من بندهٔ آن رُوی که دیدن نگُذارند
دیوانهٔ زُلفی که کشیدن نگُذارند
(امیر خسرو دهلوی)

میں اُس چہرے کا غلام ہوں، کہ جس کو دیکھنے نہیں دیتے۔۔۔ میں ایسی زُلف کا دیوانہ ہوں کہ جس کو کھینچنے نہیں دیتے۔

× چونکہ مندرجۂ بالا بیت میں 'نگُذارند' کی شکل میں جمع شخصِ سوم کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اِس لیے مجھے گُمان ہوتا ہے کہ اِس فعل کا فاعل یار نہیں ہے، جو مُفرد و تنہا ہوتا ہے، بلکہ شاید یہاں شاعر کی مُراد یہ ہے کہ مردُم (لوگ) شاعر کو اُس کے یار کا چہرہ دیکھنے، اور زُلف کھینچنے نہیں دیتے۔
بلکل ایسا ہی ہے جمع غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہے جو آپ نے فرمایا وہ ٹھیک ہے
 

حسان خان

لائبریرین
مولانا حالی ایسے موقعوں کے لیے 'کارکنانِ قضا و قدر' کو استعمال کرتے تھے!
اِس نُکتے کی جانب متوجّہ کرنے کے لیے شکریہ۔ یقیناً یہاں 'کارکُنانِ قضا و قدر' بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ حافظ شیرازی نے بھی ایک مصرعے میں ایسا صیغہ کاتبانِ قضا و قدر کے لیے استعمال کیا ہے:
در کویِ نیک‌نامی ما را گُذر ندادند
 

حسان خان

لائبریرین
بِنازم آن سرِ زُلفِ سیه که نیم‌شبی
چو در خیالِ من آید، شبم دراز کند

(مُنشی چندربهان برهمن)
اُس سرِ زُلفِ سیاہ پر آفریں! کہ جو کسی نیم شب جب میرے خیال میں آئے تو میری شب کو دراز کر دے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
جنون بِیا که گریبانِ صبر پاره کنم
(نامعلوم)
اے جنون! آ جاؤ کہ میں گریبانِ صبر کو پارہ پارہ کر دوں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
ای خواجه نه نام و نه نشان خواهد مانْد
حَرفی دو سه بر سرِ زبان خواهد مانْد
هر چیز که هست از میان خواهد رفت
جُز نامِ خدا که در میان خواهد مانْد

(مُنشی چندربهان برهمن)
اے خواجہ! نہ نام اور نہ نشان باقی رہے گا۔۔۔ [فقط] دو تین حَرف بر سرِ زباں باقی رہ جائیں گے۔۔۔ جو چیز بھی موجود ہے وہ درمیان سے چلی جائے گی (یعنی معدوم و فنا ہو جائے گی)۔۔۔ بجُز نامِ خُدا، کہ جو درمیان میں باقی رہ جائے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُغل پادشاہ شہاب الدین محمّد شاہ جہاں کی مدح میں کہی گئی رباعی:
(رباعی)
شاهی که مُطیعِ او دو عالَم گردد
هر جا که سری‌ست پیشِ او خم گردد
از بس که به دورش آدمی یافت شرَف
خواهد که فرشته نیز آدم گردد

(مُنشی چندربهان برهمن)
یہ وہ شاہ ہے کہ جس کی دو عالَم اطاعت کرتے ہیں۔۔۔ جس جا بھی کوئی سر ہے وہ اُس کے پیش میں خم ہوتا ہے۔۔۔ اُس کے دور میں آدمی (انسان) نے اِتنا زیادہ شرَف پایا ہے کہ فرشتہ بھی خواہش کرتا ہے کہ آدم ہو جائے۔

اِس رباعی کا یہ متن بھی نظر آیا ہے:
شاهی که مُطیعِ او دو عالَم گردد
هر جا که سر است پیشِ او خم گردد
از بس آدم به دورِ او یافت شرَف
خواهد که فرشته نیز آدم گردد
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گُذشتی از نظر و بی تو زنده‌ایم هنوز
ز شرم آب نگشتیم، خاک بر سرِ ما

