حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
این شورِ جنون مرا صدایی آموخت
این دردِ درون مرا دوایی آموخت
در باغِ جهان چو عندلیبم ناظر
این سبزه و گُل مرا نوایی آموخت

(خوشی محمد ناظر)
اِس شورِ جنوں نے مجھے ایک صدا سِکھائی؛ اِس دردِ دروں نے مجھے ایک دوا سِکھائی؛ اے ناظر! میں باغِ جہاں میں عندلیب کی مانند ہوں؛ اِس سبزہ و گُل نے مجھے ایک نوا سِکھائی۔
 

حسان خان

لائبریرین
کامران سوختم از آتشِ هجرانِ کسی
که به کویش نرسد ذرّهٔ خاکسترِ ما

(کامران میرزا)
اے کامران! میں ایک ایسے شخص کے فراق کی آتش سے جل گیا ہوں، جس کے کوچے تک ہماری خاکِستر کا ذرّہ [بھی] نہیں پہنچتا۔
× خاکِستر = راکھ

× کامران میرزا سلطنتِ مغلیہ کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کے پسر تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
می‌افکَنَد مُدام ز خُوبان جدا مرا
کاری که خوب نیست چرا می‌کند فلک

(محمد فضولی بغدادی)
[فلک] ہمیشہ مجھ کو خُوبوں سے جدا [و دور] پھینک دیتا ہے۔۔۔۔ جو کار و عمل خوب نہیں ہے، فلک وہ کیوں کرتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
شبِ عید است چندانی امان ای عُمرِ مُستعجِل
که صبح آید کَشَد تیغ و کند قُربانم آن قاتل

(محمد فضولی بغدادی)
اے [میری] عُمرِ زُودگُذر! شبِ عیدِ [قُربان] ہے، [ذرا] اِس قدر امان [و مہلت دو] کہ صبح آ جائے، وہ [محبوبِ] قاتل تیغ کھینچے اور مجھے قُربان کر دے۔

× مصرعِ ثانی کا یہ ترجمہ بھی کیا جا سکتا ہے:
کہ وہ [محبوبِ] قاتل [بہ وقتِ] صبح آ جائے، تیغ کھینچے اور مجھے قُربان کر دے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز عاشق می‌فزاید قدرِ معشوق
نه از بِسیاریِ جاه و تجمُّل

(محمد فضولی بغدادی)
معشوق کی قدر جاہ و تجمُّل کی بِسیاری سے نہیں، بلکہ عاشق کے باعث افزُوں ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نگارِ من مکن بی‌التفاتی
مزن بر عاشقان تیغِ تغافُل

(محمد فضولی بغدادی)
[اے] میرے نگار! بے التفاتی مت کرو۔۔۔ عاشقوں پر تیغِ تغافُل مت مارو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
فلک بہ سنگدلی در کمیں نشستہ و من
چو شیشہ بہرِ شکستن بہانہ می طلبم


طالب آملی

فلک (اپنی تمام تر) سنگ دلی کے ساتھ گھات لگائے بیٹھا ہے اور میں ٹوٹنے کے لیے شیشے کی طرح بس بہانہ ہی چاہتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
ای پیرِ مُغان بیا اگر فیّاضی
عَقدم بربند بی شُمولِ قاضی
راضی شده دُختِ رز تو هم راضی شو
من هم راضی خدایِ من هم راضی

(سید انشاءالله خان انشاء)
اے پیرِ مُغاں! اگر تم فیّاض ہو تو آ جاؤ [اور] قاضی کی شُمولیت کے بغیر میرا عَقد باندھ دو (یعنی میرا نکاح کرا دو)۔۔۔ دُخترِ رز (یعنی شراب) راضی ہو گئی ہے، تم بھی راضی ہو جاؤ۔۔۔ میں بھی راضی ہوں، [اور] میرا خدا بھی راضی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چه می‌کردم اگر بی‌پرده می‌کردم تماشایت
تُرا در خانهٔ آیینه دیدم رفت هوشِ من

(بیدل دهلوی)
میں کیا کرتا اگر میں بے پردہ تمہارا تماشا و نظارہ کرتا؟
میں نے تمہیں خانهٔ آئینہ میں دیکھا، میرا ہوش چلا گیا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی اپنی ایک حمدیہ غزل کے مطلع میں فرماتے ہیں:
ای ذکرِ ذوق‌بخشِ تو زیبِ زبانِ ما
بی ذکرِ تو مباد زبان در دهانِ ما

