حسان خان

لائبریرین
گُفته‌ست به هر غُنچه صبا لُطفِ دهانت
مانده‌ست ز حیرت همه را باز دهن‌ها

(عبدالرحمٰن جامی)
[بادِ] صبا نے ہر غُنچے کو تمہارے دہن کی لطافت و خوبی بیان کی ہے۔۔۔ حیرت سے تمام [غُنچوں] کے دہن کُھلے رہ گئے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«امیر ابوالمُظفّر فخرالدوله احمد بن محمد چَغانی» کی مدح میں ایک بیت:
افسرِ زرّین فرستد آفتاب از بهرِ تو
همچُنان کز آسمان آمد علی را ذوالفقار

(فرُّخی سیستانی)
خورشید تمہارے لیے تاجِ زرّیں بھیجتا ہے۔۔۔ ویسے ہی جس طرح آسمان سے حضرتِ علی کے لیے ذوالفقار آئی تھی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ابر اگر عاشق نشد چون من چرا گِرید همی
باد اگر شیدا نشد چون من چرا شد بی‌قرار

(انوَری ابیوَردی)
ابر اگر [کسی کا] عاشق نہیں ہوا تو پس کس لیے وہ میری طرح گِریہ کرتا ہے؟۔۔۔ باد (ہوا) اگر [کسی کی] شَیدا نہیں ہوئی تو پس کس لیے وہ میری مانند بے قرار ہو گئی [ہے]؟
 

محمد وارث

لائبریرین
لب تر نکردہ ایم ز جام و سبوئے کس
جاوید مست جرعہ و پیمانۂ خودیم


عرفی شیرازی

ہم نے کسی دوسرے کے جام و سبو سے اپنے لب تر نہیں کیے بلکہ اپنے ہی جرعہ و پیمانہ سے ہمیشہ کے لیے مست ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنوی» کی سِتائش میں ایک بیت:
ز بهرِ قویِ کردنِ دینِ ایزد
همی‌گردد اندر جهان چون سِکندر

(فرُّخی سیستانی)
وہ دینِ خُدا کو قوی کرنے کے لیے سِکندر کی مانند جہان میں گھومتا پِھرتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنوی» کی سِتائش میں ایک بیت:
ز کشمیر تا پیشِ دریایِ چین
بر او شهریاران کُنند آفرین
(فردوسی طوسی)

کشمیر سے لے کر بحرِ چین کے ساحل تک، [تمام] پادشاہان اُس پر آفرین کرتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
«خواجه جلیل عبدالرزاق بن احمد بن حسن میمندی» کی مدح میں ایک بیت:
به روزِ معرَکه با دُشمنِ خُدای، علی
به ذوالفقار نکرد آن‌چه او کند به قصَب

(فرُّخی سیستانی)
جنگ و نبر‌ْد کے روز دُشمنِ خُدا کے ساتھ جو کچھ وہ [محض اپنے] بانْس کے ذریعے کرتا ہے، ویسا حضرتِ علی نے [بھی اپنی] ذوالفقار کے ذریعے نہ کیا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«خواجه ابوسهل احمد بن حسن حمدوی» کے لیے ایک دُعائیہ بیت:
همواره شادمانه زِیاد و به هر مُراد
توفیق جُفتِ او و خُداوند یارِ او

(فرُّخی سیستانی)
وہ ہمیشہ شادمانہ جیے! اور [اُس کی] ہر مُراد میں توفیقِ [خُداوندی] اُس کی شریک، اور خُداوند تعالیٰ اُس کا یار ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
شاهی‌ست که تو هر چه بِپوشی داند
بی‌کام و زبان گر بِخُروشی داند
هر کس هوَسِ سُخن‌فُروشی داند
من بندهٔ آنم که خموشی داند

(مولانا جلال‌الدین رومی)
وہ اِک [ایسا] شاہ ہے کہ تم جو کچھ بھی پوشیدہ کرو (رکھو)، جانتا ہے۔۔۔ تم اگر دہن و زبان [کی آواز] کے بغیر بانگ و فریاد کرو، [تو بھی] وہ جانتا ہے۔۔۔ ہر شخص سُخن‌فروشی کی آرزو جانتا ہے (یعنی ہر شخص سُخن‌فروشی کا اشتیاق و خواہش رکھتا ہے)۔۔۔ [لیکن] میں اُس شخص کا غُلام ہوں کہ جو خاموشی جانتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«ملِک ارسلان ارغو» کی مدح میں ایک بیت:
سُنّی او را چو عُمَر داند و شیعی چو علی

