حسان خان

لائبریرین
«امیر ابوجعفر احمد بن محمد صفّاری»‌ کی مدح میں کہے گئے قصیدے سے ایک بیت:
حُجّتِ یکتا خُدای و سایهٔ اویست
طاعتِ او کرده واجب آیتِ فُرقان

(رودکی سمرقندی)
وہ خُدائے یکتا کی حُجّت اور اُس کا سایہ ہے۔۔۔ اُس کی طاعت [قُرآنِ] فُرقان کی آیت نے واجب کر دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«امیر ابوجعفر احمد بن محمد صفّاری»‌ کی مدح میں کہے گئے قصیدے سے ایک بیت:
با دو کفِ او ز بس عطا که بِبخشد
خوار نماید حدیث و قِصّهٔ طوفان

(رودکی سمرقندی)
وہ اپنے دو دستِ [سخی] سے اِتنی زیادہ عطائیں بخشتا ہے کہ [اُس کے پیش میں] طُوفانِ [نوح] کی حِکایت و قِصّہ حقیر نظر آتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
یوسف‌رُویی، کز او فغان کرد دلم
چون دستِ زنانِ مِصریان کرد دلم
زآغاز به بوسه مِهربان کرد دلم
اِمروز نشانهٔ غمان کرد دلم

(قطران تبریزی)
ایک [محبوبِ] یوسُف‌رُو نے، کہ جس کے باعث میرے دل نے فغاں کی، میرے دل کو مِصری عورتوں کے دستِ [بُریدہ] جیسا کر دیا۔۔۔ اُس نے اِبتدائاً بوسے کے ذریعے میرے دل کو پُرمحبّت کیا۔۔۔ [لیکن] اِمروز میرے دل کو غم کا نشانہ و ہدف کر دیا۔۔۔

× مندرجۂ بالا رُباعی «رودکی سمرقندی» سے بھی منسوب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تاجکستانی شاعر «میرزا تورسون‌زاده» منظوم داستان «جانِ شیرین» میں ایک جا اپنی زَوجہ سے کہتے ہیں:
سعْی بِنْما، تا نبیند نسلِ ما
بعد از این منحوس رُویِ جنگ را.
سعْی کُن، فرزندها عالِم شوند،
بر همه سیّاره‌ها حاکِم شوند،
خنده و ایجادکاری‌ها کنند،
خلق را اعجازِ نو سَوغا کنند.

(میرزا تورسون‌زاده)
کوشش کرو، کہ [اب] اِس کے بعد ہماری نسل جنگ کا منحوس چہرہ نہ دیکھے۔۔۔ کوشش کرو، کہ [ہمارے] فرزندان عالِم بن جائیں، اور تمام سیّاروں پر حاکِم ہو جائیں، اور خندہ و ایجادکاریاں کریں، اور مردُم کو [کوئی] مُعجِزۂ نَو تُحفہ کریں۔۔۔
× خندہ = ہنسی
 

حسان خان

لائبریرین
«محمد بن سُلطان محمود غزنوی» کی مدح میں ایک بیت:
با علی خیزد هر کز تو بِیاموزد علم
با عُمَر خیزد هر کز تو بِیاموزد داد
(فرُّخی سیستانی)

جو بھی [شخص] تم سے عِلم سیکھے، وہ [بہ روزِ محشر] حضرتِ علی کے ساتھ اُٹھے گا۔۔۔ جو بھی [شخص] تم سے عدل و اِنصاف سیکھے، وہ [بہ روزِ‌ محشر] حضرتِ عُمَر کے ساتھ اُٹھے گا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنَوی» کے پدر «ناصرالدین سبُکتَگین» تُرک تھے، لیکن خود «سُلطان محمود» کی پروَرِش ایک کاملاً فارسی ماحول اور خِطّے میں ہوئی تھی، اور وہ سر سے پا تک فارسی زبان و ثقافت میں رنگے ہوئے تھے، اور عملاً ہر لحاظ سے 'عجَمی' تھے۔ میرا گُمان ہے کہ اُن کے جُملہ فارسی‌گو درباریان و مُصاحبان بھی اُن کو، اِمروز کی قوم‌پرستانہ اصطلاح میں، کوئی "بیرونی و بیگانہ غاصِب" سمجھنے کی بجائے خود ہی میں سے شُمار کرتے تھے اور 'شاہانِ عجم' کا وارث سمجھتے تھے۔ اِس کی تائید جنابِ «فرُّخی سیستانی» کی مندرجۂ ذیل بیت، کہ جو «سُلطان محمود غزنوی» کی مدح میں کہے ایک قصیدے کا مطلع ہے، سے ہوتی ہے کہ جس میں شاعر نے اپنے ممدوح کو صراحتاً «شاہِ عجم» کے طور پر یاد کیا ہے:
عیدِ عرب گُشاد به فرخُندگی عَلَم
فرخُنده باد عیدِ عرب بر شهِ عجم

(فرُّخی سیستانی)
عیدِ عرب (عیدِ فِطر) فرخُندگی کے ساتھ [اپنا] پرچم کھول کر [ظاہر ہو گئی]۔۔۔ شاہِ عجم کو عیدِ عرب فرخُندہ و مُبارک ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
سلجوقی دَور کے شاعر «انوَری ابیوَردی» کسی «لالابک» نامی ممدوح کی مدح میں کہتے ہیں:
جُود را پروَریده هِمّتِ تو
راست چونان که طِفل را دایه

