محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

یا رب تو زمانہ را دلیلے بفرست
نمروداں را پشہ چو پیلے بفرست
فرعوں صفتاں ہمہ زبردست شدند
مُوسیٰ و عصا و رُودِ نیلے بفرست

یا رب تو اِس زمانے کے لیے اپنی کوئی دلیل، کوئی نشانی، کوئی راہنما بھیج، اور اِن وقت کے نمرودوں کے لیے مچھر کسی ہاتھی کی طرح بھیج (جو اپنے پاؤں سے ان کے سر کچل دے)، یہ فرعون کی صفات والے سارے کے سارے حد سے زیادہ ظالم ہو چکے ہیں، تُو مُوسیٰ اور عصا اور کسی نیل کی ٹھاٹھیں مارتی موجیں بھیج (جو اِن کو غرق کر دیں)۔
 

حسان خان

لائبریرین
رفتی و نامِ تو ز زبانم ‌نمی‌رود
و اندیشهٔ تو از دل و جانم نمی‌رود

(سیف فرغانی)
تم چلے گئے [لیکن] تمہارا نام میری زبان سے نہیں جاتا۔۔۔ اور تمہارا خیال میرے دل و جاں سے نہیں جاتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای یارِ نازنین تو کجا می‌روی به ناز
یک لحظه‌ای نگاه بِکُن حالِ زارِ ما
(محمدرِضا رفیعی شرف‌خانه)

اے یارِ نازنیں! تم ناز کے ساتھ کہاں جا رہے ہو؟۔۔۔ ذرا ایک لمحہ ہمارے حالِ زار پر نگاہ کرو۔
 
بروائے عقل و منہ و منطق و حکمت درپیش
کہ میرا نسخہ غم ہائے فلاں درپیش است
عرفی کے اس شعر کا ترجمہ چاہیے شکریہ
حسان خان سے تصحیح کی درخواست

برو ای عقل منه منطق و حکمت پیشم
که مرا نسخه ی غم های فلان در پیش است
(عرفی شیرازی)

اے عقل! جاؤ اور میرے پیش (سامنے) میں منطق و حکمت مت رکھ کہ میرے پیش میں فلاں کے غموں کے نسخے ہیں.
 

حسان خان

لائبریرین

محمد وارث

لائبریرین
داری دِلا اگر سرِ سودائے زُلفِ یار
باید ترا نخست ز سُود و زیاں گذشت


واقف لاہوری (بٹالوی)

اے دل، اگر تُو زُلفِ یار کو حاصل کرنے کا جنون رکھتا ہے تو سب سے پہلے تجھے سُود و زیاں، نفع و نقصان کا خیال چھوڑنا پڑے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مجنون شدم ز عشقِ جمالت، نگارِ من
یک بوسه کن ز رویِ تلطُّف نثارِ ما

(محمدرِضا رفیعی شرف‌خانه)
اے میرے نِگار! میں تمہارے جمال کے عشق سے مجنوں ہو گیا [ہوں]۔۔۔ از رُوئے لُطف ایک بوسہ ہم پر افشاں کرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
شبِ وصل است و طَی شد نامهٔ هَجر
سلامٌ فِيهِ حتّیٰ مطْلعِ الفجْر

(حافظ شیرازی)
شبِ وصل ہے، اور نامۂ ہجر تہہ ہو گیا۔۔۔ اِس [شب] میں طلوعِ فجر تک سلامتی ہے۔

× مندرجۂ بالا بیت میں سورۂ قدر کی آیت ۵ کی جانب اشارہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جُز خلوص و عجز آنجا می نپرسند اے شرف
زاہد از زہدِ ریائی می نہ گردد کامیاب


شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بُو علی قلندر

اے شرف، اُس جگہ خلوص اور عجز کے سوا کچھ بھی نہیں پوچھتے، ریاکار زاہد اپنی ریائی کے زہد کی وجہ سے وہاں کامیاب نہیں ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
برآی ای صُبحِ روشن‌دل خدا را
که بس تاریک می‌بینم شبِ هَجر
(حافظ شیرازی)

ای صُبحِ روشن دل! خُدارا طلوع کر جاؤ کہ میں شبِ ہجر کو بِسیار تاریک دیکھتا ہوں۔
(یعنی عاشق اپنی شبِ ہجراں کی تاریکی و طُولانی کے باعث صُبح سے طلوع کی تمنّا کر رہا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
مکن از عشقِ بُتان منعِ فضولی ای شیخ
همه کس مَیلِ جوانانِ پری‌رُو دارد

