حسان خان

لائبریرین
حِفظِ صورت می‌توان کردن به ظاهر در نماز
رُویِ دل را جانبِ محراب کردن مشکل است

(صائب تبریزی)
نماز میں ظاہری طور پر صورت کی تو نگہداری و حفاظت کی جا سکتی ہے، لیکن دل کے چہرے کو محراب کی جانب کرنا مُشکِل ہے۔
(یعنی نماز کی ظاہری شکل و صُورت کی تو راحت کے ساتھ حِفاظت کی جا سکتی ہے، اور چہرے کو بہ آسانی محراب کی سَمت میں رکھا جا سکتا ہے، لیکن دل کو محراب کی جانب کرنا مشکل ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
اتابک نُصرت‌الدین ابوبکر کی مدح میں کہی گئی بیت:
نُصرة‌الدین ملِکِ عالمِ عادل بوبکر
که جهان جُمله بِیاراست به عدلِ عُمَری

(ظهیر فاریابی)
نُصرت الدّین، پادشاہِ عالِم و عادل، ابوبکر۔۔۔ کہ جس نے کُل جہان کو عدلِ عُمَری سے آراستہ کر دیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بے نیازانہ ز اربابِ کرم می گذرم
چوں سیہ چشم کہ بر سرمہ فروشاں گذرد
(ابو طالب کلیمؒ)

میں اربابِ دولت و اقتدار کے پاس سے اس طرح بے نیازانہ گزر جاتا ہوں ، جس طرح ایک سیہ چشم انسان جس کی آنکھیں قدرتی طور پر سیاہ واقع ہوئی ہوں ، سرمہ فروشوں کے پاس سے باندازِ بے نیازی گزر جاتا ہے۔ سرمہ فروشوں کی طرف حاجتِ توجہ تو اسے ہوتی ہے جس کی آنکھیں سرمے کی محتاج ہوں اور جس کے سواد چشم کو مشاطہ فطرت نے از خود سرمہ سے بے نیاز کردیا ہو وہ اگر بازار سرمہ فروشاں سے باندازِ دلبری اور بہ شانِ بے نیازی نہ گزرے تو اور کیا کرے۔
(سید نصیر الدین نصیر ، محیطِ ادب صفحہ27)
 

محمد وارث

لائبریرین
بے نیازانہ ز اربابِ کرم می گذرم
چوں سیہ چشم کہ بر سرمہ فروشاں گذرد
(ابو طالب کلیمؒ)

میں اربابِ دولت و اقتدار کے پاس سے اس طرح بے نیازانہ گزر جاتا ہوں ، جس طرح ایک سیہ چشم انسان جس کی آنکھیں قدرتی طور پر سیاہ واقع ہوئی ہوں ، سرمہ فروشوں کے پاس سے باندازِ بے نیازی گزر جاتا ہے۔ سرمہ فروشوں کی طرف حاجتِ توجہ تو اسے ہوتی ہے جس کی آنکھیں سرمے کی محتاج ہوں اور جس کے سواد چشم کو مشاطہ فطرت نے از خود سرمہ سے بے نیاز کردیا ہو وہ اگر بازار سرمہ فروشاں سے باندازِ دلبری اور بہ شانِ بے نیازی نہ گزرے تو اور کیا کرے۔
(سید نصیر الدین نصیر ، محیطِ ادب صفحہ27)
یہ مشہور زمانہ شعر ابوطالب کلیم کاشانی کا نہیں بلکہ طالب آملی کا ہے۔

ان دونوں شعرا کا عہد ایک ہی ہے (سترہویں صدی عیسوی) اور دونوں ہی مغلیہ دربار سے وابستہ رہے ہیں۔ طالب آملی جہانگیر کے ملک الشعرا تھے جب کہ ابوطالب کلیم کاشانی شاہجہان کے دربار سے وابستہ تھے۔ دونوں کا نام عام طور پر خلط ہو جاتا ہے۔ طالب آملی کا تخلص "طالب" ہے جب کہ ابوطالب کلیم کاشانی کا تخلص "کلیم" ہے لیکن کنیت "ابو طالب" کی وجہ سے طالب آملی کے ساتھ مغالطہ ہو جاتا ہے اور شاید اسی وجہ سے سید صاحب قبلہ مرحوم و مغفور کو بھی مغالطہ لگا۔

طالب آملی کے دیوان کا عکس شامل کر رہا ہوں جس میں یہ غزل ہے اور اس غزل کا شمار طالب آملی کی شاہکار غزلوں میں ہوتا ہے۔
Fullscreen_capture_14_09_2018_81627_AM.jpg
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در کارهایِ دینی و دُنیایی
جُز هم‌چُنان مباش که بِنْمایی

(ناصر خسرو)
دینی و دُنیاوی کاموں میں تم [حقیقتاَ بھی] ویسے ہی رہو کہ جیسے دِکھائی دیتے ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
توجُّه بیش‌تر از عاشقان با بُوالْهوَس دارد
کریمان دوست‌تر دارند مهمانِ طُفَیلی را

(صائب تبریزی)
وہ [محبوب] عاشقوں سے زیادہ بُوالْہوَس پر توجُّہ رکھتا ہے۔۔۔ کریم افراد ناخواندہ مہمان کو زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔

× «بوالهوس» کا تلفظ «بُل ہَوَس» ہے، اور یہ پُرہوَس و پُرآرزو شخص اور عاشقِ دُروغیں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
× ناخوانْدہ مہمان = بِن بُلایا مہمان
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نه چندان بِخور کز دهانت برآید
نه چندان که از ضعف جانت برآید

(سعدی شیرازی)
نہ اِس قدر [زیادہ] کھاؤ کہ [غِذا] تمہارے دہن سے بیرون نِکل آئے۔۔۔ نہ اِس قدر [کم کھاؤ] کہ کمزوری سے تمہاری جان نِکل جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہر کے نقشبندی صوفی بُزُرگ «خواجہ عُبیداللہ احرار» کی وفات پر کہا گیا قطعۂ تاریخ:
(قطعه)
خواجهٔ خواجگان عُبیدالله
مُرشدِ سالکانِ اهلِ یقین
شد به خُلدِ برین، که از فَوتش
سالِ تأریخ گشت: «خُلدِ برین»

(امیر علی‌شیر نوایی)
سالِکانِ اہلِ یقیں کے مُرشِد اور خواجۂ خواجَگاں عُبیداللہ خُلدِ بریں کی جانب چلے گئے، کہ اُن کی وفات کا سالِ تاریخ یہ ہوا: «خُلدِ برین»۔
× خُلدِ برین = ۸۹۶ھ
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
از هجرِ تو کارم اِضطِراب است اِمشب
جان از پَیِ رفتن به شِتاب است اِمشب
تن را ز فراق پیچ و تاب است اِمشب
دریاب، که کارِ دل خراب است اِمشب

(امیر علی‌شیر نوایی)
تمہارے ہجر کے باعث اِس شب میرا کام اِضطِراب ہے۔۔۔ اس شب میری جان نِکل جانے کے لیے جلدی میں ہے اور بے صبر ہے۔۔۔ اِس شب فراق کے سبب تن پیچ و تاب میں ہے۔۔۔ فریاد کو پہنچو اور مدد کرو کہ اِس شب کارِ دل خراب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
طالب از دشنهٔ کِلک تو به فولاد گُذشت
آنچه از تیززبانان به خموشان گُذَرَد

(طالب آملی)
اے طالب! تمہارے خنجرِ قلم سے فولاد پر وہ گُذرا ہے جو تیززبان افراد سے خاموشوں پر گُذرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہائی شاعر بهاءالدین محمد عبدی کی ایک غزل کا مطلع:
بِخوان ای مُطرِب اِمشب نغمهٔ اللهُ ابْهیٰ را
به آهنگی به وجد آور دلِ عُشّاقِ شیدا را

(بهاءالدین محمد عبدی)
اے مُطرِب! اِس شب «اللہُ ابْہیٰ» کا نغمہ گاؤ۔۔۔ اور اِک نوا و سُرود سے عُشّاقِ شیدا کے دل کو وجد میں لے آؤ۔

