حسان خان

لائبریرین
«مثنویِ رُومی» میں خدا حضرتِ موسیٰ سے فرماتا ہے:
تا توانی پا منِه اندر فراق
أَبغَضُ الأشْیاءِ عِندِی الطّلاق

(مولانا جلال‌الدین رُومی)
جہاں تک تمہارے لیے ممکن ہو فراق کے اندر پاؤں مت رکھو۔۔۔۔ میرے نزدیک مکروہ ترین و ناپسندیدہ ترین چیز طلاق ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«مثنویِ رُومی» میں خدا حضرتِ موسیٰ سے فرماتا ہے:
ما زبان را ننْگریم و قال را
ما روان را بِنْگریم و حال را

(مولانا جلال‌الدین رُومی)
ہم زبان اور قال پر نگاہ نہیں کرتے، [بلکہ] ہم رُوح اور حال پر نگاہ کرتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی 'ساقی‌نامه' میں فرماتے ہیں:
بِیا ساقی آن نشئهٔ پُرکمال
که کامل از او می‌شود اهلِ حال

(محمد فضولی بغدادی)
اے ساقی! وہ نشۂ پُرکمال لے آؤ کہ جس سے اہلِ حال کامل ہو جاتا ہے۔
یہودی فارسی شاعر «عِمرانی» کی مثنوی «ساقی‌نامه» سے دو ابیات:
بِدِه ای ساقی آن مَیِ پُرحال
که ازو اهلِ دل رسد به کمال
که بِنوشم به نالهٔ دف و نَی
که حلال است عاشقان را مَی

(عمرانی)
اے ساقی! وہ شرابِ پُرحال دو کہ جس سے اہلِ دل کمال تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔ تاکہ میں دف و نَے کے نالے کے ساتھ نوش کروں، کیونکہ عاشقوں کے لیے شراب حلال ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یہودی فارسی شاعر «عِمرانی» کی مثنوی «ساقی‌نامه» سے ایک بیت:
بِدِه ای ساقی آن شرابِ پاک
که بِه از نار و باد و آب و خاک

(عمرانی)
اے ساقی! وہ شرابِ پاک دو کہ جو آتش و باد و آب و خاک سے بہتر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہنامۂ فردوسی کے بعض نُسخوں میں ایک جا یہ حمدیہ ابیات درج ہیں:
خداوندِ بی‌یار و انباز و جُفت
از او نیست پیدا و پِنهان نُهُفت
جهان‌آفریننده و بی‌نیاز
به فرمانِ او دان نِشیب و فراز
روان شد به فرمانِ او خور و ماه
وز او دارد آرام خاکِ سیاه
فرازندهٔ طاقِ فیروزه‌فام
برآرندهٔ صُبح ز ایوانِ شام
شبِ عنبرین هِندویِ بامِ اُوی
شفق دُردآشام از جامِ اُوی

(منسوب به فردوسی طوسی)
وہ خُداوندِ بے یار و بے شریک و بے جُفت ہے۔۔۔ ظاہر و پِنہاں اُس سے چُھپا ہوا نہیں ہے۔۔۔ وہ خالقِ جہاں اور بے نیاز ہے۔۔۔ [زمانے کے] نِشیب و فراز کو اُس کے حُکم سے جانو۔۔۔ خورشید و ماہ اُس کے فرمان سے حرَکت میں آئے۔۔۔ اور ارضِ سیاہ اُس [کے فرمان] سے بے حرَکت و ساکِن ہے۔۔۔ اُس نے طاقِ فیروزہ رنگ (یعنی آسمانِ نیلگُوں) کو [ہمارے سروں پر] بُلند کیا۔۔۔ وہ [تاریک] شب کے ایوان سے صُبح [کی سفیدی] کو بیرون و بالا لاتا ہے۔ شبِ تاریک اُس کے بام کی غُلام ہے۔۔۔ [سُرخ] شفَق اُس کے جام سے دُرْدِ شراب نوش کرتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
نیست در عالم بہشتے خوشتر از خلوت مرا
دوزخے نبود بتر از گرمیِ صحبت مرا


