حسان خان

لائبریرین
"مرا عشقِ بُتانِ سیم‌تن نیست
روانِ من اسیرِ اهرِمن نیست
سرم نذرِ رهِ زحمت‌کشان است
دلم جُز خانهٔ عشقِ وطن نیست!"

(بارِق شفیعی)
مجھے بُتانِ سیم تن کا عشق نہیں ہے۔۔۔ میری جان شیطان کی اسیر نہیں ہے۔۔۔ میرا سر محنت کشوں کی راہ میں قُربان ہے۔۔۔ میرا دل خانۂ عشقِ وطن کے بجز [کچھ] نہیں ہے۔

×شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
افغان اِشتِراکی شاعر 'سُلیمان لایق' کے نام ۱۹۷۸ء میں لکھی گئی نظم 'شاعرِ نبردها' کے آخری دو بندوں میں تاجک شاعر 'لایق شیرعلی' کہتے ہیں:

"ما نه تنها هم‌جوار و هم‌حُدود،
هم‌دِلیم و هم‌صفیر و هم‌سُرود.
سُویِ تو، ای لایقِ رزم و نبرد،
می‌فِرِستد لایقِ عاشق دُرود!

بینِ ما مِهر و وفا و یاری باد!
در همه مشرق علَم‌برداردی باد!
بینِ ما دریایِ آمو جاری بود،
بعد از این دریایِ دل‌ها جاری باد!"

(لایق شیرعلی)

ہم فقط ہم جوار و ہم حُدود نہیں ہیں، [بلکہ] ہم دل و ہم صدا و ہم سُرود [بھی] ہیں۔۔ اے رزم و نبرد کے 'لائق'! تمہاری جانب 'لائقِ' عاشق سلام بھیجتا ہے!
ہمارے درمیان محبّت و وفا و یاری ہو!۔۔۔ تمام مشرق میں علَم برداریِ [انقلاب] ہو!۔۔۔ ہمارے درمیان دریائے آمو جاری تھا۔۔۔ اِس کے بعد سے دِلوں کا دریا جاری ہو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سازِ من از سوزِ مشرق در خُروش
ذوقِ من از طبعِ مشرق باده‌نوش

(سلیمان لایق)
میرا ساز دیارِ مشرق کے سوز سے خُروش میں ہے۔۔۔ میرا ذوق دیارِ مشرق کی طبع سے بادہ نوش ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"غمی دارم درونِ سینهٔ ریش
که پیش از گُفتنش سوزد گلویم"

(سلیمان لایق)
میں [اپنے] سینۂ زخمی میں ایک [ایسا] غم رکھتا ہوں کہ جس کو بولنے سے قبل [ہی] میرا گلا جل جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"دلی آور، که غم را خانه گردد،
شرابِ کهنه را پیمانه گردد،
چو عشقی سر دِهد وحشی سُرُودی،
بیابانی شود، دیوانه گردد."

(سلیمان لایق)
ایک [ایسا] دل لاؤ کہ جو غم کا گھر بن جائے، شرابِ کُہنہ کا پیمانہ بن جائے، [اور] جب کوئی عشق کوئی وحشی نغمہ شروع کرے تو وہ بیابانی و وحشی ہو جائے [اور] دیوانہ بن جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"دلِ ما زَورقِ دریایِ خون بِه،
سرِ ما ره‌رَوِ راهِ جنون بِه.
بِیا، طرحِ جهانِ نو بِریزیم،
که این فرسوده دنیا واژگون بِه!"

(سلیمان لایق)
ہمارے دل کا دریائے خون کی کشتی ہونا بہتر ہے۔۔۔ ہمارے سر کا راہِ جنوں کا راہی ہونا بہتر ہے۔۔۔ آؤ، ہم جہانِ نَو کی بُنیاد ڈالیں۔۔۔ کہ اِس فرسودہ دنیا کا مُنقلِب ہو جانا بہتر ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
افغان اِشتِراکی شاعر 'سُلیمان لایق' اپنے وطن افغانستان کے لیے کہی گئی نظم 'دوست دارم این وطن را' کے ایک بند میں کہتے ہیں:
"دوست دارم این وطن را --
خاکِ او را،
ابرهایِ مست و هیبت‌ناکِ او را،
رُودهایِ باغی و بی‌باکِ او را."

