حسان خان

لائبریرین
آن ماه را ز سوزِ خود آگاه چون کنم؟
امکانِ دم زدن نبُوَد آه چون کنم؟

(ظهیرالدین محمد بابُر)
میں اُس [مثلِ] ماہ [محبوب] کو خود کے سوز سے آگاہ کیسے کروں؟۔۔۔ [یہاں] دم مارنے (یعنی سانس کھینچنے) کا [بھی] اِمکان نہیں ہے، میں آہ کیسے کروں؟
 

حسان خان

لائبریرین
رُخ نمودی و به من مُردنم آسان کردی
ورنه در فُرقتِ تو زیستنم مُشکِل بود

(ظهیرالدین محمد بابُر)
تم نے چہرہ دکھایا اور میرے مرنے کو میرے لیے آسان کر دیا۔۔۔ ورنہ تمہاری فُرقت میں میرا زندگی کرنا مُشکِل تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
حَرف ظرف آمد، در او معنی چو آب
(مولانا جلال‌الدین رومی)
حُروف ظَرف (برتن) کی مانند ہیں اور معنی اُس میں آب کی مانند ہے۔ یعنی جس طرح آب کو ظرف میں اُنڈیلتے ہیں، اُسی طرح معنی کو بھی قالبِ حُروف میں اُنڈیلا جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از مولانا رُومی

در راہِ طلب عاقل و دیوانہ یکیست
در شیوۂ عشق خویش و بیگانہ یکیست
آں را کہ شرابِ وصلِ جاناں دادند
در مذہبِ اُو کعبہ و بُتخانہ یکیست


(حقیقت کی) طلب کی راہ میں عقلمند اور دیوانہ ایک برابر ہیں، اور شیوۂ عشق میں اپنا اور بیگانہ ایک جیسے ہی ہیں۔ وہ کہ جسے محبوبِ حقیقی کے وصل کی شراب پلا دی گئی، اُس کے مذہب میں کعبہ اور بتخانہ ایک ہی ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنوی» کی سِتائش میں دو ابیات:
به بزم اندرون آسمانِ وفاست
به رزم اندرون تیزچنگ اژدهاست
به تن ژَنده‌پیل و به جان جبرئیل
به دست ابرِ بهمن، به دل رُودِ نیل
(فردوسی طوسی)

وہ بزم کے اندر آسمانِ وفا ہے۔۔۔ وہ رزم کے اندر تیز پنجے والا اژدَہا (ڈریگن) ہے۔۔۔ وہ تن کے لحاظ سے ہیبت‌ناک و عظیم‌الجُثّہ فِیل ہے اور جان و روح کے لحاظ سے جبرئیل ہے۔۔۔ وہ دستِ [جُود و سخاوت] کے لحاظ سے ابرِ [ماہِ] بہمن ہے اور [وُسعت و فراخیِ] دل کے لحاظ سے رُودِ (دریائے) نِیل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا بردَرم به یادِ تواَش صد هزار بار
هر لحظه صد هزار گریبانم آرزوست

(پژواک)
مجھے ہر لمحہ صد ہزار گریبانوں کی آرزو ہے تاکہ میں اُن کو تمہاری یاد میں صد ہزار بار پھاڑ ڈالوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
هلاک می‌کُنَدم فُرقتِ تو، دانستم
وگرنه رفتن ازین شهر می‌توانستم
(ظهیرالدین محمد بابُر)

میں جان گیا [تھا] کہ تمہاری فُرقت مجھ کو ہلاک کر دے گی۔۔۔ ورنہ میں اِس شہر سے چلے جانے پر قادِر تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون دِهد قاضی به دل رِشوت قرار
کَی شِناسد ظالم از مظلومِ زار؟

(مولانا جلال‌الدین رومی)
جب قاضی [اپنے] دل میں رِشوت کو نصب کر لے تو پھر وہ ظالم اور مظلومِ زار کے درمیان کب فرق کرے گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «مسعود سعد سلمان لاهوری» اپنے ہم‌عصر شاعر «ابوالفَرَج رُونی» کی سِتائش میں کہتے ہیں:
نازم بدان که هستم شاگردِ تو
شادم بدان که هستی اُستادِ من

(مسعود سعد سلمان لاهوری)
میں اِس پر ناز کرتا ہوں کہ میں تمہارا شاگرد ہوں، اور میں اِس پر شاد ہوں کہ تم میرے اُستاد ہو۔
 