محمد افضل سرخوش

میرے لیے اِس دنیا میں گوشۂ تنہائی سے بہتر کوئی جنت نہیں ہے اور کسی دوزخ کی گرمی، لوگوں سے ملنے جلنے کی گرمی سے بدتر نہیں ہوگی۔
 
شاہنامۂ فردوسی کے بعض نُسخوں میں ایک جا یہ حمدیہ ابیات درج ہیں:
خداوندِ بی‌یار و انباز و جُفت
از او نیست پیدا و پِنهان نُهُفت
جهان‌آفریننده و بی‌نیاز
به فرمانِ او دان نِشیب و فراز
روان شد به فرمانِ او خور و ماه
وز او دارد آرام خاکِ سیاه
فرازندهٔ طاقِ فیروزه‌فام
برآرندهٔ صُبح ز ایوانِ شام
شبِ عنبرین هِندویِ بامِ اُوی
شفق دُردآشام از جامِ اُوی

(منسوب به فردوسی طوسی)
وہ خُداوندِ بے یار و بے شریک و بے جُفت ہے۔۔۔ ظاہر و پِنہاں اُس سے چُھپا ہوا نہیں ہے۔۔۔ وہ خالقِ جہاں اور بے نیاز ہے۔۔۔ [زمانے کے] نِشیب و فراز کو اُس کے حُکم سے جانو۔۔۔ خورشید و ماہ اُس کے فرمان سے حرَکت میں آئے۔۔۔ اور ارضِ سیاہ اُس [کے فرمان] سے بے حرَکت و ساکِن ہے۔۔۔ اُس نے طاقِ فیروزہ رنگ (یعنی آسمانِ نیلگُوں) کو [ہمارے سروں پر] بُلند کیا۔۔۔ وہ [تاریک] شب کے ایوان سے صُبح [کی سفیدی] کو بیرون و بالا لاتا ہے۔ شبِ عنبریں و تاریک اُس کے بام کی غُلام ہے۔۔۔ [سُرخ] شفَق اُس کے جام سے دُرْدِ شراب نوش کرتی ہے۔

کیا گنجور میں شاہنامے کی تمام ابیات موجود ہیں؟ میرا گمان ہے کہ شاہنامہ مکمل گنجور پر نہیں۔۔۔۔میرے پاس مہناز ثالثیان کا کتابچہ "شاه‌بیت‌هایِ شاه‌نامه" میں مندرجہ بالا ابیات موجود ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
کیا گنجور میں شاہنامے کی تمام ابیات موجود ہیں؟ میرا گمان ہے کہ شاہنامہ مکمل گنجور پر نہیں۔۔۔۔میرے پاس مہناز ثالثیان کا کتابچہ "شاه‌بیت‌هایِ شاه‌نامه" میں مندرجہ بالا ابیات موجود ہیں
شاہنامۂ فردوسی کے کئی مطبوعہ نُسخے ہیں، جن میں تصحیح کُنندگان نے اپنی اپنی تحقیق اور ذوقِ ادبی کے مُطابق شاہنامہ کو مُرتَّب کیا ہے۔ جلال خالقی مُطلق کے ترتیب دادہ شاہنامہ کو عموماً مُعتمَد اور بہترین مانا جاتا ہے۔ اُس کے علاوہ، شُورَوی دور میں مُحقِّقوں کی جانب سے ماسکو میں شائع ہونے والی ویرائش کو بھی اہم تر سمجھا جاتا ہے، جو بعد میں تاجکستان میں دس جلدوں میں رُوسی رسم الخط میں بھی شائع ہوئی تھی۔
میں گنجور کا نُسخہ استعمال نہیں کرتا، اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس مطبوعہ اشاعت پر مبنی ہے۔ میں زیادہ تر ماسکو کی ویرائش پر مبنی تاجکستانی نُسخہ استعمال کرتا ہوں۔ اُس میں مندرجۂ بالا ابیات اصل متن کا حصّہ نہیں، بلکہ حاشیے میں ثبت ہیں۔ حاشیے میں وہ ابیات لِکھی گئی ہیں جو اُن مُحقِّقوں کی تحقیق کے مُطابق شاہنامۂ فردوسی کا حِصّہ نہیں ہیں، یا جن کے بارے میں وہ مُطمئن نہیں تھے، لیکن شاہنامۂ فردوسی کے کسی ایک یا کئی قلمی نُسخوں میں وہ ابیات موجود ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہودی فارسی شاعر «عِمرانی» کی ایک نصیحت:
با مردُمِ بی‌ادب میامیز
از صُحبتِ بی‌خِرد بِپرهیز

