حسان خان

لائبریرین
زیباست خُویِ آتش اولادِ بولهب را
تو ابنِ بوتُرابی باید که خاک باشی

(غنی کشمیری)
آتش خِصلتی اولادِ ابولہب کو زیب دیتی ہے۔۔۔ تم ابنِ بوتُراب ہو، تمہیں خاک ہونا چاہیے۔
 
جسمِ خاک از عشق بر افلاک شد
کوہ در رقص آمد و چالاک شد

مولانا رومی

مٹی کا جسم عشق کی بدولت آسمانوں پر پہنچ گیا۔ عشق وہ قوت ہے کہ اس کے طفیل بے حس و بے شعور پہاڑ ناچ اٹھا اور باشعور ہو گیا
 

حسان خان

لائبریرین
همچو آتش روشن از من بود شمعِ هر مزار
من که مُردم کس چراغی بر سرِ خاکم نسوخت

(غنی کشمیری)
آتش کی طرح میرے ذریعے ہر مزار کی شمع روشن تھی۔۔۔ [لیکن] جب میں مر گیا تو کسی نے میری تُربت کے کنارے کوئی چراغ نہ جلایا۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
جان رفت و نرفت دردِ جان‌کاه هنوز
دل نیست ز خوابِ راحت آگاه هنوز
ما گرچه رسیدیم به منزل امّا
آسایشِ منزل است در راه هنوز

(غنی کشمیری)
جان چلی گئی لیکن ہنوز دردِ جاں کاہ نہیں گیا۔۔۔ دل ہنوز خوابِ راحت سے آگاہ نہیں ہے۔۔۔ ہم اگرچہ منزل پر پہنچ گئے ہیں لیکن آسائشِ منزل ہنوز راہ میں ہے (یعنی ہنوز نہیں پہنچی ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
ابوطالب کلیم کاشانی کی وفات پر کہے گئے قطعۂ تاریخ کی ایک بیت میں غنی کشمیری فرماتے ہیں:
اشکِ حسرت چون نمی‌ریزد قلم
شد سخن از مُردنِ طالب یتیم

(غنی کشمیری)
قلم اشکِ حسرت کیسے نہ بہائے گا؟ کہ طالب کے مرنے سے سُخن یتیم ہو گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شرفِ ذات به تقلید نگردد حاصل
گاو و خر را نکند خوردنِ گندم آدم

(غنی کشمیری)
شَرَفِ ذات تقلید سے حاصل نہیں ہوتا۔۔۔ گندم کھانا گاو و خر کو آدم (یعنی انسان) نہیں بنا دیتا۔
× گاو = گائے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حدیثِ زُلفِ تو از دل به لب چو می‌آید
به سانِ خامه سیه می‌کند زبانِ مرا

(ابوطالب کلیم کاشانی)
تمہاری زُلف کی حدیث جب دل سے لب پر آتی ہے تو وہ قلم کی مانند میری زبان کو سیاہ کر دیتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فصلِ گُلِ رویِ تو جوان ساخت جهان را
حُسنِ تو از این باغ برون کرد خزان را

(ابوطالب کلیم کاشانی)
تمہارے چہرے کے موسمِ گُل نے جہاں کو جواں کر دیا۔۔۔ تمہارے حُسن نے اِس باغ سے خزاں کو بیرون کر دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ فخرالدین عراقی

گفتم: دلِ من، گفت: کہ خوں کردۂ ماست
گفتم: جگرم، گفت: کہ آزردۂ ماست
گفتم کہ بریز خونِ من، گفت: برو
کازاد کسے بوَد کہ پروردۂ ماست


میں نے کہا کہ میرا دل، اُس نے کہا کہ ہمارا خون کردہ ہے۔ میں نے کہا کہ میرا جگر، اُس نے کہا کہ ہمارا پریشان کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ اچھا پھر میرا خون ہی بہا دے، اُس نے کہا کہ جا چلا جا کہ جو بھی ہمارا پالا ہوا ہوتا ہے وہ آزاد ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا توانی ناتوانان را به چشمِ کم مبین
یاریِ یک رِشته جمعیّت دهد گُل‌دسته را

(ابوطالب کلیم کاشانی)
جب تک تمہارے لیے ممکن ہو ناتوانوں کو چشمِ حقارت سے مت دیکھو۔۔۔ ایک دھاگے کی مدد [ہی] گلدستے کو باندھتی اور یکجا کرتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
صد شکر که خاکِ طینتم یافت شرف
افتاد مرا دامنِ اقبال به کف
هر کس نظری ز شاهِ اقلیمی یافت
من فیضِ نظر یافتم از شاهِ نجف

(محمد فضولی بغدادی)
صد شکر کہ میری خاکِ فطرت نے شَرَف پا لیا [اور] میرے دست میں دامنِ خوش بختی آ گیا۔۔۔ ہر کسی نے کسی قلمرو کے شاہ سے اِک نظر و توجّہ پائی، [جبکہ] میں نے فیضِ نظر شاہِ نجف سے پایا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عشق ہر جا شمعِ اسرارِ محبت برفروخت
قصۂ لیلیٰ و مجنوں پیشِ آں افسانہ بُود


شاہزادی زیب النسا مخفی

عشق نے جس جگہ بھی محبت کی شمع جلائی، لیلیٰ مجنوں کا قصہ اُس کے سامنے ایک افسانہ بن کے رہ گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بود گویا طفلِ نورفتار شعرِ تازه‌ام
کز لبم تا رفت بیرون بر زبان‌ها اوفتاد

