شکریہ فرخ بھائی اس شعر کیلیئے۔
یہ شعر اقبال کی کتاب 'پیام مشرق' کی ایک چار اشعار پر مشتمل نظم 'حیاتِ جاوید' کا پہلا شعر ہے۔ اور کلیات اقبال فارسی (شیخ غلام علی اینڈ سنز، 1973) میں، مَیں نے یہ شعر ایسے دیکھا ہے (دوسرے مصرعے میں لفظ 'نوشیدنی' کی جگہ لفظ 'نا خوردہ' ہے۔)
گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ نا خوردہ در رگِ تاک است
ترجمہ:
یہ خیال نہ کر کے کارِ مغاں ختم ہو چکا ہے، (ابھی تک) ہزاروں (قسم کی) نہ پی گئیں شرابیں انگور کی بیل میں ہیں۔
۔
بہت شکریہ تصحیح کے لیے واقعی یہ ایسے ہی ہے - میں نے درست کر دیا ہے - آپ کی عظمت کو سلام
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است
نذیر نیشاپوری ﴿ ایران کے مشہور شاعر ﴾ کا شعر جو اقبال نے مثنوی اسرار و رموز کے شروع میں درج کیا ہے ۔
نیست در خشک و تری بیشہ من کوتاہی
چوب ہر نخل کہ منبر نہ شود دار کنم
ترجمہ :
نیست = نہ + است
در = میں
خشک و تر = سوکھے اور گیلے
بیشہ=جنگل
من = میرے
کوتاہی= کمی
چوب=لکڑی
ہر نخل= ہر درخت
منبر نشود=منبر نہ ہو (جس سے منبر نہ بنے)
دار کنم = میں سولی بنا لیتا ہوں
لفظ دار میں منصور حلاج کی طرف اشارہ ہے ۔
ترمیم کے بعد
نوٹ : محترم میرا خیال ہے کہ دام و دد ہے ۔۔ دیو نہیں ہے ۔۔۔ دام مراد پالتو جانور ۔۔ اور دد مراد جنگلی جانور ۔۔ بہرحال آپ تصدیق کر لیں ۔۔
مولانا روم کے یہ اشعار مثنوی اسرار و رموز میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی دیے ہیں ۔۔
اگلے اشعار یہ ہیں ۔
زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رسم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم کہ آرزوست
ترجمہ
زین = از این = ان سے
ہمرہان سست عناصر = سست الوجود ہمراہی
دلم گرفت = محاورہ (دل کا پریشان ہونا)
شیر خدا = مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا لقب
و=اور
رستم دستانم = مشہور زمانہ پہلوان رستم (دستانم کا بیٹا رستم )
آرزوست=آرزو +است =آرزو ہے
گفتم = میں نے کہا
کہ یافت می نشود = کہ انہیں نہیں پا سکا
جستہ ایم ما = میں نے تلاش کیا ہے
گفت آنکہ = شیخ نے کہا وہ جو کہ
یافت می نشود = پائے نہیں جا سکے
آنم کہ آرزوست = مجھے انہیں کی آرزو ہے ۔۔