِ دوست
(سعدی شیرازی)

میں اپنے دشمن کے لیے بد نہیں چاہتا کیونکہ اُس بدبخت کے برائے یہ سزا کافی ہے کہ وہ دوست کو دوست کا ہم زانو دیکھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ذوقِ وصلت کاشکی جانا نمی‌دیدی دلم
یا تنِ کاهیدهٔ من تابِ هجران داشتی
(ادیب صابر تِرمِذی)

اے جان! کاش میرے دل نے تمہارے وصل کا ذائقہ و لذّت نہ دیکھا ہوتا، یا پھر میرے تنِ لاغر شدہ کو ہجر کی تاب ہوتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
تُرکِ من غازی‌ست امّا بس مسلمان‌کُش فُتاد
آنچه کافر را نشاید کرد غازی می‌کند
(امیر حسن سجزی دهلوی)
میرا [معشوقِ] تُرک غازی ہے، لیکن وہ بِسیار زیادہ مسلمان کُش واقع ہوا ہے
جو کچھ کرنا کافر کے لیے [بھی] مناسب نہیں ہے، وہ غازی کرتا ہے

× غازی = دشمنانِ اسلام و مسلمین سے جنگ کرنے والا
× مسلمان کُش = مسلمان قتل کرنے والا
× فارسی ادبی روایت میں خود کے عاشقوں کو قتل کرنا معشوق کی فطرت رہی ہے، اور جب معشوق جنگجو تُرک ہو تو نورٌ علیٰ نور ہو جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تیغِ جلّادی چه آری از پَیِ قتلِ حَسَن
هیچ تیغی چون سرِ مژگانِ خوبان تیز نیست
(امیر حسن سجزی دهلوی)
حَسَن کے قتل کے لیے تیغِ جلّاد کیا لا رہے ہو؟۔۔۔ کوئی بھی تیغ خُوبوں کی مِژگاں کی نوک کی مانند تیز نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سلطانِ عثمانی سلطان محمد فاتح کے دربار سے وابستہ شاعر حامدی اصفہانی اصفہانِ نصفِ جہاں میں متولّد ہوئے تھے۔ وہ ایک جا کہتے ہیں:
ظهورِ من به شهرِ اصفهان بود

که او یک نیمهٔ مُلکِ جهان بود
(حامدی اصفهانی)
میرا ظُہور شہرِ اصفہان میں [ہوا] تھا؛ کہ جو مُلکِ جہاں کا نصف تھا۔
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
ذوقِ وصلت کاشکی جانا نمی‌دیدی دلم
یا تنِ کاهیدهٔ من تابِ هجران داشتی
(ادیب صابر تِرمِذی)
اے جان! کاش میرے دل نے تمہارے وصل کا ذائقہ و لذّت نہ دیکھا ہوتا، یا پھر میرے تنِ لاغر شدہ کو ہجر کی تاب ہوتی۔
واہ!!
 

سید عمران

محفلین
تیغِ جلّادی چه آری از پَیِ قتلِ حَسَن
هیچ تیغی چون سرِ مژگانِ خوبان تیز نیست
(امیر حسن سجزی دهلوی)
حَسَن کے قتل کے لیے تیغِ جلّاد کیا لا رہے ہو؟۔۔۔ کوئی بھی تیغ خُوبوں کی مِژگاں کی نوک کی مانند تیز نہیں ہے۔
یہاں حَسن ہے یا حُسن؟؟؟
 
۱۸ ذی الحجہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خم نامی قشلاق میں فرمایا تھا "من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ" یعنے جس کا مولا میں، اس کا مولا علی(علیه سلام)۔اس واقعے پر ناصر خسرو کے قصیدے کے چند اشعار مع ترجمہ:

بنگر که خلق را به که داد و چگونه گفت
روزی که خطبه کرد نبی بر سر غدیر
دست علی گرفت و بدو داد جای خویش
گر دست او گرفت تو جز دست او مگیر
ای ناصبی اگر تو مقری بدین سخن
حیدر امام توست و شبر وانگهی شبیر
علم علی نه قال و مقال است عن فلان
بل علم او چو در یتیم است بی‌نظیر
اقرار کن بدو و بیاموز علم او
تا پشت دین قوی کنی و چشم دل قریر
آب حیات زیر سخن‌های خوب اوست
آب حیات را بخور و جاودان ممیر
(ناصر خسرو)

نگاہ کرو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مے غدیرِ خم پر خطبہ دیا تو لوگوں کو کس کے سپرد کیا اور کیسے کہا
حضرت علی کا دست لیا اور انہیں خود کی جاء دی۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان (حضرت علی) کا دست لیا تو تُو بھی ان کے سوا کسی کا دست مت لے۔
اے ناصبی اگر تو اس بات کا اقرار کنندہ ہے تو حضرت علی حیدر تیرے امام ہیں اور دستِ پیمان شبیر ہیں۔
حضرت علی کا علم فلاں سے قال و مقال نہیں ہے بلکہ ان کا علم درِ یتیم کی مانند بےنظیر ہے
ان کا اقرار کرو اور ان کے علم کی یادگیری کرو تاکہ تو پشتِ دین قوی کرے اور چشمِ دل روشن کرے
حضرت علی کے سخن ہائے خوب کے نیچے آبِ حیات ہے۔آبِ حیات کو نوش کر اور جاوداں رہ کر مت مرو۔

x ناصر خسرو اسماعیلی شیعہ تھے۔
٭ قشلاق=گاؤں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چهرهٔ دل‌بر و من گُل‌گون است
لٰکِن آن از مَی و این از خون است
(یغما جندقی)
دلبر کا اور میرا چہرہ گُلگوں (یعنی گُل کی مانند سُرخ) ہے؛ لیکن وہ شراب سے، اور یہ خون سے ہے۔


× 'لٰکِن' کی بجائے 'لیک' بھی نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:
فردا که هرکسی به شفیعی زنند دست
ماییم و دست و دامن معصوم مرتضی
(سعدی شیرازی)

فردا(روزِ قیامت) ہر کوئی کسی شفاعت کنندہ سے متمسک ہوگا۔ہم ہوں گے اور حضرت علی مرتضیِٰ معصوم کا دست و دامن ہوگا۔
 
در غدیر خم خطاب آمد ز حق بر مصطفی
تا علی را او ولی بر مهتر و کهتر کند
گوید آن کاو را منم مولا، علی مولای اوست
زینهار از طاعت او گر کسی سر درکند
(ملک اشعرا بهار)

غدیرِ خم میں خدا حضورﷺ سے مخاطب ہوا تاکہ حضرت علی(علیہ سلام) کو مہتر و کہتر پر ولی بنادیں۔(حضورﷺ نے) کہا کہ جس کا میں مولا ہوں، علی اس کا مولا ہے، خبردار اگر کسی نے اس(علی علیہ سلام) کی اطاعت سے سرتابی کی۔
 
حضرت علی علیہ سلام کی مدح میں آرتیمائی فرماتے ہیں:۔
تو همچو من به ثنای علی زبان بگشا
که مرحبا شنوی هر دم از در و دیوار
(رضی الدین آرتیمایی)

تو میری طرح حضرت علی (علیہ سلام) کی ثنا میں زبان وا کرو تاکہ تو در و دیوار سے ہر دم "مرحبا" سنے۔
 
Top