از انتظار دیدهٔ یعقوب شد سفید
هیچ آفریده چشم به راهِ کسی مباد (صائب تبریزی) انتظار سے دیدۂ یعقوب سفید ہو گیا۔۔۔ [خدا کرے کہ] کوئی بھی مخلوق کسی کی مُنتظِر نہ ہو!
× دیدہ = چشم، آنکھ
در حیرتم که توبه کنم از کدام جرم
بیش از شمار جرم و گناهِ کسی مباد (صائب تبریزی) میں حیرت میں ہوں کہ میں کس جُرم سے توبہ کروں؟۔۔۔ [خدا کرے کہ] کسی شخص کے جُرم و گُناہ شُمار سے زیادہ نہ ہوں!
برِ رافضی چگونه ز بنی قُحافه لافم
برِ خارجی چگونه غمِ بوتُراب گویم (مولانا جلالالدین رومی) میں رافِضی کے سامنے کیسے ابنِ ابوقُحافہ (حضرتِ ابوبکر) کی ذات پر ناز کروں [اور اُن کی مدح و سِتائش کروں]؟۔۔۔ میں خارِجی کے سامنے کیسے ابوتُراب (حضرتِ علی) کا غم بیان کروں؟
× حضرتِ ابوبکر (رض) کے والد کی کُنیت ابوقُحافه تھی، لہٰذا قبیلۂ 'بنی قُحافہ' سے حضرتِ ابوبکر کی جانب اشارہ ہے۔
سعدی شیرازی ایک غزل کی بیت میں اپنے محبوب کی توصیف میں کہتے ہیں: همشیرهٔ جادوانِ بابِل
همسایهٔ لُعبَتانِ کشمیر (سعدی شیرازی) وہ بابِل کے جادوگروں کی ہمشیرہ، اور کشمیر کے خُوبوں اور زیبارُویوں کی ہمسایہ ہے۔
صائب ز خطِ سبزِ نکویان در اصفهان
سَیرِ بهارِ خِطّهٔ کشمیر میکند (صائب تبریزی)
«صائب» شہرِ «اِصفہان» میں خُوباں کے خطِ سبز [کے ذریعے] سے خِطّۂ «کشمیر» کی بہار کی سَیر کرتا ہے۔
گر یار کند مَیل، هِلالی، عجبی نیست
شاهان چه عجب گر بِنوازند گدا را؟ (هلالی جغتایی) اے ہِلالی! اگر یار [تمہاری جانب] رغبت کرے تو کوئی عجب نہیں ہے۔۔۔ شاہاں اگر گدا کو نواز دیں [اور اُس کے ساتھ شفقت و مہربانی کریں] تو کیا عجب؟
تا نَکهتِ جانبخشِ تو همراهِ صبا شد
خاصیّتِ عیسیست دمِ بادِ صبا را (هلالی جغتایی) جب سے تمہاری جاں بخش خوشبو صبا کے ہمراہ ہوئی ہے، بادِ صبا کی پھونک حضرتِ عیسیٰ کی خاصیّت رکھتی ہے۔
ای گُلِ باغِ لطافت، ز خَزان ایمِن باش
که هنوز اوّلِ نوروزِ جمال است تُرا (هلالی جغتایی) اے باغِ لطافت کے گُل! خزاں سے محفوظ و سلامت رہو!۔۔۔ کہ ہنوز تمہارے جمال کا اوّلِ نوروز ہے۔
(یعنی ہنوز تمہارے جمال کی بہار کا آغاز چل رہا ہے۔)
گر در سفرم توئی رفیقِ سفرم
گر در حضرم توئی انیسِ حضرم
ہر جا کہ نشینم و بہر جا گذرم
جز تو نہ بُوَد ہیچ مرادِ دگرم
اگر میں سفر میں ہوں تو تُو ہی میرا رفیقِ سفر ہے، اور اگر میں کہیں قیام کرتا ہوں تو تُو ہی اس قیام میں میرا ہم نشیں و ہمدم و مونس ہے۔ میں جہاں جہاں بھی رُکتا ہوں اور جہاں جہاں سے بھی گزرتا ہوں وہاں وہاں تیرے سوا میری مراد اور کچھ بھی نہیں ہوتی۔
به هیچ صورت ز دَورِ گردون نصیبِ ما نیست سربُلندی