× جس طرح سے مسلمانوں کی تکبیر «اللهُ اکبر» ہے، اُسی طرح بہائیوں میں «اللهُ ابْهیٰ» (اللہ درخشندہ ترین و جمیل ترین و جلیل ترین ہے) تکبیر کے طور پر رائج ہے، اور جب دو بہائی مُلاقات کرتے ہیں تو وہ «اللهُ ابْهیٰ» کہہ کر یک دیگر کو سلام کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دست‌بوسی ای صنم چون کرده‌ای بر ما حرام
رُخصتی فرما که بوسم لااقل پایِ تُرا

(بهاءالدین محمد عبدی)
اے صنم! جب تم نے دست بوسی کو ہم پر حرام کر دیا ہے تو ذرا اجازت دے دو کہ میں کم از کم تمہارے پاؤں کو بوسہ دے دوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو عیبِ کسان بینی و یک لحظه نبینی
در آینهٔ سیرتِ خود عیب و خطا را

(بهاءالدین محمد عبدی)
تم [دیگر] اشخاص کے عیب دیکھتے ہو [لیکن] ایک لحظہ [بھی] خود کی سیرت کے آئینے میں عیب و خطا نہیں دیکھتے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مُطرِبا این چه نوایی‌ست که از نالهٔ آن
عقل فریاد زد و عشق به افغان آمد

(بهاءالدین محمد عبدی)
اے مُطرِب!‌ یہ کون سی نوا ہے کہ جس کے نالے سے عقل نے فریاد ماری اور عشق فغاں کرنے لگا۔
 
نیست لذت ز نظر بازیِ بزمی که درو
خندۂ زیرِ لب و گریۂ پنہانی نیست


اس بزم کی نظر بازی سے کوئی لذت حاصل نہیں ہوتی جس میں زیرِ لب مسکراہٹ اور اندر ہی اندر کا رونا نہیں۔

نظیری نیشاپوری
 
آخری تدوین:
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں محتشم کاشانی کہتے ہیں :
از صاحبِ حرم چه توقع کنند باز
آن ناکسان که تیغ به صیدِ حرم زنند
(محتشم کاشانی)

وہ بدسرشت لوگ صاحبِ حرم سے پس کیا توقع رکھیں گے جو حرم کے شکار (جس کو ایامِ حج میں شکار کرنا حرام ہوتا ہے) پر شمشیرزن ہوتے ہیں.
 

حسان خان

لائبریرین
«سیّد حسَن اردَشیر» کی وفات پر کہا گیا قطعۂ تاریخ:
(قطعه)
سرِ اهلِ فنا سیِّد حسن رفت
که جایِ او بهشتِ جاودان باد
پَیِ آن پاک‌رُو جُستند تأریخ
بِگُفتم: «جنّتِ پاکش مکان باد»

(امیر علی‌شیر نوایی)
اہلِ فنا کے رئیس سیّد حسن چلے گئے، کہ جن کی جگہ بہشتِ جاوداں ہو!۔۔۔ اُن پاک چہرہ [شخص] کے لیے [مردُم] نے تاریخ تلاش کی۔۔۔ میں نے کہا: "جنّتِ پاک اُن کا مکان ہو!"۔
× جنّتِ پاکش مکان باد = ۸۹۴ھ
 

حسان خان

لائبریرین
عشقِ من و خیالِ تو شد آشنا به‌هم
پیداست نسبتِ گُل و بادِ صبا به‌هم

(محمد اکرم پشاوری)
میرا عشق اور تمہارا خیال باہم آشنا ہو گئے۔۔۔ گُل اور بادِ صبا کی باہمی نِسبت ظاہر و واضِح ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جلوهٔ سرْوِ تو دیدیم و زمین‌گیر شدیم
آن قدر محوِ تو گشتیم که تصویر شدیم

(خانِع کشمیری)
ہم نے تمہارے سرْو [جیسے قد] کا جلوہ دیکھا اور ہم زمیں گیر ہو گئے۔۔۔ ہم تم میں اِس قدر محو ہوئے کہ ہم [مثلِ] تصویر ہو گئے۔
× زمیں گیر = وہ شخص جو مرَض یا ناتوانی کے باعث جگہ سے اُٹھ نہ سکے یا حرَکت نہ کر سکے
 
آخری تدوین:
Top