حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
درویشان را اگر نه از خویشانیم
لیک از دل و جان مُعتقدِ ایشانیم
دُور است مگوی شاهی از درویشی
شاهیم، ولی بندهٔ درویشانیم

(ظهیرالدین محمد بابر)
اگرچہ ہم درویشوں کے قرابت داروں میں سے نہیں ہیں، لیکن ہم دل و جان سے اُن کے مُعتقِد ہیں۔۔۔ [یہ] مت کہو کہ شاہی درویشی سے دُوری رکھتی ہے۔۔۔ ہم شاہ ہیں، لیکن بندۂ درویشاں ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
طالِع نِگر که دل‌برِ شیرین‌کلامِ ما
دُشنام می‌دهد به جوابِ سلامِ ما

(رشحه اصفهانی)
[ہماری] خوش بختی دیکھو کہ ہمارا دلبرِ شیریں کلام ہمارے سلام کے جواب میں دُشنام دیتا ہے۔
× دُشنام = گالی
 

حسان خان

لائبریرین
در گوشِ عاشقان سُخن و قولِ شاعران
خوش‌تر ز بانگِ بُلبُل و آوازِ فاخته است

(ادیب صابر تِرمِذی)
عاشقوں کے کان میں شاعروں کا سُخن و قول بُلبُل کی بانگ اور فاختہ کی آواز سے خوش تر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر سُخن را قیمت از معنی پدید آید همی
معنوی باید سُخن، چه تازی و چه پهلوی

(ادیب صابر تِرمِذی)
اگر سُخن کی قیمت معنی سے پیدا ہوتی ہے تو سُخن کو معنی دار ہونا چاہیے، خواہ عرَبی [میں ہو]، خواہ فارسی [میں ہو، فرق نہیں پڑتا]۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
غمِ عالم فرا وان است و من یک غنچہ دل دارم
چساں در شیشہ ء ساعت کنم خاک بیاباں را
دنیا میں غم بے حساب ہے اور میرا دل غنچے کی مانند (چھوٹا) ہے
میں کیسے اس ریگستان کی ریت کو اس ریگ ساعت میں ڈالوں ؟
 

حسان خان

لائبریرین
اشکِ خونین چون نبارد چشمِ من
چون کنم از جان و دل یادِ وطن

(بهاءالدین محمد عبدی)
جس وقت میں جان و دل سے وطن کو یاد کروں تو میری چشم اشکِ خُونیں کیسے نہ برسائے؟
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
تا هجرِ تو کرد سعی در خواریِ من
شُد خیره فلک ز ناله و زاریِ من
از جُمله جهان، هیچ کسم یار نبود
اِلّا غمِ تو، که کرد دل‌داریِ من

(بدر تفلیسی)
جیسے ہی تمہارے ہجر نے میری پستی و ذلّت کے لیے کوشش کی، میرے نالہ و زاری سے فلک خِیرہ و سرگشتہ ہو گیا۔۔۔۔ کُل دُنیا میں سے کوئی بھی شخص میرا یار نہ تھا۔۔۔ اِلّا تمہارا غم کہ جس نے میری دل داری کی۔

× «تِفلیس» حالیہ گُرجستان کے دارالحکومت کا نام ہے۔ زبانِ فارسی اور فارسی گویوں کے قدم اِس شہر و دِیار تک بھی پہنچے ہیں اور یہ سرزمین بھی کئی صدیوں تک اسلامی سلطنتوں اور اِمارتوں کا حِصّہ رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نیست ما را بیمی از گردابِ امواجِ بلا
مُرغِ دریادل کُجا اندیشه از طوفان کند

(بهاءالدین محمد عبدی)
ہم کو امواجِ بلا کے گِرداب سے کوئی خوف نہیں ہے۔۔۔ دریا دل پرندہ کہاں طوفان کی فِکر کرتا ہے؟
× شاید یہاں «دریادل» دِلیر و شُجاع کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مولانا رُومی سے منسوب ایک بیتِ مُلمّع جس کا مصرعِ اول فارسی میں اور مصرعِ دوم تُرکی میں ہے:
ماه است نمی‌دانم خورشیدِ رُخت یا نه
بو آیرې‌لېق اۏدونا نیجه جِگریم یانه

(منسوب به مولانا جلال‌الدین رومی)
میں نہیں جانتا کہ تمہارا خورشیدِ چہرہ ماہ ہے یا نہیں۔۔۔ اِس فراق کی آتش میں میرا جِگر کب تک جلے گا؟

Bu ayrılık oduna nice ciğerim yane
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
نامِ تو برم، روانِ من تازه شود
یادِ تو کنم، طرب ز اندازه شود
وان روز، که اومیدِ وصالت باشد
از بی‌خودی‌ام، به عالَم آوازه شود

(لاادری)
[جب] تمہارا نام لوں تو میری رُوح تازہ ہو جائے۔۔۔ [جب] تم کو یاد کروں تو میرا طرَب حد سے گُزر جائے۔۔۔ اور جس روز کہ تمہارے وصال کی اُمید ہو، میری بے خودی کی عالَم میں شُہرت ہو جائے (یعنی میری از حد زیاد بے خودی کی شُہرت عالَم میں پھیل جائے)۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
خود را ز بد و نیک جدا کردم و رفتم
رَستم ز خودی، رُخ بہ خدا کردم و رفتم