زان که هم عِلمِ علی دارد و هم عدلِ عُمَر
(امیر مُعِزّی نیشابوری)
سُنّی اُس کو حضرتِ عُمَر جیسا، جبکہ شیعی اُس کو حضرتِ علی جیسا گُمان کرتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ وہ حضرتِ علی کے عِلم کا بھی حامِل ہے، اور حضرتِ عُمَر کے عدل کا بھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان احمد سنجر سلجوقی» کی سِتائش میں ایک بیت:
روزِ کین و رزم در پیکار کردن چون علی
روزِ دین و داد در ا‌نصاف دادن چون عُمَر

(امیر مُعِزّی نیشابوری)
وہ جنگ و رزْم کے روز پَیکار کرنے میں حضرتِ علی کی مانند ہے۔۔۔ وہ جزا و عدل کے روز اِنصاف دینے میں حضرتِ عُمَر کی مانند ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آتشِ عشق درین پردهٔ ناموس زنیم
هرچه هستیم برِ خلق نمودار شویم

(فیض کاشانی)
[آئیے،] ہم [اپنے] اِس پردۂ ناموس میں آتشِ عشق لگا دیں، [اور] ہم جو کچھ ہیں (یعنی ہم جیسے ہیں ویسے ہی) مردُم کے سامنے نمودار ہو جائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان مسعود بن سُلطان محمود غزنوی» کی سِتائش میں ایک بیت:
به تو زنده و تازه شد تا قیامت
نکو رسم و آیینِ بوبکر و عُمّر
(فرُّخی سیستانی)

تمہارے ذریعے سے حضراتِ ابوبکر و عُمَر کی رسم و روِشِ خوب تا قیامت زندہ و تازہ ہو گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
ای دل! اگرت هوایِ این درگاه است
بِگْذر ز وُجودِ خود که سدِّ راه است
نفْیِ خود و اِثباتِ خُدا باید کرد
این معنیِ لا اِلٰهَ اِلّا الله است

(محمد فضولی بغدادی)
اے دل! اگر تمہیں اِس درگاہ کی آرزو ہے۔۔۔ تو خود کے وُجود کو تَرک کر دو کہ [یہ] سدِّ راہ ہے۔۔۔ خود کی نفی اور خُدا کا اِثبات کرنا لازِم ہے۔۔۔ یہ [ہی] «لا اِلٰهَ اِلّا الله» کا معنی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شہرِ «غزنین» اور اُس کے اطراف کا خِطّہ «زابُلِستان» کہلاتا تھا۔ «شاہنامۂ فردوسی» کے مطابق، اِسی خِطّے میں «رُستم» مُتولّد ہوا تھا اور یہ سرزمین «رُستم» کے آباء و اجداد کی ولایت و قلمرَو تھی۔ اور جیسا کہ معلوم ہے، سلاطینِ غزنوی بھی «زابُلستان» کے شہر «غزنین» سے منسوب تھے، کیونکہ یہ شہر اُن کا پایتخت تھا۔ جنابِ «فرُّخی سیستانی» نے «سُلطان مسعود بن سُلطان محمود غزنوی» کی سِتائش میں کہے ایک قصیدے میں سُلطان کو «رُستم» سے برتر بتاتے ہوئے یہ لِکھا ہے:
مخوان قصّهٔ رُستمِ زاوُلی را
ازین پس دِگر، کان حدیثی‌ست مُنکَر
از این پیش بوده‌ست زاوُلستان را
به سامِ یل و رُستمِ زال مَفخَر
ولیکن کُنون عار دارد ز رُستم
که دارد چو تو شهریاری دِلاور
ز جایی که چون تو ملِک مرد خیزد
کس آنجا سُخن گوید از رُستمِ زر؟