(آنند رام مُخلِص)
تم نظر سے چلے گئے اور ہم تمہارے بغیر ہنوز زندہ ہیں۔۔۔۔ ہم شرم سے آب نہ ہوئے، ہمارے سر پر خاک ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
مانندِ غُنچه گرچه خموشیم برهمن
لیکن پُر از نواست چو بُلبُل زبانِ ما

(مُنشی چندربهان برهمن)
اے برہمن! اگرچہ ہم غُنچے کی مانند خاموش ہیں، لیکن بُلبُل کی طرح ہماری زبان نوا سے پُر ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
معدوم گردد این همه موجود برهمن
باشد همیشه بر سرِ ما سایهٔ خدا

(مُنشی چندربهان برهمن)
اے برہمن! یہ سب موجودات معدوم ہو جائیں گی، [لیکن] خدا کا سایہ ہمارے سر پر ہمیشہ رہے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
حدیثِ عشق از گفتار و تکرار است مُستغنی
برهمن در محبّت کفر باشد قصه‌خوانی‌ها

(مُنشی چندربهان برهمن)
حدیثِ عشق گُفتار و تکرار سے مُستغی و بے نیاز ہے۔۔۔ اے برہمن! محبّت میں قصّہ خوانیاں کُفر ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آں کس کہ بہ تیغِ ستمِ عشقِ تو میرد
نبود ہوسِ زندگیش روزِ قیامت


میرزا شاہ حسین سپاہی

وہ کہ جو تیرے عشق کی تیغِ ستم سے مرتا ہے، اُس کو قیامت کے دن بھی زندگی کی خواہش نہیں ہوتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرد چو در راهِ توکُّل رود
خارِ مُغیلان به رهش گُل شود

(مُنشی چندربهان برهمن)
انسان جب توکُّل کی راہ میں چلتا ہے تو اُس کی راہ میں خارِ مُغیلاں گُل ہو جاتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون مُنجِّم دید طالع‌نامه‌ام خندید و گُفت
این پسر قایم‌مقامِ حضرتِ مجنون شود

(آنند رام مُخلِص)
جب نُجومی نے میرا طالع نامہ دیکھا تو وہ ہنسا اور بولا: یہ پِسر حضرتِ مجنوں کا قائم مقام بنے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما ندیدیم به چشمِ خود آه
گریه گویند اثر داشته است

(آنند رام مُخلِص)
[اگرچہ] کہتے ہیں کہ گِریے میں اثر ہوتا ہے [لیکن] آہ! ہم نے اپنی چشم سے [یہ] نہ دیکھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
غبارِ معصیت آیینهٔ دل تیره می‌دارد
مگر اشکِ ندامت صاف سازد زنگِ عصیانم

(مُنشی چندربهان برهمن)
غُبارِ معصیت آئینۂ دل کو تِیرہ و تاریک رکھتا ہے۔۔۔ شاید اشکِ ندامت میری نافرمانی و گناہ کے زنگ کو صاف کر دے۔
 

حسان خان

لائبریرین
قدرِ لعلِ او به جز عاشق نداند هیچ کس
قیمتِ یاقوت داند چشمِ گوهربارِ ما

(بهائی نند لال 'گویا')
اُس کے لعلِ [لب] کی قدر کو عاشق کے بجز دیگر کوئی شخص نہیں جانتا۔۔۔ یاقوت کی قیمت [فقط] ہماری چشمِ گوہربار جانتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر نَفَس گویا به یادِ نرگسِ مخمورِ او
باده‌هایِ شوق می نوشد دلِ هشیارِ ما

(بهائی نند لال 'گویا')
اے 'گویا'! اُس کی نرگس جیسی چشمِ مخمور کی یاد میں ہمارا دلِ ہوشیار ہر نَفَس شراب ہائے شوق پیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چِگونه برهمن از عشق اِحتِراز کند
که حُسن جلوه‌فروش است در زمانهٔ ما

(مُنشی چندربهان برهمن)
'برہمن' عشق سے کیسے پرہیز کرے؟ کہ ہمارے زمانے میں حُسن جلوہ فروش ہے۔
 
Top