محمد وارث

لائبریرین
ز آسماں طلبیدم نشانِ راحت، گفت
اگر سوال غلط باشد از جواب چہ حظ


عرفی شیرازی

میں نے آسمان سے راحت و نشاط و آرام و سکون و خوشی و آسودگی کا پتا پوچھا تو آسمان سے آواز آئی کہ اگر سوال ہی غلط ہو تو پھر جواب دینے کا کیا لُطف اور کیا فائدہ؟
 

حسان خان

لائبریرین
گر به ظاهر کاهلم امّا به باطن چابُکم
تن اگر خاک است امّا دل سراپا آتش است

(نظیری نیشابوری)
اگرچہ میں بہ ظاہر کاہِل ہوں، لیکن میں بہ باطن چابُک ہوں۔۔۔ تن اگرچہ خاک ہے لیکن دل سراپا آتش ہے۔
× چابُک = پُھرتِیلا
 

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عُثمانی سُلطان سُلیمان قانونی متخلّص بہ 'مُحِبّی' کی ایک فارسی بیت:
منم عشقت گریبان چاک کرده
گریبان چیست دل و جان چاک کرده

(سلطان سلیمان قانونی 'مُحِبّی')
میں وہ ہوں [کہ جس کا] گریبان تمہارے عشق نے چاک کر دیا ہے۔۔۔ گریبان کیا ہے، [بلکہ] دل و جان چاک کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سهل باشد مُرده را گر زنده می‌سازد سلیم
همچو عیسیٰ از لبِ او دیده‌ام اعجازها

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اگر 'سلیم' مُردے کو زندہ کرتا ہے تو سہل ہے (کوئی چیزِ عجب نہیں)۔۔۔ میں نے عیسیٰ کی طرح اُس کے لب سے مُعجِزے دیکھے ہیں۔
(شاعر کہہ رہا ہے کہ میری شاعری اور میرا سُخن بھی کلامِ عیسیٰ کی طرح مُعجِزآفریں ہے، اور اُس کو سُن کر مُردے زندہ ہو جاتے ہیں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
شُعلهٔ آهم نماید مَیلِ گردون هر شبی
هر شرارِ او کند روشن چراغِ کَوکبی

(امیر علی‌شیر نوایی)
میری آہ کا شُعلہ ہر ایک شب فلک کی جانب رُخ کرتا ہے (یعنی فلک کی طرف نِکلتا ہے)۔۔۔ اُس کا ہر شرار کسی سِتارے کے چراغ کو روشن کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دیارِ ہند کی نِکوہش (مذمّت) میں ایک بیت:
سلیم هندِ جگرخوار خورْد خونِ مرا
چه روز بود که راهم به این خراب افتاد

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اے 'سلیم'! ہندِ جگرخوار نے میرا خُون پی لیا۔۔۔ وہ کیسا روزِ [بد] تھا کہ [جب] میری راہ اِس ویرانے کی جانب چلی آئی!

× روایات کے مطابق ہِند بنت عُتبہ نے غزوۂ اُحُد میں حضرتِ حمزہ بن عبدالمُطّلب کا جگر کھایا تھا، اُسی کی مناسبت سے دیارِ ہند کو بھی مندرجۂ بالا بیت میں جگرخوار (یعنی ظالم و ستمگر و بدبخت وغیرہ) کہا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غُبارِ من ز غریبی سلیم رفت به باد
هنوز در دلِ من حسرتِ وطن باقی‌ست

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اے سلیم! غریب الوطنی کے باعث میرا غُبار ہوا میں نابود ہو گیا۔۔۔ [لیکن] ہنوز میرے دل میں حسرتِ وطن باقی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز من شکایتِ آن جورپیشه برعکس است
فغانِ سنگ ز بیدادِ شیشه برعکس است