ای مژدهٔ دیدارِ تو چون عید مبارک
فردوس به چشمی‌که ترا دید مبارک
(بیدل دهلوی)

اے وہ کہ تیرے دیدار کی نوید عید کی مانند مبارک ہے۔ جنتِ فردوس نے جس چشم (آنکھ) سے تجھے دیکھا وہ مبارک ہے۔
 
ای بیخردان! غرهٔ اقبال مباشید!
دولت نبود بر همه جاوید مبارک
(بیدل دهلوی)

اے نادانوں! (اپنی) نیک بختی سے فریب خوردہ و مغرور مت ہو! سعادت مندی ہر کسی پر ہمیشہ مبارک و بابرکت نہیں رہتی۔
 
دیوانه‌ام امروز به پیشِ که بنالم
ای کاش عدم بشنود آوازِ بعیدم
(بیدل دهلوی)

میں دیوانہ ہوں۔ امروز (آج) کس کے پیش گریہ و فریاد کروں؟ اے کاش! عدم میری آوازِ بعید سن لے!
 

حسان خان

لائبریرین
چشمم که هر دم می‌کند غُسلی به خونابِ جگر
با این طهارت نیستم زیبایِ دیدارِ شما
(سلمان ساوَجی)

میری چشم ہر لحظہ خونابِ جگر کے ساتھ اِک غُسل کرتی ہے۔۔۔ [لیکن] اِس طہارت کے باوجود مَیں آپ کے دیدار کا لائق و سزاوار نہیں ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
اظهارِ عَجز پیشِ ستم‌پیشگان خطاست
اشکِ کباب باعثِ طُغیانِ آتش است
(صائب تبریزی)

سِتم‌پیشہ افراد کے پیش میں عاجزی و ناتوانی کا اظہار خطا ہے کیونکہ اشکِ کباب آتش کی [مزید] طُغیانی کا باعث [بنتے] ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عمرے بہ گردِ کوئے تو گشتم چو بیدلاں
نے دل بہ دستم آمد و نے آرزوئے دل


امیر خسرو

ساری عمر میں نے بیدل (عاشق) لوگوں کی طرح تیرے کوچے میں گُھومتے ہوئے گزار دی، لیکن نہ ہی دل میرے ہاتھ میں آیا اور نہ ہی دل کی کوئی آرزو۔
 
اظہارِ عجز پیشِ ستم پیشگاں خطاست
اشکِ کباب باعثِ طغیانِ آتش است

صائب تبریزی

ستم پیشہ، ظالم لوگوں کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا غلطی ہے کیونکہ کباب سے گرنے والے قطرے آگ کو مزید بڑھکا دیتے ہیں۔

اظهارِ عَجز پیشِ ستم‌پیشگان خطاست
اشکِ کباب باعثِ طُغیانِ آتش است
(صائب تبریزی)

سِتم‌پیشہ افراد کے پیش میں عاجزی و ناتوانی کا اظہار خطا ہے کیونکہ اشکِ کباب آتش کی [مزید] طُغیانی کا باعث [بنتے] ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
«امیر نصر بن احمد سامانی» کی مدح میں دو ابیات:
حاتَمِ طایی تویی اندر سخا
رُستمِ دستان تویی اندر نبرد
نی، که حاتَم نیست با جُودِ تو راد
نی، که رُستم نیست در جنگِ تو مرد
(رودکی سمرقندی)

سخاوت کے اندر حاتَمِ طائی تم ہو۔۔۔ نبرْد کے اندر رُستم بن دستان تم ہو۔۔۔ نہیں نہیں! کہ حاتَم تمہارے جُود و سخا کے ہوتے ہوئے سخی نہیں ہے!۔۔۔ نہیں نہیں! کہ رُستم تمہاری جنگ میں (یعنی تمہارے ساتھ جنگ میں) مرد نہیں ہے!
 

حسان خان

لائبریرین
«شاہ عبّاسِ دومِ صفوی» کی سِتائش میں ایک بیت:
رسیده‌اند به دولت ازو و اجدادش
چه بابُر و چه هُمایون چه خُسروِ توران
(صائب تبریزی)

خواہ بابُر ہو، خواہ ہُمایوں، یا خواہ پادشاہِ تُوران ہو، وہ اُس (شاہ عبّاسِ دومِ صفوی) کے اور اُس کے اجداد کے باعث اقبال‌مندی و اقتدار پر پہنچے ہیں۔
 
Top