حسان خان

لائبریرین
هر چه در حُسنِ تو خواهم کرد وصف
تو از آن هستی به خوبی ماورا
(نِزاری قُهِستانی)
میں جو بھی کچھ تمہارے حُسن کے بارے میں وصف کروں گا تم خوبی میں اُس سے ماوراء ہو۔
 
هر چه در حُسنِ تو خواهم کرد وصف
تو از آن هستی به خوبی ماورا
(نِزاری قُهِستانی)
میں جو بھی کچھ تمہارے حُسن کے بارے میں وصف کروں گا تم خوبی میں اُس سے ماوراء ہو۔
اور عرفی شیرازی نے کس خوبی سے اس بحث کو سمیٹا ہے.
آنان که وصف تو تقریر می کند
خواب ندیده را تعبیر می کند
ترجمه:
وہ لوگ جو تیرے (حسن کے) اوصاف گنواتے ہیں ایک اندیکھے خواب کی تعبیر کرتے ہیں.
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
شنیدم کہ شیخ زماں بایزید
شبے داشت با عشق گفت و شنید

بہ بحر حضور تجلی شہود
خیالش نقاب تمنا کشود

کہ یا رب چہ آرم من بوالفضول
کہ یابد دریں بزم رنگِ قبول

ندا آمد از حضرت ذوالجلال
کہ فرش است اینجا بہار کمال

ز جنس عبادات و علم و عمل
مہیاست ایں کشور بے خلل

کمال ترا کس خریدار نیست
متاعی بجز نقص درکار نیست

(بیدل)
 

بہ بحر حضور تجلی شہود
خیالش نقاب تمنا کشود
معرفت کے اس بحر بے کراں کی جانب جہاں انہوں نے تجلی حق دیکہی. ان کا خیال ; نقاب تمنا کا اٹھنا (یعنی انہوں نے چاہا کہ وہ حق تعالی سے کھل کر اپنی تمنا کا اظہار کریں)
 
آخری تدوین:
آخری تدوین:


کمال ترا کس خریدار نیست
متاعی بجز نقص درکار نیست

(بیدل)
(اے دل) تیرے کمال کا کون طلبگار نہیں. کہ ہمیں متاع دل بے نقص درکار نہیں. (آخری مصرع کو سمجھنے کے لئے حدیث قدسی 'میں ان دلوں کے پاس ہوتا ہو جو میرے سبب ٹوٹے ہیں' اور اقبال کا مصرع 'اگر شکستہ ہو عزیز تر ہے ...' پر غور اہم ہے).
 

حسان خان

لائبریرین
اور عرفی شیرازی نے کس خوبی سے اس بحث کو سمیٹا ہے.
آنان که وصف تو تقریر می کند
خواب ندیده را تعبیر می کند
ترجمه:
وہ لوگ جو تیرے (حسن کے) اوصاف گنواتے ہیں ایک اندیکھے خواب کی تعبیر کرتے ہیں.
آپ نے بیت کا جو متن درج کیا ہے، وہ بے وزن ہے۔ مجھے لغت نامۂ دہخدا میں مندرجۂ ذیل متن نظر آیا ہے جو وزن میں ہے:
آنان که وصفِ حُسنِ تو تقریر می‌کنند

خوابِ ندیده را همه تعبیر می‌کنند
جو افراد تمہارے حُسن کا وصف بیان کرتے ہیں، وہ سب [در حقیقت ایک] نادیدہ خواب کی تعبیر کرتے ہیں۔

بہ علاوہ، تذکرۂ صبحِ گُلشن کے مطابق بیتِ ہٰذا 'روانی لاہوری' کی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سو انہوں نے خدا سے عرض کی کہ اے رب مجھ ابو الفضول کا اس جہاں میں مقصود کیا ہے؟ کہ اس کو تلاش کرنے کی خاطر میں اس دنیا میں آیا؟
ترجمہ: یا رب! میں بوالفضول ایسی کیا چیز لاؤں جو اِس بزم میں قبولیت سے ہم کنار ہو جائے؟
(اے دل) تیرے کمال کا کون طلبگار نہیں. کہ ہمیں متاع دل بے نقص درکار نہیں. (آخری مصرع کو سمجھنے کے لئے حدیث قدسی 'میں ان دلوں کے پاس ہوتا ہو جو میرے سبب ٹوٹے ہیں' اور اقبال کا مصرع 'اگر شکستہ ہو عزیز تر ہے ...' پر غور اہم ہے).
ترجمہ: تمہارے کمال کا کوئی خریدار و طلب گار نہیں ہے۔ یہاں فقط متاعِ نَقص و عیب درکار ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
من همان روز که آن خال بِدیدم گفتم
بیمِ آن است بدین دانه که در دام اُفتم
(سعدی شیرازی)