(عمرانی)
بے ادب مردُم کے ساتھ اِختلاط مت کرو۔۔۔ بے عقل کی صُحبت سے پرہیز کرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
ناز زیبندهٔ خوبانِ جهان است ولیک
نه بدان مایه که آزُرده شوند اهلِ نیاز

(پرویز ناتِل خانلَری)
ناز خُوبانِ جہاں کو زیب دیتا ہے، لیکن اِس قدر [ناز] نہیں کہ اہلِ نیاز (عاشقان) آزُردہ ہو جائیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خار و خسِ کُویِ دوست بِه ز گُل است، ای رفیق
نخلِ سرِ خاکِ من زان خس و خاشاک کُن

(عبدالرحمٰن جامی)
اے رفیق! کُوئے دوست کا خار و خس، گُل سے بہتر ہے۔۔۔ میری خاک (قبر) کے سِرہانے کا درخت اُس خس و خاشاک سے کرنا۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی شاعر «خیالی بیگ» کی ایک فخریہ بیت، جس میں اُنہوں نے خود کو تُرکی شاعروں «نِجاتی بیگ» اور «امیر علی‌شیر نوایی» سے افضل و برتر بتایا ہے۔ بیت کا مصرعِ اوّل تُرکی میں، اور مصرعِ دُوُم فارسی میں ہے:
سۏڭرا گلدۆم‌سه نجاتی‌یله نوایی‌دن نه غم
خار اوّل سر زند از شاخ و بعد از خار گُل
(خیالی بیگ)

اگر میں «نِجاتی» اور «نوائی» کے بعد آیا ہوں تو کیا غم ہے؟۔۔۔ شاخ سے اوّلاً خار سر بیرون نِکالتا ہے، اور خار کے بعد گُل [نِکلتا ہے]۔

Soñra geldümse Necâtîyle Nevâyîden ne ġam
Ḫâr evvel ser zened ez şâḫ u bâ'd ez ḫâr gül
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«صدرِ اعظم خُسرَو پاشا» کی مدح میں عُثمانی شاعر «نفْعی» کی ایک بیت جو بہ یک وقت تُرکی بھی ہے، اور فارسی بھی ہے:
قهرَمانِ وُزَرا صف‌شکنِ قلعه‌گُشا

مردِ میدانِ وغا صف‌درِ حیدرشمشیر
(نفعی)
[وہ] قہرَمانِ وزیراں [ہے]، [وہ] قلعہ فتح کرنے والا صف شِکن [ہے]۔۔۔ [وہ] مردِ میدانِ جنگ [ہے]، [وہ] حیدر کی شمشیر والا صفدر [ہے]۔
× قہرَمان = ہِیرو × صفدر = صف پھاڑ/چِیر دینے والا

Kahramân-ı vüzerâ saf-şiken-i kal’a-güşâ
Merd-i meydân-ı vegâ saf-der-i Hayder-şemşîr
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ علی کی مدح میں کہے گئے ایک تُرکی قصیدے سے ایک بیت، جو بہ یک وقت تُرکی بھی ہے اور فارسی بھی ہے:
شهِ سریرِ نجف، آفتابِ اوجِ شرف
علیِّ عالیِ اعلا، قسیمِ جنّت و نار