(محمد فضولی بغدادی)
اے کہ تمہارا ذکرِ ذوق بخش ہماری زبان کی زیب و زینت ہے۔۔۔ تمہارے ذکر کے بغیر ہمارے دہن میں زبان نہ ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
از پرچمِ ما چو نقشِ شیر افتاده‌ست
رُوباهِ زمانه هم دلیر افتاده‌ست

(نامعلوم)
ہمارے [ایرانی] پرچم سے جب شیر کا نقش گِرا ہے (یعنی حذف ہوا ہے)، [تو] زمانے کی رُوباہ (لومڑی) بھی دلیر ہو گئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چارهٔ دردِ ما کجا داند
آنکه از درد بی‌خبر باشد

(فتح‌علی شاه قاجار 'خاقان')
جو شخص درد سے بے خبر ہو، وہ ہمارے درد کا چارہ کہاں جانے؟
 

حسان خان

لائبریرین
روزگار از خجالتِ لبِ تو
لعل را زیرِ سنگ پنهان کرد

(فتح‌علی شاه قاجار 'خاقان')
زمانے نے تمہارے لب سے شرمندگی کے باعث لعل کو زیرِ سنگ پنہاں کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ محمود بُرد چشمِ ایاز
شد کبوتر اسیرِ چَنگُلِ باز

(فتح‌علی شاه قاجار 'خاقان')
ایاز کی چشم محمود کا دل لے گئی۔۔۔ کبوتر، باز کے چَنگُل کا اسیر ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
همچو پروانه مُرغِ دل همه شب
گِردِ شمعِ رُخت کند پرواز

(فتح‌علی شاه قاجار 'خاقان')
[میرا] پرندۂ دل پروانے کی مانند تمام شب تمہاری شمعِ رُخ کے گِرد پرواز کرتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دلِ ما خوں شود از غم اگر خونِ کسے ریزی
کہ می دانیم اے بدخو ہمیں با ما کنی آخر


قتیل لاہوری

جب بھی تُو کسی کا خون بہاتا ہے تو ہمارا دل غم سے خون ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اے بدخو ہمارے ساتھ بھی آخر تُو یہی کچھ کرے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
قاجاری پادشاہ فتح‌علی شاہ قاجار 'خاقان' کی ایک غزل کی اختتامی دو ابیات:
"گر بخوانند این غزل خاقان
آن دو دانش‌ورِ سخن‌پرداز
نقدِ جان را نثار می‌سازند
خسرو از هند و سعدی از شیراز"

(فتح‌علی شاه قاجار 'خاقان')
اے خاقان! اگر وہ دو دانشورِ سُخن پرداز، یعنی ہند سے خسرو اور شیراز سے سعدی، اِس غزل کو خوان لیں تو وہ [اِس پر اپنی] نقدِ جاں افشاں کریں گے۔
× خوانْنا = پڑھنا
 

حسان خان

لائبریرین
می‌کنی آزاد و می‌گویی برو از کویِ من
من ز قیدت کَی تمنّایِ رهایی کرده‌ام

(فتح‌علی شاه قاجار 'خاقان')
تم [مجھے] آزاد کر رہے ہو اور کہہ رہے ہو کہ میرے کوچے سے چلے جاؤ۔۔۔ [لیکن] میں نے کب تمہاری قید و اسیری سے رہائی کی تمنّا کی ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
تہمتِ خانہ نشینی نہ پسندید بخویش
ورنہ مجنوں گلہ از سختیِ زنجیر نداشت


غنی کاشمیری

اُس نے اپنے لیے خانہ نشیں ہونے کی تہمت قبول نہ کی (اور اس لیے زنجیریں توڑ کر صحرا کی طرف نکل گیا)، ورنہ مجنوں کو سختیِ زنجیر کا تو کوئی گلہ نہ تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
به خوبی آن‌چنان کشمیر طاق است
که معشوقِ خُراسان و عراق است

(حاجی جان محمد قُدسی مشهدی)
خوبی و زیبائی میں سرزمینِ کشمیر اِس طرح یکتا و بے نظیر ہے کہ وہ خُراسان و عراق کی معشوق ہے۔
 
Top