اوحدی مراغہ ای

اپنے آپ کو میں نے اِس دنیا کے نیک و بدا سے جدا کیا (ہر چیز سے لاتعلق کیا) اور چلا گیا۔ اپنے آپ کو انا کی قید سے نجات دلائی، خدا کی طرف رُخ کیا اور چلا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاد است دلم طبله و تنبور بِیار
از خوشهٔ چشمانِ خود انگور بِیار

(قنبر علی تابش)
میرا دل شاد ہے، طبلہ و تنبُور لے آؤ۔۔۔ اپنی چشموں کے خوشے سے انگور لے آؤ۔

× شاعر کا تعلق افغانستان سے اور قومِ ہزارہ سے ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز دانش چو جانِ تُرا مایه نیست
بِه از خامُشی هیچ پیرایه نیست

(فردوسی طوسی)
جب تمہاری جان کو علم و دانش سے کوئی بہرہ و حِصّہ نہ مِلا ہو تو [تمہارے لیے] خاموشی سے بہتر کوئی زینت نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:
مولانا رُومی سے منسوب ایک بیتِ مُلمّع جس کا مصرعِ اول فارسی میں اور مصرعِ دوم تُرکی میں ہے:
ماه است نمی‌دانم خورشیدِ رُخت یا نه
بو آیرې‌لېق اۏدونا نیجه جِگریم یانه

(منسوب به مولانا جلال‌الدین رومی)
میں نہیں جانتا کہ تمہارا خورشیدِ چہرہ ماہ ہے یا نہیں۔۔۔ اِس فراق کی آتش میں میرا جِگر کب تک جلے گا؟

Bu ayrılık oduna nice ciğerim yane

برادر، کیا اس زمانے کی فارسی میں ہائے مجہول موجود تھا؟ کیا ترکی مصرعہ اصلاََ استانبولی ترکی ہے یا آذربائجانی ترکی ہے؟
 
تُرکی مصرعے میں «یانه» کا تلفّظ وہی ہے جو فارسی مصرعے میں «یا نه» کا ہے۔
میری معلومات کے مطابق یہاں فارسی مصرعے میں موجود " یا نه" کو افغان و تاجیک فارسی کی طرح Ya nə خوانا جاتا ہوگا کیونکہ ہائے معروف کا مجہول میں تبدیل ہونا لہجہء تہرانی کے رواج کے بعد شروع ہوا ہے. مولانا خود بھی افغانستانی تھے، لہذا انہوں نے اسی افغانستانی لہجے کی تقلید کی ہوگی
 

حسان خان

لائبریرین
میری معلومات کے مطابق یہاں فارسی مصرعے میں موجود " یا نه" کو افغان و تاجیک فارسی کی طرح Ya nə خوانا جاتا ہوگا کیونکہ ہائے معروف کا مجہول میں تبدیل ہونا لہجہء تہرانی کے رواج کے بعد شروع ہوا ہے. مولانا خود بھی افغانستانی تھے، لہذا انہوں نے اسی افغانستانی لہجے کی تقلید کی ہوگی
اِمروزہ تہرانی لہجے میں بھی «نه» کا تلفّظ «nə» ہی ہے۔ یہ میرے خیال سے تہرانی لہجے میں واحد لفظ ہے کہ جس میں ہائے غیر ملفوظ کا تلفُّظ فتحہ سے کسرہ میں تبدیل نہیں ہوا ہے۔

یاد رہے کہ مُعاصر استانبولی تُرکی لہجے میں کئی فتحہ والے الفاظ کو 'e' لِکھا اور خوانا جاتا ہے۔
 
اِمروزہ تہرانی لہجے میں بھی «نه» کا تلفّظ «nə» ہی ہے۔ یہ میرے خیال سے تہرانی لہجے میں واحد لفظ ہے کہ جس میں ہائے غیر ملفوظ کا تلفُّظ فتحہ سے کسرہ میں تبدیل نہیں ہوا ہے۔

یاد رہے کہ مُعاصر استانبولی تُرکی لہجے میں کئی فتحہ والے الفاظ کو 'e' لِکھا اور خوانا جاتا ہے۔
مولانا کی بیت میں پہلے کا تلفظ ya nə ہوگا پھر؛؟ اس سے دونوں مصرعے ہم قافیہ نہیں ہونگے
 

حسان خان

لائبریرین
مولانا کی بیت میں پہلے کا تلفظ ya nə ہوگا پھر؛؟ اس سے دونوں مصرعے ہم قافیہ نہیں ہونگے
آپ کو لاطینی رسم الخط میں لِکھے گئے متن میں 'e' کی وجہ سے مشکل ہو رہی ہے، جو مُعاصر استانبولی تلفُّظ کے موافق ہے۔ استانبولی تُرکی میں فارسی کے 'نه' کا تلفظ بھی 'ne' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خود را ز بد و نیک جدا کردم و رفتم
رَستم ز خودی، رُخ بہ خدا کردم و رفتم


اوحدی مراغہ ای

اپنے آپ کو میں نے اِس دنیا کے نیک و بدا سے جدا کیا (ہر چیز سے لاتعلق کیا) اور چلا گیا۔ اپنے آپ کو انا کی قید سے نجات دلائی، خدا کی طرف رُخ کیا اور چلا گیا۔
خوش آمدید! :)
 
Top