(محمد فضولی بغدادی)
[وہ] شاہِ تختِ نجف [ہیں]، [وہ] آفتابِ اَوجِ شرَف [ہیں]، [وہ] علیِ عالیِ اعلیٰ [ہیں]، [وہ] قسیمِ جنّت و جہنّم [ہیں]۔

Şeh-i serîr-i Necef âf-tâb-ı evc-i şeref
Aliyy-i âli-i a’lâ kasîm-i cennet ü nâr
 

حسان خان

لائبریرین
جب مردُمِ افغانستان رُوسی افواج کے خلاف لڑ رہے تھے تو ایک افغان شاعر نے کہا تھا:
بی‌اثر گردد طلسمِ ظُلم و استبدادِ روس
می‌شوند آخر فنا از خاکِ مایان غم مخور

(غلام جیلانی ذیغم)
رُوس کے ظُلم و اِستِبداد کا طِلِسم بے اثر ہو جائے گا۔۔۔ بالاخر وہ ہماری خاک سے فنا ہو جائیں گے، غم مت کھاؤ!
 

حسان خان

لائبریرین
به هر سُو رُو کنم آن‌جا رُخِ دل‌دار می‌بینم
به هر جایی که باشم هم‌رهٔ خود یار می‌بینم

(ابوالمُشتاق نظر محمّد فیضی)
میں جس جانب بھی رُخ کروں، وہاں رُخِ دلدار دیکھتا ہوں۔۔۔ میں جس جگہ بھی ہوؤں، اپنے ہمراہ یار دیکھتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دولتِ بیدارِ عرفاں داد حق نعم البدل
کرد گر گردونِ دوں محروم از دولت مرا


محمد افضل سرخوش

حق تعالیٰ نے مجھے عرفان و معرفت کی خوش بخت اور جاودانی دولت نعم البدل کے طور پر عطا کر دی، جب سفلے اور پست آسمان نے مجھے (دنیاوی) دولت سے محروم کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی شاعر «یۏزغات‌لې محمد سعید فنّی» (وفات: ۱۹۱۸ء) کی ایک فارسی بیت:
گفتگویِ لعلِ رنگینش زبانم لال کرد
تارِ گیسویِ سیاهش از سرم هوشم رُبود

(یۏزغات‌لې محمد سعید فنّی)
اُس کے رنگین لعلِ لب کی گفتگو نے میری زبان کو گُنگ کر دیا۔۔۔ اُس کے گیسوئے سیاہ کے تار نے میرے سر سے میرا ہوش چھین لیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دل‌بر برایِ کُشتنِ من استخاره کرد
چون استخاره خوب نیامد دوباره کرد

(میرزا جواد شوقی)
دلبر نے میرے قتل کے لیے استخارہ کیا۔۔۔ جب استخارہ خوب نہ آیا تو دوبارہ کیا۔
 

فہد اشرف

محفلین
یہودی فارسی شاعر «عِمرانی» کی مثنوی «ساقی‌نامه» سے دو ابیات:
بِدِه ای ساقی آن مَیِ پُرحال
که ازو اهلِ دل رسد به کمال
که بِنوشم به نالهٔ دف و نَی
که حلال است عاشقان را مَی

(عمرانی)
اے ساقی! وہ شرابِ پُرحال دو کہ جس سے اہلِ دل کمال تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔ تاکہ میں دف و نَے کے نالے کے ساتھ نوش کروں، کیونکہ عاشقوں کے لیے شراب حلال ہے۔
حسان خان بھائی ”شرابِ پر حال“ کی ترکیب سمجھ میں نہیں آ رہی کچھ اور روشنی ڈالیں اس پہ۔
شکریہ
 
Top