محمد وارث

لائبریرین
ضرور ایسا ہی ہوگا ۔۔۔
مگر میں نے یوں پڑھا اور سنا ہے۔۔ اپنے بزرگوں سے
" عرفی تو چہ مندیش زا غوغائے رقیباں‘

عرفی تو کیوں‌فکر مند ہوتا ہے رقیبوں کے آوازے کسنے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ دیکھیئے۔۔۔ چہ (کیوں) تو آپ نے غائب کردیا ہے ۔۔ اور کیا وزن سلامت رہا ؟
میری بھی تشفی فرمادیجئے۔۔۔۔۔ بہر حال مجھ سے سننے اور پڑھنے میں غلطی ہو سکتی ہے سو اس سہو پر معذرت خواہ ہوں۔
والسلام
م۔م۔مغل

محمود بھائی معذرت کیسی، مجھے خوشی ہے کہ آپ ادھر توجہ فرما رہے ہیں۔ اور بھائی برزگ تو سانجھے ہوتے ہیں لہذا اگر آپ نے ایسا سنا تو ہم بھی احترام کرتے ہیں، گو میں نے بھی برزگوں کی کتابوں میں ویسا ہی دیکھا ہے جیسا پہلے لکھا ہے۔

جہاں تک وزن کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ شعر 'بحرِ ہزج مثّمن اخرب مکفوف محذوب' میں کہی ہوئی غزل کا ہے جسکا وزن


مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے

میرے خیال میں آپ کو تسامح اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ کہ آپ اسکے پہلے مصرع میں لفظ "میندیش" جسکا وزن "مفاعیل" ہے کو لفظ "مندیش" جسکا وزن 'مفعول' یا 'فاعیل' سمجھ رہے ہیں اور رکن کے آغاز میں ہونے والی ایک 'ہجائے کوتاہ' کی کمی 'چہ' سے پوری کر رہے ہیں۔

تقطیع دیکھتے ہیں۔

عرفی کا شعر

عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را

عرفی تُ - مفعول
مِ یندیش - مفاعیل
ز غو غا ء - مفاعیل
رقیبا - فعولن

آواز - مفعول
سگا کم نَ - مفاعیل
کُند رزق - مفاعیل
گدا را - فعولن

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ دونوں مصرعے موزوں ہیں اور ایک انتہائی مشہور و معروف اور عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں کی مستعمل بحر میں ہیں، اب اگر آپ لفظ میندیش کو مندیش (من دیش) پڑھیں تو 'چہ' کا اضافہ نا گزیر ہے اور وہی آپ کر رہے ہیں۔


محمود بھائی میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس تھریڈ کو خوبصورت فارسی اشعار سے نوازتے رہیں گے، اور یقین مانیں مجھے فارسی کا ہر شعر خوبصورت لگتا ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما


حضور الف نظامی صاحب یہ شعر تو اوپر سے گزر گیا - کچھ پلّے نہیں‌پڑا - اسکا اگر ترجمہ بھی عنائت کردیں‌تو مہربانی ہوگی -



فرخ بھائی یہ خوبصورت شعر حافظ شیرازی کا ہے اور اسکا مطلب کچھ یوں ہے کہ:

وہ کبھی نہیں مرتا جس کا دل عشق سے زندہ ہو گیا، ہمارا (عشاق کا) دوام دنیا کی تاریخ میں ثبت ہو چکا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
امیر خسرو کا ایک شعر، جسکا مصرعِ اولٰی انتہائی مشہور ہے

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من


میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
محمود بھائی معذرت کیسی، مجھے خوشی ہے کہ آپ ادھر توجہ فرما رہے ہیں۔ اور بھائی برزگ تو سانجھے ہوتے ہیں لہذا اگر آپ نے ایسا سنا تو ہم بھی احترام کرتے ہیں، گو میں نے بھی برزگوں کی کتابوں میں ویسا ہی دیکھا ہے جیسا پہلے لکھا ہے۔

جہاں تک وزن کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ شعر 'بحرِ ہزج مثّمن اخرب مکفوف محذوب' میں کہی ہوئی غزل کا ہے جسکا وزن


مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے

میرے خیال میں آپ کو تسامح اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ کہ آپ اسکے پہلے مصرع میں لفظ "میندیش" جسکا وزن "مفاعیل" ہے کو لفظ "مندیش" جسکا وزن 'مفعول' یا 'فاعیل' سمجھ رہے ہیں اور رکن کے آغاز میں ہونے والی ایک 'ہجائے کوتاہ' کی کمی 'چہ' سے پوری کر رہے ہیں۔