(سلیمان لایق)
میں محبوب رکھتا ہوں اِس وطن کو --
اُس کی خاک کو،
اُس کے مست و ہیبت ناک ابروں کو،
اُس کے باغی و بے باک دریاؤں کو۔
 

حسان خان

لائبریرین
افغان اِشتِراکی شاعر 'سُلیمان لایق' اپنے وطن افغانستان کے لیے کہی گئی نظم 'دوست دارم این وطن را' کے ایک بند میں کہتے ہیں:
"دوست دارم این وطن را --
ظُلمتِ شب‌هایِ او را،
در نبردِ زندگانی جادهٔ غم‌هایِ او را،
خلقِ بی‌همتایِ او را.
در اُفُق‌هایِ زمان اِستارهٔ فردایِ او را،
رزمِ او را، فتحِ او، آیندهٔ زیبایِ او را!"

(سلیمان لایق)
میں محبوب رکھتا ہوں اِس وطن کو --
اُس کی شبوں کی تاریکی کو،
زندگانی کی جنگ و جِدال میں اُس کے غموں کی شاہراہ کو،
اُس کے بے نظیر مردُم کو۔
زمانے کے آفاق میں اُس کے ستارۂ فردا کو،
اُس کی رزْم کو، اُس کی فتح کو، [اور] اُس کے آئندۂ زیبا کو!
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
آرے عجب نباشد، گر در دلم نیائی
در کلبۂ گدایاں، سلطاں چہ کار دارد


شیخ فخرالدین عراقی

اگر تُو میرے دل میں نہیں آتا تو ہاں اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے، فقیروں کی جھونپڑی میں بھلا بادشاہ کا کیا بھی کام؟

(عراقی کے مطبوعہ کلیات میں یہ شعر ایسے ہی درج ہے لیکن 'گنجور' پر 'نیائی' کی جگہ 'نیابی' لکھا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
مردِ صاحب‌دل رساند فیض در موت و حیات
شاخِ گُل چون خشک گردد وقتِ سرما آتش است

(بابا فغانی شیرازی)
مردِ صاحب دل موت و حیات [دونوں حالتوں میں] فیض پہنچاتا ہے۔۔۔ شاخِ گُل جب خشک ہو جاتی ہے تو بہ وقتِ سرما آتش [بن جاتی] ہے۔ (یعنی سرما میں اُس کو جلا کر فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
در فراقِ تو چه‌ها ای بُتِ محبوب کنم
صبرِ ایّوب کنم گریهٔ یعقوب کنم

(مُخلص کاشی)
اے بُتِ محبوب! تمہارے فراق میں مَیں کیا کیا کرتا ہوں۔۔۔ صبرِ ایّوب کرتا ہوں، گریۂ یعقوب کرتا ہوں۔

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا
صبرِ ایّوب کیا، گریۂ یعقوب کیا

(شیخ شرف الدین مضمون)

مأخذ: آبِ حیات، محمد حُسین آزاد
 

حسان خان

لائبریرین
بسمل شنیده‌ایم کلامِ تو شعر نیست
غم‌نغمه‌ای‌ست گشته ز تارِ نفَس بلند

(محمد انور بسمل)
اے بسمل! ہم نے سُنا ہے، تمہارا کلام شاعری نہیں ہے [بلکہ] ایک نغمۂ غم ہے کہ جو تارِ نفَس سے بلند ہوا ہے۔

× شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نه لُطفِ فیضِ شباب و نه شورِ شامِ شراب
سبو شکسته، مُغان رفت، بوستان خالی‌ست