میں نے جس روز وہ خال دیکھا تھا تو اُسی روز کہا تھا کہ [مجھے] اِس دانے سے یہ خوف ہے کہ میں دام میں گر جاؤں گا۔
× دام = جال
 

حسان خان

لائبریرین
تا بود گفتگو سخنم ناتمام بود
نازم به خامُشی که سخن را تمام کرد
(غنی کشمیری)
جب تک گفتگو تھی، میرا سُخن ناتمام تھا۔۔۔ خاموشی پر آفریں! کہ اُس نے سُخن کو تمام کر دیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رنگِ رُویم غمِ دل پیشِ کسان می‌گوید
فاش کرد آن که ز بیگانه همی‌بِنْهُفتم
(سعدی شیرازی)
میرے چہرے کا رنگ اشخاص کے سامنے [میرا] غمِ دل کہہ رہا ہے۔۔۔ جو [چیز] میں بیگانے سے چھپایا کرتا تھا وہ اُس نے فاش کر دی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چشمِ میگونِ یار هر که بِدید
ناچشیده شراب، مست اُفتاد
(فخرالدین عراقی)

جس نے بھی یار کی چشمِ میگوں دیکھی، وہ شراب چکھے بغیر مست ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون ز خاکِ درِ تو سرمه نیافت
دیده‌ام بی‌ضیا و نور اُفتاد
(فخرالدین عراقی)

جب میری چشم کو تمہارے در کی خاک سے سُرمہ نہ ملا تو وہ بے ضیاء و بے نور ہو گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
به چشمِ کم مبین در نامهٔ اعمالِ ما زاهد
که می‌بارد از این ابرِ سیه بارانِ رحمت‌ها
(غنی کشمیری)
اے زاہد! ہمارے نامۂ اعمال کی جانب چشمِ حقارت سے مت دیکھو کہ اِس ابرِ سیاہ سے رحمتوں کی باران برسے گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دلِ خود تنگ می‌خواهم که در وَی
نمی‌خواهم به جز جایِ تو باشد
(علی نقی کَمَره‌ای)
میں اپنا دل تنگ چاہتا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ اُس میں تمہاری جگہ کے بجز کچھ ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تو تا به ناز فِگندی به چهره زلفِ سیاه
فغان ز خلق برآمد که آفتاب گرفت
(منسوب به ظهیر فاریابی)
تم نے جب ناز سے چہرے پر زُلفِ سیاہ ڈالی تو خَلق میں فغاں برپا ہوئی کہ خورشید کو کُسُوف ہو گیا۔
× کُسُوف = خورشید گرہن
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زبانِ تُرکی میں 'قېش' موسمِ زمستان کو کہتے ہیں، اور 'قېشلاق' ایسی گرم جا کو کہتے ہیں جہاں خانہ بدوش قبائل سرما میں کوچ کر جاتے ہیں۔ ایرانی فارسی میں 'قِشلاق' اِسی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور تاریخی لحاظ سے بھی 'قشلاق' اِسی معنی میں مستعمَل رہا ہے، اور اگرچہ 'زمستانگاہ' یا 'گرمسیر' کی شکل میں اُس کے چند فارسی معادلات موجود ہیں، لیکن ایرانی فارسی میں یہ تُرکی لفظ ہی رائج ہے۔
یہ درست ہے کہ تاجکستان اور ازبکستان کی زبانوں میں 'قشلاق' اب 'گاؤں' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن میرے خیال میں ہنوز اِسے علاقائی لفظ سمجھنا چاہیے۔ اور تاجکستانی کتابی فارسی میں بھی حالا 'گاؤں' کے لیے 'قشلاق' کے علاوہ 'دیهَه'، 'دِه'، 'رُوستا' اور 'قریه' استعمال ہوتے ہیں، جو 'کتابی تر' الفاظ ہیں۔ اگر آپ 'گاؤں' کی بجائے کسی فارسی (یا عربی) لفظ کو استعمال کرنا چاہتے ہوں، جو میری نظر میں یقیناً ایک احسن چیز ہے، تو آپ 'رُوستا' اور 'قریہ' استعمال کر سکتے ہیں۔
افغانستانی فارسی کے بارے میں آپ بہتر جانتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ وہاں 'قشلاق' کس معنی میں رائج ہے؟
 
Top