تقطیع دیکھتے ہیں۔

عرفی کا شعر

عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را

عرفی تُ - مفعول
مِ یندیش - مفاعیل
ز غو غا ء - مفاعیل
رقیبا - فعولن

آواز - مفعول
سگا کم نَ - مفاعیل
کُند رزق - مفاعیل
گدا را - فعولن

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ دونوں مصرعے موزوں ہیں اور ایک انتہائی مشہور و معروف اور عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں کی مستعمل بحر میں ہیں، اب اگر آپ لفظ میندیش کو مندیش (من دیش) پڑھیں تو 'چہ' کا اضافہ نا گزیر ہے اور وہی آپ کر رہے ہیں۔


محمود بھائی میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس تھریڈ کو خوبصورت فارسی اشعار سے نوازتے رہیں گے، اور یقین مانیں مجھے فارسی کا ہر شعر خوبصورت لگتا ہے :)

۔

برادرم محمد وارث
آپ نے بہت بہتر انداز میں اور عروضی طور پر مصرعہ کے وزن کے متعلق وضاحت فرمائی میں آپ کی بات سے مکمل طور پر اتفاق کرتتے ہوئے اتنا کہنا چاہوں گا کہ شعر کے لیے صرف موزوں ہونا ہی کافی نہیں ہوتا
کیا کوئی ایسا کلام جو بے معنی ہو صرف موزوں ہونے کی بنا پر شعر کے درجہ پر فائز ہو جائے گا ؟؟ ہرگز نہیں عروض اور اوزان کے حوالے سے تو آپ نے بطریق احسن ثابت کر دیا کہ عرفی کے شعر کے مصرعہ اول میں لفظ "چہ" کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ بھی بتا دیا کہ جب میندیش کو مندیش پڑھا جائے گا تو لازما وزن پورا کرنے کے لیے اس میں "چہ" کو داخل کرنا پڑے گا میں اس بات کو یوں آآگے بڑھائوں گا کہ میندیش کو اگر "مندیش" بھی پڑھ لیا جائے تو بھی معنوی اعتبار سے لفظ "چہ" کا اضافہ کسی طور درست نہیں ہوگا اور اگر آپ کو وزن پورا کرنے کے لیے کوئی لفظ مزید داخل بھی کرنا پڑا تو وہ لفظ "چہ" نہیں ہوگا البتہ "چہ" کا ہم وزن ہونا چاہیے ہوگا۔
اب ذرا اس مصرع کے معانی اور لغت کے اعتبار سے اس کا جائزہ لیتے ہیں
1۔۔ عرفی شاعر کا تخلص ہے جس کے ذریعہ شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہے
2۔۔ تو ۔۔۔ حرف تخاطب بھی ہے اور واحد حاضر کی ضمیر بھی ہے
3۔۔ مییندیش ۔۔۔ یہی وہ لفظ ہے جس کو ہمیں تفصیل کے ساتھ کھولنا ہوگا اصل میں فارسی میں یہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی امر کی نہی بنانے کے لیے اس کے شروع میں "نہ" یا "مہ" اضافہ کر دیا جاتا ہے جیسے مہ کن اور نہ رو وغیرہ اور جب ان الفاظ کو امر کے ساتھ جوڑ کر لکھا جاتا ہے تو ان الفاظ کی ہ حذف کر دی جاتی ہے جیسے "مکن" اور "نرو" اسی طرح اگر فعل امر الف سے شروع ہوتا ہو "آ" یا "آر" وغیرہ تو ان الفاظ کے ساتھ نہی کے حروف کو اکٹھا لکھنے کہ صورت میں نہ صرف "نہ" یا "مہ" کی "ہ" حذف ہوتی ہے بلکہ الف سے شروع ہونے والے امر کی الف "ی" میں بدل جاتی ہے جیسے "نہ آ" سے "نیا" یا "میا" ہو نہ آر یا مہ آر سے "نیار" یا "میار" وغیرہ بالکل اسی طرح ہمارا لفظ "نہ اندیش" یا "مہ اندیش" ہے جو "مہ" اور "اندیش" کی متصل صورت کتابت ہے جس میں مہ کی "ہ" حذف اور "اندیش" کی الف "ی" میں تبدیل ہو کر "میندیش" بن گیا ہے جس کے معنی ہیں فکر نہ کر ، فکر مند نہ ہو یا اندیشہ نہ رکھ
4۔۔۔ زغوعائے رقیباں ۔۔۔۔ یہ بھی دو لفظوں سے مل کر بنا ہے "از" اور "غوغائے" جس می"از" کی الف کو ضرورت شعری کے تحت محذوف رکھا گیا ہے اور یوں یہ لفظ "زغوغائے" بن گیا ہے جس کے معنی ہیں "رقیبوں کے غوغا سے"

