محمد ریحان قریشی
محفلین
جو شخص بھی جان سے جاتا ہے آسمان پر قدم رکھتا ہے۔ جب رشتہ بے گرہ ہو جائے تو گہر سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔پای بر چرخ نهد هر که ز سر می گذرد
رشته چون بی گره افتد ز گهر می گذرد
جگر شیر نداری سفر عشق مکن
سبزه تیغ درین ره ز کمر می گذرد
در بیابان فنا قافله شوق من است
کاروانی که غبارش ز خبر می گذرد
دل دشمن به تهیدستی من می سوزد
برق ازین مزرعه با دیده تر می گذرد
گرمی لاله رخان قابل دل بستن نیست
که به یک چشم زدن همچو شرر می گذرد
در چنین فصل که نم در قدح شبنم نیست
خار دیوار ترا آب ز سر می گذرد
غنچه زنده دلی در دل شب می خندد
فیض، آبی است که از جوی سحر می گذرد
عارفان از سخن سرد پریشان نشوند
عمر گل در قدم باد سحر می گذرد
نسبت دامن پاک تو به گل محض خطاست
که سخن در صدف پاک گهر می گذرد
چون صدف مهر خموشی نزند بر لب خویش؟
سخن صائب پاکیزه گهر می گذرد
(صائب تبریزی)
اگر شیر کا جگر نہیں رکھتے تو عشق کا سفر مت کرو کہ اس راہ میں سبزۂ تیغ کمر سے گزرتا ہے۔(سبزہ زیادہ ہونا غالباً باعثِ دشواری ہے)
فنا کے صحرا میں ہمارا قافلۂ شوق وہ کارواں ہے کہ جس کے غبار کی بھی کوئی خبر پائی نہیں جاتی(غبار بھی لاپتا ہو جاتا ہے)۔
دشمن کا دل میری غربت پر جلتا ہے، اس(میرے) مزرعہ سے برق بھی بھیگی آنکھیں لے کر گزرتی ہے۔(حسنِ تعلیل نے شعر کو بہت بلند کر دیا ہے)
لالہ رخوں کی گرمی کے باعث ان پر دل نہیں ہارنا چاہیے کہ وہ آنکھ کے ایک بار پھڑکنے میں ہی شرر کی طرح ختم ہو جاتی ہے۔
ایسے باغ میں کہ جہاں شبنم کی صراحی میں نمی نہیں، تیری دیوار کے کانٹے کا پانی سر سے گزرتا ہے۔
زندہ دلی کا غنچہ شب کے دل میں چٹکتا ہے، فیص وہ آب ہے کہ جو صبح کی ندی سے گزرتا ہے۔
عارف سرد باتوں سے پریشاں نہیں ہوتے کہ گل کی عمر بادِ سحر کے قدموں میں گزرتی ہے۔
تیرے پاک دامن کے ساتھ گل کی نسبت محض ایک خطا ہے کہ سخن گھر کی پاک صدف میں سے گزرتا ہے۔
صدف کیوں نہ مہرِ خموشی اپنے لب پر لگا لے کہ صائبِ پاکیزہ گہر کا سخن گزر رہا ہے۔(حسنِ تعلیل)
(اغلاط کا احتمال موجود ہے)
آخری تدوین: