محمد وارث

لائبریرین
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری


(امیر خسرو دہلوی)

میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شورے شُد و از خوابِ عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ، غنودیم


(غزالی مشہدی)

ایک شور بپا ہوا اور ہم نے خوابِ عدم سے آنکھ کھولی، دیکھا کہ شبِ فتنہ ابھی باقی ہے تو ہم پھر سو گئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بسازِ حادثہ ہم نغمہ بُودن آرام است
اگر زمانہ قیامت کُنَد تو طوفان باش


(مرزا عبدالقادر بیدل)

حادثہ کے ساز کے ساتھ ہم نغمہ ہونا (سُر ملانا) ہی آرام ہے، اگر زمانہ قیامت بپا کرتا ہے تو تُو طوفان بن جا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را


(شاعر: نا معلوم)

کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر، اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فرخ بھائی اس شعر کیلیئے۔

یہ شعر اقبال کی کتاب 'پیام مشرق' کی ایک چار اشعار پر مشتمل نظم 'حیاتِ جاوید' کا پہلا شعر ہے۔ اور کلیات اقبال فارسی (شیخ غلام علی اینڈ سنز، 1973) میں، مَیں نے یہ شعر ایسے دیکھا ہے (دوسرے مصرعے میں لفظ 'نوشیدنی' کی جگہ لفظ 'نا خوردہ' ہے۔)


گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ نا خوردہ در رگِ تاک است


ترجمہ:

یہ خیال نہ کر کے کارِ مغاں ختم ہو چکا ہے، (ابھی تک) ہزاروں (قسم کی) نہ پی گئیں شرابیں انگور کی بیل میں ہیں۔

۔

بہت شکریہ تصحیح کے لیے واقعی یہ ایسے ہی ہے - میں نے درست کر دیا ہے - آپ کی عظمت کو سلام :)
 

محمد وارث

لائبریرین
خلل پزیر بَوَد ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبّت کہ خالی از خلل است


(حافظ شیرازی)

خلل پزیر (بگاڑ والی) ہے ہر وہ بنیاد جو کہ تُو دیکھتا ہے، ما سوائے مَحبّت کی بنیاد کہ وہ (ہر قسم کے) خلل سے خالی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کسے را کہ شیطاں بَوَد پیشوا
کجا باز گردد براہِ خدا


(سعدی شیرازی)

جس کا راہ نُما شیطان ہو، وہ کب خدا کی راہ پر واپس آتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوش بَوَد فارغ ز بندِ کفر و ایماں زیستن
حیف کافر مُردن و آوخ مسلماں زیستن


(غالب دہلوی)

کفر اور ایمان کی الجھنوں سے آزاد زندگی بہت خوش گزرتی ہے، افسوس کفر کی موت پر اور وائے مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے پر۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غلامی

آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد


یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد


(اقبال لاہوری، پیامِ مشرق)

آدمی اپنی بے بصری (اپنی حقیقت سے بے خبری) کی بنا پر آدمی کی غلامی کرتا ہے، وہ (آزادی و حریت) کا گوہر تو رکھتا ہے لیکن اسے قباد و جمشید (سے بادشاہوں) کی نذر کر دیتا ہے۔

یعنی اس غلامی کی عادت میں وہ کتوں سے بھی زیادہ خوار ہوتا ہے، (کیونکہ) میں نے نہیں دیکھا کہ (کبھی) کسی کتے نے دوسرے کتے کے سامنے سر خم کیا ہو۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است

محترمی بہت خوب ۔۔

شاید یہی وہ شعر ہے جس کے سماع کے وقت خواجہ بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کی روح مبارک سفر آخرت پر روانہ ہوئی تھی ۔۔ تین دن سماع جاری رہا تھا ۔ پہلے شعر پر آپ پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی جب کہ دوسرے شعر پر آپ ہوش میں آجاتے ۔۔
لیکن یہ شعر کس شاعر کا ہے ؟ ہنوز یہ سوال باقی ہے ۔۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
نذیر نیشاپوری ﴿ ایران کے مشہور شاعر ﴾ کا شعر جو اقبال نے مثنوی اسرار و رموز کے شروع میں درج کیا ہے ۔

نیست در خشک و تری بیشہ من کوتاہی
چوب ہر نخل کہ منبر نہ شود دار کنم

ترجمہ :

نیست = نہ + است
در = میں
خشک و تر = سوکھے اور گیلے
بیشہ=جنگل
من = میرے
کوتاہی= کمی
چوب=لکڑی
ہر نخل= ہر درخت
منبر نشود=منبر نہ ہو (جس سے منبر نہ بنے)
دار کنم = میں سولی بنا لیتا ہوں

لفظ دار میں منصور حلاج کی طرف اشارہ ہے ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نذیر نیشاپوری ﴿ ایران کے مشہور شاعر ﴾ کا شعر جو اقبال نے مثنوی اسرار و رموز کے شروع میں درج کیا ہے ۔

نیست در خشک و تری بیشہ من کوتاہی

چوب ہر نخل کہ منبر نہ شود دار کنم


ترجمہ :

نیست = نہ + است
در = میں
خشک و تر = سوکھے اور گیلے
بیشہ=جنگل
من = میرے
کوتاہی= کمی
چوب=لکڑی
ہر نخل= ہر درخت
منبر نشود=منبر نہ ہو (جس سے منبر نہ بنے)
دار کنم = میں سولی بنا لیتا ہوں

لفظ دار میں منصور حلاج کی طرف اشارہ ہے ۔

بہت شکریہ حسن نظامی صاحب اس خوبصورت شعر کیلیئے۔

شاعر کا صحیح نام 'نظیری نیشا پوری' ہے اور شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ 'تری' نہیں بلکہ 'تر' ہے یعنی