اب اس کا سادہ ترجمہ کریں

اے عرفی ۔۔ تو ۔۔ اندیشہ نہ کر۔۔۔ رقیبوں کے غوغا سے

اب اس کو با محاورہ بنا لیں

اے عرفی رقیبوں کے غوغا سے فکرمند نہ ہو

بڑی واضح بات ہے
اب بتایئے اس میں "چہ" کی گنجائش کہاں ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
سیدہ شکفتہ نے کہا:
ہر کجا رفتم غبارِ زندگی درپیش بُود
یارب این خاکِ پریشاں از کجا برداشتم

اندازے سے ترجمہ کر رہا ہوں اگر کوئی غلطی ہو تو نشاندہی کر دیں -
(میں) جس راہ پر بھی چلتا ہوں زندگی کا غبار میرے آڑے آتا ہے - یارب ایسی خاکِ پریشاں کو مجھےکب تک برداشت کرنا پڑے گا-

بس میں اتنی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ

برداشتم کا مصدر برداشتن ہے جس کے معنی ہیں "اٹھانا" "حاصل کرنا" وغیرہ
باقی ترجمہ اس کے مطابق خود بخود درست ہو جائے گا

(میں) جس راہ بھی چلا زندگی کا غبار میرے سامنے تھا - یارب ایسی خاکِ پریشاں میں نے کہاں سے اٹھائی ہے ۔

یعنی ﴿یا اللہ تو نے مجھے کیسی پریشان خاک سے بنایا ہے کہ میں جس راہ بھی چلا زندگی کا غبار میرے سامنے تھا﴾

غبارِ زندگی کے ساتھ خاکِ پریشاں ۔۔۔ کیا خوب قرینہ ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
برادرم محمد وارث
آپ نے بہت بہتر انداز میں اور عروضی طور پر مصرعہ کے وزن کے متعلق وضاحت فرمائی میں آپ کی بات سے مکمل طور پر اتفاق کرتتے ہوئے اتنا کہنا چاہوں گا کہ شعر کے لیے صرف موزوں ہونا ہی کافی نہیں ہوتا
کیا کوئی ایسا کلام جو بے معنی ہو صرف موزوں ہونے کی بنا پر شعر کے درجہ پر فائز ہو جائے گا ؟؟ ہرگز نہیں عروض اور اوزان کے حوالے سے تو آپ نے بطریق احسن ثابت کر دیا کہ عرفی کے شعر کے مصرعہ اول میں لفظ "چہ" کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ بھی بتا دیا کہ جب میندیش کو مندیش پڑھا جائے گا تو لازما وزن پورا کرنے کے لیے اس میں "چہ" کو داخل کرنا پڑے گا میں اس بات کو یوں آآگے بڑھائوں گا کہ میندیش کو اگر "مندیش" بھی پڑھ لیا جائے تو بھی معنوی اعتبار سے لفظ "چہ" کا اضافہ کسی طور درست نہیں ہوگا اور اگر آپ کو وزن پورا کرنے کے لیے کوئی لفظ مزید داخل بھی کرنا پڑا تو وہ لفظ "چہ" نہیں ہوگا البتہ "چہ" کا ہم وزن ہونا چاہیے ہوگا۔
اب ذرا اس مصرع کے معانی اور لغت کے اعتبار سے اس کا جائزہ لیتے ہیں
1۔۔ عرفی شاعر کا تخلص ہے جس کے ذریعہ شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہے
2۔۔ تو ۔۔۔ حرف تخاطب بھی ہے اور واحد حاضر کی ضمیر بھی ہے
3۔۔ مییندیش ۔۔۔ یہی وہ لفظ ہے جس کو ہمیں تفصیل کے ساتھ کھولنا ہوگا اصل میں فارسی میں یہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی امر کی نہی بنانے کے لیے اس کے شروع میں "نہ" یا "مہ" اضافہ کر دیا جاتا ہے جیسے مہ کن اور نہ رو وغیرہ اور جب ان الفاظ کو امر کے ساتھ جوڑ کر لکھا جاتا ہے تو ان الفاظ کی ہ حذف کر دی جاتی ہے جیسے "مکن" اور "نرو" اسی طرح اگر فعل امر الف سے شروع ہوتا ہو "آ" یا "آر" وغیرہ تو ان الفاظ کے ساتھ نہی کے حروف کو اکٹھا لکھنے کہ صورت میں نہ صرف "نہ" یا "مہ" کی "ہ" حذف ہوتی ہے بلکہ الف سے شروع ہونے والے امر کی الف "ی" میں بدل جاتی ہے جیسے "نہ آ" سے "نیا" یا "میا" ہو نہ آر یا مہ آر سے "نیار" یا "میار" وغیرہ بالکل اسی طرح ہمارا لفظ "نہ اندیش" یا "مہ اندیش" ہے جو "مہ" اور "اندیش" کی متصل صورت کتابت ہے جس میں مہ کی "ہ" حذف اور "اندیش" کی الف "ی" میں تبدیل ہو کر "میندیش" بن گیا ہے جس کے معنی ہیں فکر نہ کر ، فکر مند نہ ہو یا اندیشہ نہ رکھ
4۔۔۔ زغوعائے رقیباں ۔۔۔۔ یہ بھی دو لفظوں سے مل کر بنا ہے "از" اور "غوغائے" جس می"از" کی الف کو ضرورت شعری کے تحت محذوف رکھا گیا ہے اور یوں یہ لفظ "زغوغائے" بن گیا ہے جس کے معنی ہیں "رقیبوں کے غوغا سے"

