جس کو فارسی شاعری کی بحروں اور آہنگ سے ذرا بھی آشنائی ہے، اُس کو یہ سمجھنے میں مشکل نہ ہو گی۔معلومات کے لئے شکریہ - سندھی میں بھی یوں ہی رائج ہے-مگر اس طرز میں مشکل یہ ہے کہ صرف اہل زبان یا زبان دان ہی سمجھ سکتا ہے کہ کہاں غنہ کرنا ہے کہاں نہیں -
فارسی شاعری موردِ گفتگو ہے، جناب۔ اردو شاعری پر اِس اُصول کو بہ کار لانے کی ضرورت نہیں ہے۔آہنگ کے لحاظ سے تو یہ اصول مستحسن نہیں لگتا -
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
احمد فراز کے مصرع میں جاناں جاناں تو پھر یوں تلفظ ہوگا :
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانن جانن
فارسی شاعری موردِ گفتگو ہے، جناب۔ اردو شاعری پر اِس اُصول کو بہ کار لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیونکہ آپ کے کان اردو کے نُونِ غُنّہ سے اُنس و خُو گرفتگی رکھتے ہیں، اِس لیے نُونِ غُنّہ کے بغیر اِن الفاظ کا تصوُّر آپ کو مُشکل اور ناخوشایند لگ رہا ہے، لیکن ذہن میں رہنا چاہیے کہ فارسی، تُرکی اور پشتو وغیرہ میں «جانان» نُونِ غُنّہ کے بغیر ہی تلفُّظ کیا جائے گا۔مقصود یہ ہے کہ "جاناں " چونکہ فارسی لفظ ہے -اکٹھے دو بار آکر مذکورہ قاعدے سے ملفوظ ہوا تو یوں ہی سنائی دے گا :"جانن جانن " ----"جاناں جاناں " اور "جانن جانن "کے آہنگ میں بڑا فرق ہے -پہلی آواز کانوں کو خوش آتی ہے دوسری نہیں -
جو دوستان فارسی زبان نہیں جانتے، اور اردو ترجمے کی مدد سے بیت کا مفہوم سمجھتے ہیں، اُن کی اطلاع کے لیے ایک چیز بتانا چاہتا ہوں: اردو میں مصدر (فعل کی جڑ + نا) مصدری معانی کے علاوہ امرِ مُستقبل و تأکیدی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً، یہ دو جملے دیکھیے:در رہِ ویرانِ دل، اقلیمِ دانش ساختن
در رہِ سیلِ قضا، بنیاد و بنیاں داشتن
پروین اعتصامی
ویران دل کی اُجاڑ راہوں میں، عقل و دانش و علم و ہنر کی سلطنت بنا لینا، اور تقدیر کے تُند و تیز سیلاب کے راستوں میں اساس و بنیاد رکھنا۔
(رباعی)دیارِ ہند کی نکوہِش (مذمّت) اور دیارِ کشمیر کی سِتائش میں ایک بیت:
کردهست هوایِ هند دلگیر مرا
ای بخت رسان به باغِ کشمیر مرا
(غنی کشمیری)
ہِند کی آب و ہوا نے مجھ کو دل گیر کر دیا ہے۔۔۔ اے بخت! مجھ کو باغِ کشمیر میں پہنچا دو۔