(فرُّخی سیستانی)
اب اِس کے بعد سے رُستمِ زابُلی کا قِصّہ مزید زبان پر مت لاؤ، کیونکہ وہ [اب] ایک ناروا و ناپسندیدہ قِصّہ ہے۔۔۔ اِس سے قبل زابُلستان کو سامِ پہلوان اور رُستم بن زال پر فخر رہا ہے۔۔۔ لیکن حالا (اب) وہ رُستم سے شرم و عار محسوس کرتا ہے، کیونکہ وہ تم جیسا اِک پادشاہِ دلاور رکھتا ہے۔۔۔ جس سرزمین سے کہ تم جیسا مرد پادشاہ اُٹھے، کیا وہاں کوئی شخص رُستم بن زال کے بارے میں گُفتار کرے [گا]؟
× سام = رُستم کا دادا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان مسعود بن سُلطان محمود غزنوی» کی سِتائش میں دو ابیات:
به هر جنگ اندر نخُستین تو کردی
زمین را ز خونِ مُعادی مُعَصفَر
بسا تیغِ هندی که تو لعل کردی
به هندوستان اندر از خونِ کافَر

(فرُّخی سیستانی)
ہر جنگ کے اندر اوّلاً تم [ہی] نے زمین کو عدُو کے خون سے زَعفَرانی کیا۔
کتنی ہی ہِندی تیغوں کو تم نے ہِندوستان کے اندر کافر کے خون سے لعل (یعنی سُرخ) کر دیا!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان مسعود بن سُلطان محمود غزنوی» کی سِتائش میں ایک بیت:
تو ای شاه این‌جا و سهمِ سِنانت
ز دُشمن همی جان سِتاند به خاور

(فرُّخی سیستانی)
اے شاہ! تم یہاں ہو، لیکن تمہارے نیزے کا خَوف و ہَراس [تم سے دُور] سَمتِ مغرب/مشرق میں [تمہارے] دُشمن کی جان لے رہا ہے۔ (یعنی دُشمن کی جان لینے کے لیے تمہیں کسی سَمت حرَکت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، تمہارے نیزے کا خَوف کافی ہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تاجکستانی شاعر «لائق شیر‌علی» اپنی نظم «مِنبرِ کامّونیزْم» کے آخری بند میں اشتراکیت کو مُخاطَب کر کے اُس کی مذمّت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"من نمی‌دانم چه دُشنامت دِهم،

گُویمَت این نُکتهٔ باریک را -
بیش از این کاری نکردی در جهان:
خوار کردی مِلّتِ تاجیک را..."
(لائق شیر‌علی)
میں نہیں جانتا کہ تم کو کیا دُشنام دوں،
میں تم سے [فقط] یہ نُکتۂ باریک کہوں گا -
تم نے دُنیا میں اِس کے علاوہ کوئی کام نہ کیا:
[کہ] تم نے مِلّتِ تاجِک کو ذلیل و زبُون کر دیا۔۔۔

۱۲/۰۷/۱۹۹۱
 

حسان خان

لائبریرین
تاجکستانی شاعر «لائق شیر‌علی» کی نظم «قِیامت» سے ایک اقتباس:

"در میانِ این همه درد و بلا

چون توان کرد آرزویِ بختِ رنگین؟
چون توان کرد آرزویِ عُمرِ شیرین؟
چون توان کرد آرزویِ روزگارِ چون شَکَر؟
چون توان کرد آرزویِ قهرَمانِ صف‌شِکن؟
چون توان کرد آرزویِ رُستمِ دستانِ دیگر؟"
(لائق شیرعلی)
۱۹۹۰ء

اِس سب درد و مُصیبت کے درمیان
بختِ رنگیں کی آرزو کیسے کی جا سکتی ہے؟
عُمرِ شیریں کی آرزو کیسے کی جا سکتی ہے؟
شَکَر جیسے زمانے کی آرزو کیسے کی جا سکتی ہے؟
[کسی] قہرَمانِ صف‌شِکن کی آرزو کیسے کی جا سکتی ہے؟
کسی دیگر «رُستم بن دستان» کی آرزو کیسے کی جا سکتی ہے؟

× قہرَمانِ = ہِیرو
 
آخری تدوین:
Top