(سلیمان لایق)
[اب] نہ فیضِ شباب کا لُطف ہے اور نہ شامِ شراب کا شور و غوغا۔۔۔ سبُو ٹوٹ گیا ہے، پیرِ مُغاں چلا گیا، اور بوستان خالی ہے۔

×شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرا به بالِ تو سَوگند، ای کبوترِ عشق
که عرصه‌هایِ وفا تا به کهکشان خالی‌ست

(سلیمان لایق)
اے کبوترِ عشق! مجھے تمہارے بال و پر کی قسم! کہ وفا کے میدان کہکشاں تک خالی ہیں۔
 
آخری تدوین:
آں جملہ رسل ہادی برحق کہ گزشتند

برفضلِ تو اے ختم رسل دادہ گواہی

(آج تک جتنے سچے رسول گزرے ہیں، ائے خاتم المرسلین ! سب نے آپ کی بزرگی کی گواہی دی ہے)
در خَلق و در خُلق توئی نیر اعظم

لاتُدرک اوصافک لم تُدر کَمَاہی

(صورت اور سیرت میں آپ آفتاب عالمتاب ہیں ۔ نہ آپ کے اوصاف کا احاطہ کیا جاسکتاہے اور نہ ہی ان کی حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے)
یا احسن یا اجمل یا اکمل اکرم

واللہ باخلاقک فی الملا یُباہی

(اے سب سے زیادہ حسین ! سب سے زیادہ جمیل ، سب سے زیادہ کامل ، سب سے زیادہ سخی ! ملائکہ کی محفل میں اللہ تعالی آپ کے اخلاق پر فخر کرتا ہے)
تو باعث تکوین معاشی و معادی

اے عبد الہ ہست مسلم بتو شاہی

(یارسول اللہ! دنیا اور آخرت کی تکوین کا باعث آپ ہیں ۔ اے اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے کونین کی شاہی تجھے بخشی گئی ہے)
زآفاق پریدی و ز افلاک گزشتی

درجاتک فی السدرۃ غیر المتناہی

(آپ نے آفاق سے پرواز کی اور آسمانوں سے بھی گذر گئے۔ آپ کے درجات مقامِ سدرہ سے بھی آگے نکل گئے)
امید بکرمت کہ مکارم شیم تست

من کیستم و چیست معاصی و تباہی

(میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کرم کا امیدوار ہوں اور کرم فرمانا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پسندیدہ عادات میں سے ہے ۔ اس نوازش کے سامنے میری کیا حقیقت ہے،میرے گناہوں کی کیا حیثیت ہے )
آئس نیم از فضل تو اے روح خداوند

نظرے کہ رباید ز قمر رنج و سیاہی

(اے رحمت الہی ! میں تیرے فضل وکرم سے مایوس نہیں ۔ ایک ایسی نظر فرمائیے جو قمر سے رنج و سیاہی کو دور کردے)
از خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ۔
عالم​
آں جملہ رسل ہادی برحق کہ گزشتند

برفضلِ تو اے ختم رسل دادہ گواہی

(آج تک جتنے سچے رسول گزرے ہیں، ائے خاتم المرسلین ! سب نے آپ کی بزرگی کی گواہی دی ہے)
در خَلق و در خُلق توئی نیر اعظم

لاتُدرک اوصافک لم تُدر کَمَاہی

(صورت اور سیرت میں آپ آفتاب عالمتاب ہیں ۔ نہ آپ کے اوصاف کا احاطہ کیا جاسکتاہے اور نہ ہی ان کی حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے)
یا احسن یا اجمل یا اکمل اکرم

واللہ باخلاقک فی الملا یُباہی

(اے سب سے زیادہ حسین ! سب سے زیادہ جمیل ، سب سے زیادہ کامل ، سب سے زیادہ سخی ! ملائکہ کی محفل میں اللہ تعالی آپ کے اخلاق پر فخر کرتا ہے)
تو باعث تکوین معاشی و معادی