نیست در خشک و ترِ بیشۂ من کوتاہی
چوبِ ہر نخل کہ منبر نشَوَد دار کنم


نہیں ہے میرے جنگل ( خدا کی دنیا) میں کوئی بھی خشک و تر چیز بیکار، جس درخت کی لکڑی سے منبر نہیں بن سکتا میں اس سے سولی بنا لیتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ترمیم کے بعد



نوٹ : محترم میرا خیال ہے کہ دام و دد ہے ۔۔ دیو نہیں ہے ۔۔۔ دام مراد پالتو جانور ۔۔ اور دد مراد جنگلی جانور ۔۔ بہرحال آپ تصدیق کر لیں ۔۔

مولانا روم کے یہ اشعار مثنوی اسرار و رموز میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی دیے ہیں ۔۔
اگلے اشعار یہ ہیں ۔
زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رسم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم کہ آرزوست

ترجمہ

زین = از این = ان سے
ہمرہان سست عناصر = سست الوجود ہمراہی
دلم گرفت = محاورہ (دل کا پریشان ہونا)
شیر خدا = مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا لقب
و=اور
رستم دستانم = مشہور زمانہ پہلوان رستم (دستانم کا بیٹا رستم )
آرزوست=آرزو +است =آرزو ہے
گفتم = میں نے کہا
کہ یافت می نشود = کہ انہیں نہیں پا سکا
جستہ ایم ما = میں نے تلاش کیا ہے
گفت آنکہ = شیخ نے کہا وہ جو کہ
یافت می نشود = پائے نہیں جا سکے
آنم کہ آرزوست = مجھے انہیں کی آرزو ہے ۔۔


شکریہ نظامی صاحب اس طرف توجہ کرنے کیلیئے۔

آپ نے بجا فرمایا کہ علامہ نے اسرار و رموز کے شروع میں مولانا رومی کی اس غزل کے جو تین اشعار دیئے ہیں ان میں انہوں نے مذکورہ شعر میں "دام" لکھا ہے، 'دیو' کی جگہ۔

لیکن 'جاوید نامہ' میں بھی اقبال نے اس غزل کے نو اشعار اپنے متن کا حصہ بنائے ہیں (رومی کی یہ غزل مجموعی طور پر 20 خوبصورت اشعار پر مشتمل ہے) اور یہاں پر 'دیو' ہی لکھا ہے۔ علامہ اقبال کی اس آفیشل ویب سائٹ پر 'جاوید نامہ' کا متن دیکھا جا سکتا ہے۔

مکمل غزل آپ اس فارسی ویب سائٹ پر ملاحظہ کر سکتے ہیں اور اس میں بھی 'دیو' ہی لکھا ہے۔

معنوی طور پر دیکھیں تو 'دیو' کا لفظ زیادہ بہتر ہے (دیو کا فارسی میں مجازاً مطلب شیطان بھی ہے) یعنی شعر کے سیاق و سباق میں انسان کے مقابلے میں شیطانوں اور درندوں کا ذکر زیادہ دل نشیں ہے بجائے انسان اور پالتو جانوروں اور درندوں کے ذکر کے۔

آپ نے اس توجہ فرمائی اس کیلیئے ایک بار پھر بہت شکریہ آپ کا محترم۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حافظ اگر سجدہ تو کرد مکن عیب
کافرِ عشق اے صنم گناہ ندارد


(حافظ شیرازی)

حافظ نے اگر تجھے سجدہ کیا تو کوئی عیب نہیں کہ اے صنم عشق کے کافر پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

ہر چند کہ رنگ و روئے زیباست مرا
چوں لالہ رخ و چو سرو بالاست مرا
معلوم نہ شد کہ در طرب خانۂ خاک
نقّاشِ ازل بہر چہ آراست مرا


(عمر خیام نیشاپوری)

ہر چند کہ میرا رنگ اور روپ بہت خوبصورت ہے، میں لالہ کے پھول کی طرح ہوں اور سرو کی طرح بلند قامت ہوں۔ لیکن معلوم نہیں کہ اس مٹی کے گھر میں جس میں نوحے بپا ہیں، قدرت نے مجھے اس قدر کیوں سجایا ہے۔

(پہلے مصرعے میں لفظ 'روئے' کی جگہ 'بُوئے' بھی ملتا ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
'اسرار و رموز' سے کچھ اشعار:

مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی


- اول مسلم شاہِ مرداں علی ہیں، عشق کیلیئے ایمان کا سرمایہ علی ہیں۔

از ولائے دودمانش زندہ ام
در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام


- میں انکے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں، اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں۔

از رُخِ اُو فال پیغمبر گرفت
ملتِ حق از شکوہش فر گرفت


- انکے چہرۂ مبارک سے پیغمبر (ص) فال لیا کرتے تھے، ملّتِ حق نے انکی شان و شوکت سے عزت حاصل کی۔

قوّتِ دینِ مُبیں فرمودہ اش
کائنات آئیں پذیر از دودہ اش


- آپ (ص) نے علی (ع) کو روشن اور غالب دین کی قوت فرمایا، دنیا نے آپکے خاندان سے آئین اور قانون حاصل کیا۔


مُرسلِ حق کرد نامش بُو تراب
حق ید اللہ خواند در امّ الکتاب


- اللہ کے سچے رسول (ص) نے آپ کو ابو تُراب کا نام (لقب) دیا، اللہ نے قرآن میں آپ کو ید اللہ (اللہ کا ہاتھ) قرار دیا۔


(اقبال لاہوری، اسرار و رموز، در شرحِ اسرارِ اسمائے علی مُرتضیٰ (رض)'
 

محمد وارث

لائبریرین
گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارۂ کوئے بتاں، آوارہ تر بادا

(امیر خسرو دہلوی)

اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔
 
Top