اب اس کا سادہ ترجمہ کریں

اے عرفی ۔۔ تو ۔۔ اندیشہ نہ کر۔۔۔ رقیبوں کے غوغا سے

اب اس کو با محاورہ بنا لیں

اے عرفی رقیبوں کے غوغا سے فکرمند نہ ہو

بڑی واضح بات ہے
اب بتایئے اس میں "چہ" کی گنجائش کہاں ہے


واقعی شاکر بھائی عرفی کے اس لازوال شعر میں معنوی و عروضی لحاظ سے کسی بھی لفظ کے اضافے کی گنجایش نہیں ہے۔

'میندیش' کا یہ مطلب میرے ذہن میں واضح تھا لیکن یقیناً اس شرح و بسیط کے ساتھ میں اسے کسی طور بھی بیان نہیں کر سکتا تھا یہ تو آپ جیسے اساتذہ کا ہی کام ہے، اور اس لفظ پر روشنی ڈالنے کیلیئے میں آپ کا ممنون و شکر گزار ہوں۔

اور خوشی کی بات یہ ہے کہ محمود مغل صاحب نے بھی اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے۔

اور آخر میں ایک بات کہ برادرم کوئی فارسی شعر بھی (مع ترجمہ :)) عنایت فرمائیں، میں جانتا ہوں کہ آپ کو فارسی کے سینکڑوں شعر از بر ہونگے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حافظ شیرازی کی ایک خوبصورت غزل کے تین خوبصورت ترین اشعار

تُو و طوبٰی و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست


تو اور طوبیٰ (کا خیال) ہے میں (ہوں) اور دوست کا قد و قامت، ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔


من کہ سر در نیاورَم بہ دو کون
گردنم زیرِ بارِ منّتِ اوست


میں جو کہ دونوں جہاں کے سامنے سر نہیں جھکاتا (لیکن) میری گردن اسکے احسان کی زیر بار ہے۔


فقرِ ظاہر مَبیں کہ حافظ را
سینہ گنجینۂ محبّتِ اوست

حافظ کے ظاہری فقر (بے سر و سامانی، وغیرہ) کو نہ دیکھو کہ اسکا سینہ تو اسکی (دوست کی) محبت کا خزانہ ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
خواجہ حافظ شیرازی کا ایک شعر

ن۔گارِ من کہ بہ مکتب نہ رفت و خط نہ نوشت
بہ غم۔۔۔زہ مسئل۔۔ہ آم۔۔وزِ ص۔۔د م۔۔درس ش۔۔د

میرا معشوق جس نے نہ کبھی مکتب و مدرسہ کی راہ دیکھی اور نہ کبھی تختی لکھی ۔ لیکن اپنی ایک ادا کے ذریعہ ایک سو مدرسوں کے مسائل حل کردیتا ہے
 

حسن نظامی

لائبریرین
مولوی رومی کی غزل کا ایک شعر۔


دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

کل (ایک) شیخ چراغ لیئے سارے شہر کے گرد گھوما کیا (اور کہتا رہا) کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کا آزرو مند ہوں۔


دی - گزرا ہوا کل
کز - کہ از کا مخفف
دد - درندہ
ترمیم کے بعد
نوٹ : محترم میرا خیال ہے کہ دام و دد ہے ۔۔ دیو نہیں ہے ۔۔۔ دام مراد پالتو جانور ۔۔ اور دد مراد جنگلی جانور ۔۔ بہرحال آپ تصدیق کر لیں ۔۔