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اُس سِتم پیشہ کی میرے بارے میں شِکایت برعکس ہے۔۔۔ شیشے کے ظُلم کے باعث سنگ کی فغاں برعکس ہے۔
(یعنی اگر وہ سِتم پیشہ میرے باعث شکایت کر رہا ہے تو یہ ایسا ہی کہ گویا شیشے کے ظُلم کے باعث کوئی سنگ فریاد کر رہا ہو۔ اصل قِصّہ برعکس ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
یک عُمر می‌توان سُخن از زُلفِ یار گُفت
در بندِ آن مباش که مضمون نمانده‌است

(صائب تبریزی)
زُلفِ یار کے بارے میں ایک عُمر تک سُخن کہا جا سکتا ہے۔۔۔ اِس [چیز] کے خیال و فِکر میں نہ رہو کہ مضمون باقی نہیں رہا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خدا از دستِ دُشمن کارِ مُحتاجاں بروں آرد
خمِ مے محتسب بشکست، عیدِ بادہ خواراں شد


میرزا رضی دانش مشہدی

خدا، دُشمن کے ہاتھوں سے بھی محتاجوں کا کام بنا دیتا ہے، مے کا مٹکا تو محتسب نے توڑا اور (مفلس و محتاج) مے نوشوں کی عید ہو گئی (کہ مفت میں گری ہوئی مے مل گئی)۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر پدر را هست سامانی پِسر در راحت است
ریشهٔ گُلبُن چو سیراب است شاخش خُرّم است

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اگر پدر کے پاس اسباب و سامان موجود ہو تو پِسر راحت میں رہتا ہے
جب درخت کی بیخ (جڑ) سیراب ہو تو اُس کی شاخ تازہ و شاداب و خُرّم رہتی ہے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دریابد اگر چاشنیِ تلخیِ عُمرم
از آبِ بقا خضر کشد دست و دهن را

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اگر خِضر میری عُمر کی تلخی کی چاشنی کا اِدراک کر لے تو وہ آبِ حیات سے دست و دہن کھینچ لے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چند روزِ زندگی بر ما گِرانی می‌کند
خضر دایم در جهان چون زندگانی می‌کند

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
زندگی کے چند روز [ہی] ہم کو گِراں و مشقّت آور معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ [لہٰذا ہم حیران ہیں کہ] خِضر دُنیا میں دائِماً زندگانی کیسے کرتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
گُل‌رُخان را سُخنم کرد به من رام سلیم
که غزالِ غزلم آهویِ آهوگیر است

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اے سلیم! گُل رُخوں کو میرے سخُن نے میرا مُطیع و رام کر دیا۔۔۔ کہ میری غزل کا غَزال، آہُو پکڑنے والا آہُو ہے۔
× آہُو = ہِرن
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
مُردم و آسوده از دردِ سرِ عالَم شُدم
(محمد قُلی سلیم تهرانی)
میں مر گیا اور دُنیا کے دردِ سر سے آسُودہ ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
خرابِ لعلِ لبت کَی شراب می‌گیرد
(محمد قُلی سلیم تهرانی)
جو شخص تمہارے لعلِ لب کا بدمست ہو وہ کب شراب لیتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
عیب‌پوشی چشم نتْوان داشت از اهلِ جهان
بیشتر دستار اینجا از سرِ کَل می‌بَرند

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اہلِ جہاں سے عیب پوشی کی توقُّع نہیں رکھی جا سکتی۔۔۔ یہاں دستار زیادہ تر گنجے کے سر سے اُتارتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چشم بر راہند مے خواراں کہ کی باراں شود
ابر می خواہند مستاں، خانہ گو ویراں شود


میرزا سنجر

سارے مے خوار منتظر ہیں کہ کب بارش ہو، مست تو بس بارش چاہتے ہیں، چاہے (بارش کی زیادتی سے اُن کے) گھر ویران ہو جائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک طنز آلود بیت:
خواهی اگر گزند نبینی ز روزگار
درویش! هر چه هست تو را نذرِ شاه کن

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
اگر تم چاہتے ہو کہ زمانے سے [کوئی] گزند و ضرر نہ دیکھو تو، اے درویش، تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے، اُس کو شاہ کی نذر کر دو۔
 
Top