ز بعدِ مُردن مگر نسیمی غُبارِ ما را برَد به بالا (بیدل دهلوی) ہمیں کسی بھی طرح فلک کی گردش سے (یا فلک کی گردش کے سبب) سربُلندی نصیب نہیں ہوتی۔۔۔ مرنے کے بعد شاید کوئی بادِ نسیم ہماری غُبار کو بالا لے جائے۔
حاصلِ تُخمِ ضعیف است آنچه خِرمن دیدهای
دی شراری بود، اگر امِروز گُلخن دیدهای (بیدل دهلوی) تم نے جس چیز کو خِرمن [کی شکل میں] دیکھا ہے، وہ ایک ضعیف بیج کا نتیجہ و حاصل ہے۔۔۔ اگر آج تم نے گُلخن دیکھا ہے تو وہ کل [محض] ایک شرار تھا۔
× گُلخَن = حمّام کا آتش خانہ
نعتیہ بیت: وآن همه پیرایه بست جنتِ فردوس
بو که قبولش کند بلالِ محمد (سعدی شیرازی) اور جنّتِ فردوس نے وہ سب زینت و آرائش اِس امید میں کی ہے کہ شاید رسول کا بِلال اُس کو قبول کر لے۔
یہی مضمون احمد پاشا نے مندرجۂ ذیل تُرکی بیت میں منظوم کیا ہے:
رضوان بهشتی بو قدر آرایش ائتدیگی
بودور کیده قبول بلالی مُحمّدین (احمد پاشا) رضوان نے بہشت کی اِس قدر آرائش اِس لیے کی ہے تاکہ حضرتِ مُحمّد (ص) کا بِلال [اُس کو] قبول کر لے۔
Rıdvân behişti bu kadar ârâyiş etdigi
Budur k’ide kabûl Bilâli Muhammed'in
به هر کجا ناز سر برآرد نیاز هم پای کم ندارد
تو و خرامی و صد تغافل، من و نگاهی و صد تمنا (بیدل دهلوی) جس بھی جگہ ناز سر اُٹھاتا ہے، [وہاں] نِیاز بھی پیچھے نہیں رہتا [اور سخت مُقابلہ کرتا ہے]۔۔۔ تم [ہو] اور اِک خِرام اور صد تغافُل۔۔۔ میں [ہوں] اور اِک نگاہ اور صد تمنّا۔
تاریک ز ظُلمات شده کُویِ خرابات
بی پرتَوِ رُویِ تو مُنوّر شُدنی نیست (سید محمود شهدی) کُوئے شراب خانہ ظُلمَتوں سے تاریک ہو گیا ہے۔۔۔ تمہارے چہرے کے پرتَو کے بغیر وہ مُنوّر نہ ہو گا۔
ایِ خیالِ قامتت آهِ ضعیفان را عصا
بر رُخت نظّارهها را لغزش از جوشِ صفا (بیدل دهلوی) اے کہ تمہاری قامت کا خیال ضعیفوں اور ناتوانوں کی آہ کا عصا ہے۔۔۔ [تمہارے چہرے کی] جوشِ پاکیزگی کے سبب تمہارے چہرے پر نظارے لغزِش کھاتے ہیں۔
عثمانی بوسنیائی شاعر 'حسن ضیائی موستارلی' (وفات: ۱۵۸۴ء) اپنے فارسی قصیدے میں کہتے ہیں: با تیر و کمان مُلکِ سُخن را بِگُشادم
بِگْریخت هِلالی به کناری ز کمانم (حسن ضیایی موستارلی) میں نے تیر و کمان کے ساتھ مُلکِ سُخن کو فتح کر لیا۔۔۔ میری کمان [کے خوف سے] سے ہِلالی [جغتائی] ایک گوشے میں فرار کر گیا۔
عثمانی بوسنیائی شاعر 'حسن ضیائی موستارلی' (وفات: ۱۵۸۴ء) اپنے فارسی قصیدے میں کہتے ہیں: در مدحتِ من کاتبی شد کاتبِ دیوان
در مُلکِ سُخن من شهِ اقلیمسِتانم (حسن ضیایی موستارلی) کاتِبی [نیشابوری] میری مِدحت میں کاتبِ دیواں ہو گیا۔۔۔ میں مُلکِ سُخن میں اِقلیم فتح کرنے والا شاہ ہوں۔