اے عبد الہ ہست مسلم بتو شاہی

(یارسول اللہ! دنیا اور آخرت کی تکوین کا باعث آپ ہیں ۔ اے اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے کونین کی شاہی تجھے بخشی گئی ہے)
زآفاق پریدی و ز افلاک گزشتی

درجاتک فی السدرۃ غیر المتناہی

(آپ نے آفاق سے پرواز کی اور آسمانوں سے بھی گذر گئے۔ آپ کے درجات مقامِ سدرہ سے بھی آگے نکل گئے)
امید بکرمت کہ مکارم شیم تست

من کیستم و چیست معاصی و تباہی

(میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کرم کا امیدوار ہوں اور کرم فرمانا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پسندیدہ عادات میں سے ہے ۔ اس نوازش کے سامنے میری کیا حقیقت ہے،میرے گناہوں کی کیا حیثیت ہے )
آئس نیم از فضل تو اے روح خداوند

نظرے کہ رباید ز قمر رنج و سیاہی

(اے رحمت الہی ! میں تیرے فضل وکرم سے مایوس نہیں ۔ ایک ایسی نظر فرمائیے جو قمر سے رنج و سیاہی کو دور کردے)
از خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ۔​
عالم بحواداریت از ہوش برفتہ
آہو شدہ در یم و بصحرا شدہ ماہی!
(سارا عالم آپﷺ کے عشق میں ہوش سے بیگانہ ہے۔۔۔۔
ہرن دریا میں اور مچھلیاں صحرا میں آگئی ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
دامنِ وصل ترا دستِ کسے محرم نیست
ہر کہ مجنونِ تو شد دامنِ صحرا دارد


طالب آملی

کسی کا بھی ہاتھ تیرے وصل کے دامن کا محرم نہیں ہے، بلکہ جو بھی تیرا مجنوں ہوا، اُس کی قسمت میں پھر صحرا کا دامن ہی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به بزمِ طرب هم‌نوایم علی‌ست
به کُنجِ غم اندُه‌رُبایم علی‌ست

(غالب دهلوی)
بزمِ طرب میں میرے ہم نوا حضرتِ علی ہیں۔۔۔ گوشۂ غم میں میرے غم دور کرنے والے حضرتِ علی ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عثمانی سلطان سلیمان قانونی 'مُحِبّی' کی ایک غزلِ مُلمّع کا مطلع، جس کا مصرعِ اول تُرکی میں اور مصرعِ دوم فارسی میں ہے:
گؤنۆل هجر ایله اۏلمېش زار و مهجور
دل از من دور و من از دل‌سِتان دور

(سلطان سلیمان قانونی 'مُحِبّی')
[میرا] دل ہجر سے زار و مہجور ہو گیا ہے۔۔۔ دل مجھ سے دُور ہے، اور میں دل لے جانے والے (دلبر) سے دُور ہوں۔

Gönül hicr ile olmış zâr u mehcûr
Dil ez men dûr u men ez dil-sitân dûr
 
آخری تدوین:
مرا به خاطرِ عشق از خدا نترسانید
نمی شوم نفسی بنده‌ی خدایِ شما
(فردوسِ اعظم)

مجھے عشق کے برائے خدا سے خوفزدہ مت کرو.میں ایک لمحہ بھی تمہارے خدا کا بندہ نہیں بنوں گا.

*فردوسِ اعظم معاصر تاجیکستانی شاعر ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
از آتشِ سودایت، دارم من و دارد دل
داغے کہ نمی بینی، دردے کہ نمی دانی


رھی مُعیری

تیرے جنون کی آتش سے، میں ایسے داغ رکھتا ہوں کہ جنہیں تُو نہیں دیکھتا، اور (میرا) دل ایسا درد رکھتا ہے کہ جو تو نہیں جانتا۔
 
Top