(غنی کشمیری)
میرا شعرِ تازہ گویا نیا چلنے والے بچّہ تھا کہ جیسے ہی میرے لب سے بیرون گیا، زبانوں پر گِر گیا (یعنی مشہور و رائج ہو گیا)۔

تشریح: مندرجۂ بالا بیت میں شاعر اپنی شاعری کی تازگی و نوی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں وَ اِسی لیے اُس کو نیا نیا چلنے والا بچّہ پُکارا ہے۔ اور جس طرح طفلِ نورفتار چلتے چلتے گِر جاتا ہے، اُسی طرح شاعر کہہ رہے ہیں لب سے بیرون آ کر اُن کی شاعری زبانوں پر گِر جاتی ہے یعنی مشہور و رائج ہو جاتی ہے۔ ذہن نشیں رہے کہ فارسی میں 'بر زبان اُفتادن' (زبان پر گِرنا) کِنایتاً مشہور ہونا وَ شہرت پانا یا زبانوں پر رائج ہو جانا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
× وَ = اور

× بیتِ ہٰذا کسی 'وہمی' تخلّص والے شاعر سے بھی منسوب نظر آئی ہے۔
 
سینه خواهم شرحه شرحه از فراق
تا بگویم شرحِ درد اشتیاق

مولانا رومی
میں اپنے سینے کے بارے میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ ہجر سے پارہ پارہ ہو جائے تاکہ میں اپنی تمنا کا کرب بیان تو کر سکوں۔ یعنی درد کی شدت اس قدر تو کم از کم بڑھے کہ اظہار کے بغیر رہا نہ جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
غنی مشکل بُوَد دل کندن از خُوبان پسِ اُلفت
ھنوز آب از غمِ یوسف به چشمِ چاه می‌آید

(غنی کشمیری)
اے غنی! اُنس و اُلفت کے بعد خُوباں سے دل قطع کرنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔ یوسف کے غم کے باعث ہنوز چاہ کی چشم میں آب آتا ہے۔
× چاہ = کنواں
 

محمد وارث

لائبریرین
زیں دوستاں کہ تشنۂ خونند الاماں
دشمن بہ کس چہ کرد کہ اینہا نمی کنند


قتیل لاہوری


اِن دوستوں سے کہ جو خون کے پیاسے ہیں، اللہ کی پناہ۔ دشمنوں نے کسی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا ہوگا کہ جو یہ نہیں کرتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای که اهلِ عشقه سؤیلرسن ملامت، ترکین ائت
سؤیله کیم ممکن‌مۆدۆر تغییرِ تقدیرِ خُدا؟

(محمد فضولی بغدادی)
اے [تم] کہ اہلِ عشق کو ملامت کرتے ہو، اِس [ملامت و مذمّت] کو ترک کر دو!۔۔۔۔ بتاؤ کہ کیا تقدیر خُدا کو تبدیل کرنا ممکن ہے؟

Ey ki, əhli-eşqə söylərsən məlamət, tərkin et!
Söylə kim, mümkünmüdür təğyiri-təqdiri-Xuda?


بعض مُدوّنان و شارحانِ دیوانِ فضولی نے مندرجۂ بالا بیت کے مصرعِ اول کو یوں تعبیر کیا ہے:
ای که اهلِ عشقه سؤیلرسن: ملامت ترکین ائت!
اے [تم] کہ اہلِ عشق کو کہتے ہو: "ملامت کو ترک کر دو"

لیکن میری نظر میں اول الذکر مفہوم ارجَح ہے۔
محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت خوان کر حافظ شیرازی کی مندرجۂ ذیل بیت ذہن میں آئی ہے:
در کُویِ نیک‌نامی ما را گُذر ندادند
گر تو نمی‌پسندی تغییر کن قضا را

(حافظ شیرازی)
[اے ملامت گو!] ہمیں کوئے نیک نامی میں گُذر نہ دیا گیا (یعنی بہ روزِ ازل میرے کاتبانِ تقدیر نے مجھے کوئے نیک نامی سے گذرنے کی اجازت نہ دی اور میرے لیے مُقدّر نہ کیا کہ میں بھی نیک ناموں میں شامل ہو جاؤں)۔۔۔۔ اگر تمہیں [میری یہ تقدیر] پسند نہیں ہے تو [جاؤ] قضائے [الٰہی] کو تبدیل کر دو [اگر تبدیل کرنے کی قُدرت رکھتے ہو!]
 
آخری تدوین:
بادہ در جوشش گدائے جوش ماست
چرخ در گردش فدائے ہوش ماست

مولانا روم
شراب جوش میں ہمارے جوش کی بھکاری ہے
آسمان گردش میں ہمارے ہوش پر قربان ہے
 

حسان خان

لائبریرین
رقیبانِ جفاجویِ ترا یا رب چه دین باشد
که آیینِ جفاجویی روا در هیچ ملّت نیست

(شیخ یعقوب صرفی کشمیری)
خدا کی پناہ! تمہارے رقیبانِ جفاجو کا کون سا دین ہے؟ کہ رسمِ جفاجوئی تو کسی بھی دین و شریعت میں روا و جائز نہیں ہے۔

× احتمال ہے کہ یہاں 'رقیب' نگہبان و پاسبان کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
چہ حاصل زیں ہمہ افسانۂ مہر و وفا یا رب
چو نتواں در دلِ سنگینِ اُو یک ذرہ جا کردن


بابا فغانی شیرازی

یا رب، اِن تمام مہر و وفا کے افسانوں سے کیا حاصل کہ جب وہ اُس کے پتھر جیسے سنگین دل میں ایک ذرے کے برابر بھی جگہ نہیں بنا پاتے۔
 
Top