(محمد فضولی بغدادی)
اے شیخ! فضولی کو عشقِ خُوباں سے منع مت کرو۔۔۔ ہر شخص جوانانِ پری رُو کی [جانب] رغبت رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی کی ایک فارسی غزل کی دو ابیات:
بِگْذر از آزارم ای بدخواه بر خود رحم کن
ورنه می‌سوزم تو را با آهِ آتش‌بارِ خود
برقِ آهِ آتشینم می‌گُدازد سنگ را
می‌دهد بدخواه در آزارِ من آزارِ خود

(محمد فضولی بغدادی)
اے بدخواہ! مجھ کو آزار دینا تَرک کر دو [اور] خود پر رحم کرو۔۔۔ ورنہ مَیں خود کی آہِ آتش بار سے تم کو جلا دوں گا۔۔۔ میری آہِ آتشیں کی برق سنگ کو پِگھلا دیتی ہے۔۔۔ [لہٰذا] بدخواہ مجھ کو آزار دینے میں [در حقیقت] خود [ہی] کو آزار دیتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کرده‌ام اقرارِ جان دادن فضولی در رهش
گر کُشندم برنخواهم گشت از اقرارِ خود

(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! میں نے اُس کی راہ میں جان دینے کا اِقرار [و پَیماں] کیا ہے۔۔۔ اگر مجھ کو قتل کر دیں [تو بھی] میں خود کے اِقرار [و پَیماں] سے نہیں پلٹوں گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ندیدم هیچ کس را غافل از افسانهٔ عشقت
تو بودی بر زبان هر جا دو کس را در سُخن دیدم

(محمد فضولی بغدادی)
میں نے کسی بھی شخص کو تمہارے عشق کے افسانے سے غافل نہ دیکھا۔۔۔ میں نے جس بھی جگہ دو افراد کو گفتگو میں دیکھا، [اُن کی] زبان پر تم تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہ عبّاس ثانی صفوی کی مدح میں کہے گئے قصیدے میں سے ایک بیت:
تیغِ او دارد نسب از ذوالفقارِ حیدری
چون نسازد پاک زنگِ کفر از لوحِ جهان؟
(صائب تبریزی)

اُس کی تیغ کا نسب ذوالفقارِ حیدری سے جا مِلتا ہے۔۔۔ [پس] وہ لَوحِ جہاں سے زنگِ کُفر کو پاک کیسے نہ کر دے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یارب چه دل است آن دلِ سنگین که نشد نرم
از «یا رب‌ِ» دل‌سوزِ من و نالهٔ زارم
(سلمان ساوجی)

یا رب! وہ دلِ سنگیں کیسا دل ہے کہ میری دل سوز 'یا رب' اور میرے نالۂ زار سے نرم نہ ہوا؟
 

حسان خان

لائبریرین
اناطولیائی شاعر مُحیَوی انگوریه‌ای کسی عُمَر نامی محبوب کے برائے کہی گئی رُباعی میں کہتے ہیں:
(رباعی)
بندِ دلِ من مُویِ عُمر خواهد بود
وارامِ دلم رُویِ عُمر خواهد بود
گر جُملهٔ شیعیان مرا خصْم شوند
مَیلِ دلِ من سُویِ عُمر خواهد بود

(مُحیَوی انگوریه‌ای)
میرے دل کی زنجیر عُمر کی زُلف ہو گی۔۔۔ اور میرے دل کا آرام عُمر کا چہرہ ہو گا۔۔۔ خواہ تمام شیعہ میرے دُشمن ہو جائیں۔۔۔ میرے دل کی رغبت عُمر کی طرف ہو گی۔

× شاعر کا تعلق اناطولیائی شہر انگوریہ/انقرہ سے تھا جو فی زمانِنا تُرکیہ کا دارالحکومت ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هستی‌ام در نیستی گُم گشت در غوغایِ دهر
ساحلِ خود را فدایِ موجِ دریا کرده‌ام
(جلیله سلیمی)

دہر کے ہنگامہ و آشوب میں میری ہستی نیستی میں گُم ہو گئی۔۔۔ میں نے اپنے ساحل کو موجِ بحر پر فدا کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پُر است از اشک و از لختِ جگر پیوسته دامانم
چه قدر، ای مه بِبین، لعل و گُهر اندوختم بی تو

(ابوالقاسم لاهوتی)
اشک سے اور لختِ جگر سے میرا دامن ہمیشہ پُر [رہتا] ہے۔۔۔ اے ماہ! دیکھو کہ میں نے تمہارے بغیر کس قدر لعل و گُہر ذخیرہ کیے [ہیں]۔
 
Top