محمد وارث
لائبریرین
ضرور ایسا ہی ہوگا ۔۔۔
مگر میں نے یوں پڑھا اور سنا ہے۔۔ اپنے بزرگوں سے
" عرفی تو چہ مندیش زا غوغائے رقیباں‘
عرفی تو کیوںفکر مند ہوتا ہے رقیبوں کے آوازے کسنے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ دیکھیئے۔۔۔ چہ (کیوں) تو آپ نے غائب کردیا ہے ۔۔ اور کیا وزن سلامت رہا ؟
میری بھی تشفی فرمادیجئے۔۔۔۔۔ بہر حال مجھ سے سننے اور پڑھنے میں غلطی ہو سکتی ہے سو اس سہو پر معذرت خواہ ہوں۔
والسلام
م۔م۔مغل
محمود بھائی معذرت کیسی، مجھے خوشی ہے کہ آپ ادھر توجہ فرما رہے ہیں۔ اور بھائی برزگ تو سانجھے ہوتے ہیں لہذا اگر آپ نے ایسا سنا تو ہم بھی احترام کرتے ہیں، گو میں نے بھی برزگوں کی کتابوں میں ویسا ہی دیکھا ہے جیسا پہلے لکھا ہے۔
جہاں تک وزن کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ شعر 'بحرِ ہزج مثّمن اخرب مکفوف محذوب' میں کہی ہوئی غزل کا ہے جسکا وزن
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے
میرے خیال میں آپ کو تسامح اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ کہ آپ اسکے پہلے مصرع میں لفظ "میندیش" جسکا وزن "مفاعیل" ہے کو لفظ "مندیش" جسکا وزن 'مفعول' یا 'فاعیل' سمجھ رہے ہیں اور رکن کے آغاز میں ہونے والی ایک 'ہجائے کوتاہ' کی کمی 'چہ' سے پوری کر رہے ہیں۔
تقطیع دیکھتے ہیں۔
عرفی کا شعر
عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را
عرفی تُ - مفعول
مِ یندیش - مفاعیل
ز غو غا ء - مفاعیل
رقیبا - فعولن
آواز - مفعول
سگا کم نَ - مفاعیل
کُند رزق - مفاعیل
گدا را - فعولن
جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ دونوں مصرعے موزوں ہیں اور ایک انتہائی مشہور و معروف اور عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں کی مستعمل بحر میں ہیں، اب اگر آپ لفظ میندیش کو مندیش (من دیش) پڑھیں تو 'چہ' کا اضافہ نا گزیر ہے اور وہی آپ کر رہے ہیں۔
محمود بھائی میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس تھریڈ کو خوبصورت فارسی اشعار سے نوازتے رہیں گے، اور یقین مانیں مجھے فارسی کا ہر شعر خوبصورت لگتا ہے