حضرت علی علیہ سلام کی مدحت میں آتش اصفہانی کہتے ہیں:
گرم بروزِ قیامت شفاعتِ تو بود
گناهِ بی‌حدِ من با ثواب مقرون است
(آتش اصفهانی)

اگر مجھے روزِ قیامت تیری شفاعت نصیب ہوجائے تو میرا گناہِ بےحد ثواب سے قریب ہوجائے (بدل جائے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
پیش‌تر آن دم که آدم در جِنان ماوا گرفت
همچو جان در سینه عشقش در دلِ ما جا گرفت
(حامدی اصفهانی)

قبل اِس کے کہ آدم جنّت میں [اپنا] مسکن بنائے، سینے میں جان کی مانند اُس کے عشق نے ہمارے دل میں جا بنا لی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
باعثِ اندوہ و شادی اختلاطِ مردم است
آشنا با کس مشو، فارغ ز صلح و جنگ باش


قدسی مشہدی

لوگوں کے ساتھ اختلاط (ملنا جلنا) ہی غم اور خوشی کا باعث ہے، لہذا کسی کا بھی آشنا نہ ہو (لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دے) اور صلح و جنگ سے فارغ ہو جا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خوشا شیراز و وضعِ بی‌مثالش
خداوندا نگه دار از زوالش
(حافظ شیرازی)
خوشا شہرِ شیراز اور اُس کی وضعِ بے مثال!۔۔۔ اے خداوند! اُس [شہر] کو زوال سے محفوظ رکھو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حافظ شیرازی کی ایک بیت پر تخمیس:
قامتم از غمِ هجرت شده چون حلقهٔ نون

شمع‌وش سوختم از شعلهٔ این سوزِ درون
دوش در مصطبه از طعنِ حریفانِ زبون
توبه کردم که نبوسم لبِ ساقی و کنون
می‌گزم لب که چرا گوش به نادان کردم
(سید ابوالقاسم نباتی)
تمہارے ہجر کے غم سے میری قامت نُون کے حلقے کی مانند ہو گئی ہے؛ میں اِس سوزِ درُوں کے شعلے سے شمع کی مانند جل گیا؛ گذشتہ روز میکدے میں پست و زبُوں حریفوں کے طعنے کے باعث میں نے توبہ کر لی کہ [اب] ساقی کے لب کو نہیں بوسوں گا اور اب [پشیمانی سے اپنا] لب چباتا ہوں کہ میں نے کس لیے نادان کی جانب کان کیا۔
× بوسنا = بوسہ دینا، چُومنا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به مکتب‌خانهٔ عرفان کتابت‌هاست امّا من
به جز در شعرِ حافظ درسِ عشق از بر نمی‌دارم
(شهریار تبریزی)

مکتب خانۂ عرفان میں [کئی] کتابتیں اور تحریریں موجود ہیں، لیکن میں شعرِ حافظِ شیرازی کے بجز کہیں اور درسِ عشق یاد و حِفظ نہیں کرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
گرامی دار چون جان شهریارا تربتِ حافظ
که از حافظ کسی را من گرامی‌تر نمی‌دارم
(شهریار تبریزی)

اے شہریار! حافظ شیرازی کی تُربت کو جان کی طرح محترم رکھو، کہ میں حافظ شیرازی سے زیادہ کسی کو محترم نہیں رکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایل‌لر یاشار خضر کیمی، هر کیم که گئجه‌لر
گُل اۆزلۆ یار ایلن میِ چون ارغوان ایچر
(صائب تبریزی)
جو بھی شخص شبوں کو یارِ گُل رُخ کے ساتھ اَرغَوان جیسی شراب پیتا ہے وہ خضر کی مانند سالوں تک زندگی کرتا ہے۔

× اَرغَوان = ایک سُرخ رنگ گُل کا نام

İllər yaşar Xızır kimi hər kim ki, gecələr,
Gül üzlü yar ilən meyi çün ərğavan içər.
صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا حُسین محمدزادہ صدّیق نے منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:
چون خضر جاودان زِیَد آن کس که وقتِ شب