مولانا روم کے یہ اشعار مثنوی اسرار و رموز میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی دیے ہیں ۔۔
اگلے اشعار یہ ہیں ۔
زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رسم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم کہ آرزوست

ترجمہ

زین = از این = ان سے
ہمرہان سست عناصر = سست الوجود ہمراہی
دلم گرفت = محاورہ (دل کا پریشان ہونا)
شیر خدا = مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا لقب
و=اور
رستم دستانم = مشہور زمانہ پہلوان رستم (دستانم کا بیٹا رستم )
آرزوست=آرزو +است =آرزو ہے
گفتم = میں نے کہا
کہ یافت می نشود = کہ انہیں نہیں پا سکا
جستہ ایم ما = میں نے تلاش کیا ہے
گفت آنکہ = شیخ نے کہا وہ جو کہ
یافت می نشود = پائے نہیں جا سکے
آنم کہ آرزوست = مجھے انہیں کی آرزو ہے ۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند کہ تو تنہا داری

ترجمہ: معلوم نہیں

شاعر: شاید علامہ اقبال
 

محمد وارث

لائبریرین
حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند کہ تو تنہا داری

ترجمہ: معلوم نہیں

شاعر: شاید علامہ اقبال

بہت شکریہ قیصرانی صاحب اس خوبصورت نعتیہ شعر کیلیئے۔

دوسرے مصرعہ میں 'کہ' نہیں ہے یعنی صحیح شعر کچھ یوں ہے

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری


اور اس شعر کے خالق مشہور شاعر مولانا عبدالرحمن جامی ہیں اور مطلب کچھ یوں ہے کہ

آپ (ص) رکھتے ہیں یوسف (ع) کا حسن، عیسٰی (ع) کا دم (وہ الفاظ جس سے وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے) اور موسٰی (ع) کا سفید ہاتھ والا معجزہ یعنی کہ وہ تمام کمالات جو باقی سب حسینوں (نبیوں) کے پاس تھے وہ تنہا آپ (ص) کی ذات میں اللہ نے جمع کر دیئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چون نیست تاب برق تجلی کلیم را

کی در سخن بہ غالب آتش بیان رسد



واہ واہ محمود صاحب کیا خوب شعر ارسال فرمایا آپ نے، غالب کی تعلی عروج پر ہے اس شعر میں۔

ترجمہ: جب کلیم (ع) کو برقِ تجلی برداشت کرنے کی تاب نہیں ہے تو وہ سخن میں غالبِ آتش بیاں تک کیونکر پہنچ سکتے ہیں۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال
فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد

اقبال نہ شیخِ شہر ہے، نہ شاعر اور نہ ہی خرقہ پوش (صوفی) ہے۔ وہ تو راہ نشیں فقیر ہے اور دل غنی رکھتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خلق می گوید کہ خسرو بُت پرستی می کُند
آرے آرے می کنم، با خلق ما را کار نیست

لوگ کہتے ہیں کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں کرتا ہوں مجھے لوگوں سے کوئی کام نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گماں مبر کہ بپایاں رسیدِ کارِ مغاں
ہزار بادہء نوشیدنی در رگِ‌ تاک است
(اقبال)

شکریہ فرخ بھائی اس شعر کیلیئے۔

یہ شعر اقبال کی کتاب 'پیام مشرق' کی ایک چار اشعار پر مشتمل نظم 'حیاتِ جاوید' کا پہلا شعر ہے۔ اور کلیات اقبال فارسی (شیخ غلام علی اینڈ سنز، 1973) میں، مَیں نے یہ شعر ایسے دیکھا ہے (دوسرے مصرعے میں لفظ 'نوشیدنی' کی جگہ لفظ 'نا خوردہ' ہے۔)


گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ نا خوردہ در رگِ تاک است


ترجمہ:
یہ خیال نہ کر کے کارِ مغاں ختم ہو چکا ہے، (ابھی تک) ہزاروں (قسم کی) نہ پی گئیں شرابیں انگور کی بیل میں ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عشق اگر مَرد است، مَردے تابِ دیدار آورد
ورنہ چوں موسیٰ بسے آورد بسیار آورد

(عرفی شیرازی)

اگر عشق بلند ہمتی کا نام ہے تو وہ مرد آئے جسے تابِ دیدار ہو، ورنہ جسطرح موسیٰ آئے تھے تو اسطرح کے بہت آتے ہیں۔
 
Top