اور عرفی شیرازی نے کس خوبی سے اس بحث کو سمیٹا ہے.هر چه در حُسنِ تو خواهم کرد وصف
تو از آن هستی به خوبی ماورا
(نِزاری قُهِستانی)
میں جو بھی کچھ تمہارے حُسن کے بارے میں وصف کروں گا تم خوبی میں اُس سے ماوراء ہو۔
ترجمہ: میں نے (یہ حکایت) سنی ہے کہ اپنے وقت کے کامل بزرگ حضرت بایزید بسطامی (رحمت اللہ علیہ) نے ایک شب عشق سے گفتگو کی.شنیدم کہ شیخ زماں بایزید
شبے داشت با عشق گفت و شنید
معرفت کے اس بحر بے کراں کی جانب جہاں انہوں نے تجلی حق دیکہی. ان کا خیال ; نقاب تمنا کا اٹھنا (یعنی انہوں نے چاہا کہ وہ حق تعالی سے کھل کر اپنی تمنا کا اظہار کریں)
بہ بحر حضور تجلی شہود
خیالش نقاب تمنا کشود
سو انہوں نے خدا سے عرض کی کہ اے رب مجھ ابو الفضول کا اس جہاں میں مقصود کیا ہے؟ کہ اس کو تلاش کرنے کی خاطر میں اس دنیا میں آیا؟
کہ یا رب چہ آرم من بوالفضول
کہ یابد دریں بزم رنگِ قبول
حق تعالی کی جانب سے ندا آئی: کہ اے بایزید! کہ اس فرش پر، اس دنیا میں ہی بہار (معرفت، شہود حق) اپنے کمال پر ہوتی ہے.
ندا آمد از حضرت ذوالجلال
کہ فرش است اینجا بہار کمال
عبادات و علم و عمل کی اقسام سے. یہ بے خلل مملکت دل حاصل ہوتی ہے.
ز جنس عبادات و علم و عمل
مہیا ست ایں کشور بے خلل
(اے دل) تیرے کمال کا کون طلبگار نہیں. کہ ہمیں متاع دل بے نقص درکار نہیں. (آخری مصرع کو سمجھنے کے لئے حدیث قدسی 'میں ان دلوں کے پاس ہوتا ہو جو میرے سبب ٹوٹے ہیں' اور اقبال کا مصرع 'اگر شکستہ ہو عزیز تر ہے ...' پر غور اہم ہے).
کمال ترا کس خریدار نیست
متاعی بجز نقص درکار نیست
(بیدل)
آپ نے بیت کا جو متن درج کیا ہے، وہ بے وزن ہے۔ مجھے لغت نامۂ دہخدا میں مندرجۂ ذیل متن نظر آیا ہے جو وزن میں ہے:اور عرفی شیرازی نے کس خوبی سے اس بحث کو سمیٹا ہے.
آنان که وصف تو تقریر می کند
خواب ندیده را تعبیر می کند
ترجمه:
وہ لوگ جو تیرے (حسن کے) اوصاف گنواتے ہیں ایک اندیکھے خواب کی تعبیر کرتے ہیں.
ترجمہ: یا رب! میں بوالفضول ایسی کیا چیز لاؤں جو اِس بزم میں قبولیت سے ہم کنار ہو جائے؟سو انہوں نے خدا سے عرض کی کہ اے رب مجھ ابو الفضول کا اس جہاں میں مقصود کیا ہے؟ کہ اس کو تلاش کرنے کی خاطر میں اس دنیا میں آیا؟
ترجمہ: تمہارے کمال کا کوئی خریدار و طلب گار نہیں ہے۔ یہاں فقط متاعِ نَقص و عیب درکار ہے۔(اے دل) تیرے کمال کا کون طلبگار نہیں. کہ ہمیں متاع دل بے نقص درکار نہیں. (آخری مصرع کو سمجھنے کے لئے حدیث قدسی 'میں ان دلوں کے پاس ہوتا ہو جو میرے سبب ٹوٹے ہیں' اور اقبال کا مصرع 'اگر شکستہ ہو عزیز تر ہے ...' پر غور اہم ہے).
زبانِ تُرکی میں 'قېش' موسمِ زمستان کو کہتے ہیں، اور 'قېشلاق' ایسی گرم جا کو کہتے ہیں جہاں خانہ بدوش قبائل سرما میں کوچ کر جاتے ہیں۔ ایرانی فارسی میں 'قِشلاق' اِسی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور تاریخی لحاظ سے بھی 'قشلاق' اِسی معنی میں مستعمَل رہا ہے، اور اگرچہ 'زمستانگاہ' یا 'گرمسیر' کی شکل میں اُس کے چند فارسی معادلات موجود ہیں، لیکن ایرانی فارسی میں یہ تُرکی لفظ ہی رائج ہے۔٭ قشلاق=گاؤں