از دستِ یارِ خود مَیِ چون ارغوان خورَد
جو شخص شب کے وقت اپنے یار کے دست سے اَرغَوان جیسی شراب پیتا ہے وہ خضر کی مانند جاوداں زندگی کرتا ہے۔
× اَرغَوان = ایک سُرخ رنگ گُل کا نام
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اگر اینجا گشایی عُقده‌ای از کارِ محتاجان
درِ جنت به رُویت باز گردد بی کلید آنجا
(صائب تبریزی)
اگر تم یہاں (یعنی اِس دنیا میں) مُحتاجوں کے کام میں سے کوئی گِرہ کھولو تو وہاں جنّت کا در کلید کے بغیر [ہی] تمہارے چہرے کی جانب کھل جائے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رَواجی نیست در محشر عباداتِ ریایی را
به سیمِ قلب نتوان ماهِ کنعان را خرید آنجا
(صائب تبریزی)
محشر میں ریاکارانہ عبادتوں کا کوئی رواج نہیں ہے (یعنی وہاں ریاکارانہ عبادتوں کا سکّہ نہیں چلتا)؛ وہاں ناخالص سِیم سے ماہِ کنعان (یعنی حضرتِ یوسف) کو نہیں خریدا جا سکتا۔
× سِیم = چاندی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هلالِ جامِ مَی هر جا نماید گوشهٔ ابرو
ز خِجلت پُشتِ سر خارد به ناخن ماهِ عید آنجا

(صائب تبریزی)
ہِلالِ جامِ مَے جس جا بھی [اپنا] گوشۂ ابرو دکھاتا ہے، وہاں ماہِ عید شرمندگی کے باعث ناخُن سے سر کی پُشت کُھجاتا ہے۔
× شاعر نے جامِ شراب کو ہِلال سے تشبیہ دی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چوں صدف از گوھرِ خود خانہ من روشن است
نیست چشمِ من بہ ماہ و آفتابِ دیگراں


صائب تبریزی

صدف کی طرح خاص اپنے ہی گوہر سے میرا گھر بھی روشن ہے، میری نظر دوسروں کے چاند سورج پر نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا خطیبِ عشقِ او بر منبرِ جان خطبه کرد
راه گم کردم عزیزان مسجدِ آدینه را
(امیر حسن سجزی دهلوی)

اے عزیزو! جب سے اُس کے عشق کے خطیب نے منبرِ جاں پر خُطبہ دیا، میں نے مسجدِ جُمعہ کی راہ گم کر دی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فِسقی که توبه باشد پایانِ کارِ او
بهتر ز طاعتی که به پِندار درکَشَد
(امیر حسن سجزی دهلوی)

جس گناہ کا انجامِ کار توبہ ہو، وہ اُس طاعت سے بہتر ہے جو تکبّر کے اندر کھینچ لے جائے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تکیه کن بر فضلِ حق ای دل ز هجران غم مخور
وصلِ یار آید شوی زان خُرّم ای جان غم مخور
(سید عمادالدین نسیمی)

اے دل! حق تعالیٰ کے فضل پر اعتماد کرو اور ہجر کے باعث غم مت کھاؤ۔۔۔ اے جان! وصلِ یار آئے گا، [اور] تم اُس سے خُرّم و خوش ہو جاؤ گی، غم مت کھاؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
بی گُلِ خندان نمانَد دایم اطرافِ چمن
غُنچه باز آید شود عالَم گلستان غم مخور
(سید عمادالدین نسیمی)

چمن کے گوشے گُلِ خنداں کے بغیر ہمیشہ نہیں رہتے (یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ چمن میں کسی بھی وقت گُل نہ ہوں، کبھی نہ کبھی اُس میں گُل ضرور آتے ہیں)۔۔۔ [لہٰذا] غُنچہ دوبارہ آئے گا [اور] عالَم گلستان ہو جائے گا، غم مت کھاؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
گرچه جان‌سوز است دردِ هجرِ جانان صبر کن
کز وصالِ او رسی روزی به درمان غم مخور
(سید عمادالدین نسیمی)

اگرچہ فراقِ جاناں کا درد جاں سوز ہے، صبر کرو۔۔۔ کہ [بالآخر] ایک روز اُس کے وصال سے تم درمان تک پہنچ جاؤ گے، غم مت کھاؤ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بسوخت نالۂ من سنگ را، عجب سنگ است
دلت کہ سوختہ زیں نالہ ہائے زار نشد


امیر خسرو دہلوی

میری آہ و زاری اور نالوں‌ نے پتھروں کو جلا دیا، لیکن تیرا دل عجب پتھر ہے کہ جو اِن درد انگیز اور زار زار نالوں سے بھی نہ جلا (نرم نہ ہوا)۔
 
آخری تدوین:
Top