(انوَری ابیوَردی)
تمہاری سخاوت و بُلندطبعی نے جُود و سخا کی پروَرش کی [اور نشْو و نما کروائی] ہے
بالکل ویسے ہی جیسے دایہ طِفل کی [پرورِش کرتی ہے]
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گُفتم: نِهان شوی تو چرا از من ای پری
گُفتا: پری همیشه بُوَد ز آدمی نِهان

(فرُّخی سیستانی)
میں نے کہا: "اے پری! تم کس لیے مجھ سے مخفی ہو جاتی ہو؟"۔۔۔ اُس نے کہا: "پری اِنسان سے ہمیشہ مخفی ہوتی ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمّد بن سُلطان محمود غزنوی» کی مدح میں کہے جنابِ «فرُّخی سیستانی» کے ایک ہُنرمندانہ قصیدے سے اخذکردہ مندرجۂ ذیل اقتباس میں مُلاحظہ کیجیے کہ قصیدے کے حِصّۂ گُریز میں شاعر محبوبِ خود سے مُکالمہ کرتے کرتے کیسے زیبائی کے ساتھ پادشاہ کی مدح کی جانب مُنتَقِل ہو رہے ہیں:

"گُفتم مرا فراقِ تو ای دوست پِیر کرد

گُفتا به مدحتِ شهِ گیتی شوی جوان
گُفتم کُدام شاه؟ نشان دِه مرا بدو
گُفتا خُجسته‌پَی پِسرِ خُسرَوِ زمان
گُفتم ملِک محمّدِ محمودِ کام‌کار
گُفتا ملِک محمّدِ محمودِ کام‌ران
گُفتم مرا به خدمتِ او ره‌نمای کیست
گُفتا ضمیرِ روشن و طبع و دل و زبان"
(فرُّخی سیستانی)

میں نے کہا: "اے یار! تمہارے فراق نے مجھ کو پِیر کر دیا ہے"۔۔۔ اُس نے کہا: "تم شاہِ گِیتی کی مدح سے جوان ہو جاؤ گے"۔۔۔ میں نے کہا: "کون سا شاہ؟ مجھے اُس کی جانب [کوئی] سُراغ دو"۔۔۔ اُس نے کہا: "[وہ شاہ کہ جو] مُبارک‌قدم [اور] پِسَرِ خُسرَوِ زمان [ہے]"۔۔۔ میں نے کہا: "پادشاہ محمّد بن محمودِ کام‌روا؟" اُس نے کہا: "پادشاہ محمّد بن محمودِ کام‌ران"۔۔۔ میں نے کہا: "اُس کی خدمت [کرنے] کی جانب میرا راہ‌نما کون ہے؟"۔۔۔ اُس نے کہا: "[تمہارا] ضمیرِ روشن و طبع و دل و زبان"۔۔۔

× پِیر = بوڑھا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر که از علمِ دین نشد آگاه
در بیابانِ جهل شد گم‌راه

(سنایی غزنوی)
جو بھی شخص علمِ دین سے آگاہ نہ ہوا، وہ بیابانِ جہل میں گُمراہ ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
"گِریه دارد، دوستم، از گِریه فرق،
تلخ باشد گِریهٔ فرزندِ شرق.
عصرها بِگْریست شرقی زار-زار،
شرق شد از گِریهٔ آن شوره‌زار."

(میرزا تورسون‌زاده)
اے میرے دوست! تمام گِریے ایک جیسے نہیں ہوتے، بلکہ گِریوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔۔۔ فرزندِ «شرق» کا گِریہ تلخ ہوتا ہے۔۔۔ «شرقی» [اِنسان] زمانوں زار-زار رویا [ہے]۔۔۔ اُس کے گِریے سے «شرق» شُورہ‌زار [میں تبدیل] ہو گیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تا دمی که ظالم و مظلوم هست،
کس نباید لحظه‌ای بی‌غم نِشَست.

(میرزا تورسون‌زاده)
جس لمحے تک [دُنیا میں] ظالم و مظلوم موجود ہے، کسی [بھی] شخص کو کسی [بھی] لمحہ بے‌غم نہیں بیٹھنا چاہیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خوشا دردی که درمانش تو باشی
خوشا راهی که پایانش تو باشی

(فخرالدین عراقی)
خوشا وہ درد کہ جس کی دوا تم ہوؤ!۔۔۔ خوشا وہ راہ کہ جس کا اِختِتام تم ہوؤ!۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ شہرِ کج کلاہاں آدمی را
خبر از حالِ زارِ آدمی نیست

قتیل لاہوری

کج کلاہوں (مغرور لوگوں) کے شہر میں (جہاں ہر کوئی اپنی ظاہری انا پرستی اور خود بینی میں مبتلا ہے)، کسی آدمی کو کسی دوسرے آدمی کے حالِ زار کی کوئی خبر نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گُذشتہ ادوار میں مُنَجِّمان «سیّارۂ زُحَل» کو منحوس جانتے تھے اور اُس کو «نحسِ اکبر» پُکارتے تھے۔ «امیر ابوجعفر احمد بن محمد صفّاری»‌ کی مدح میں کہی ایک بیت میں «رُودَکی سمرقندی» اُس باورِ قدیمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ور سُخنِ او رسد به گوشِ تو یک راه
سعد شود مر تُرا نُحوستِ کَیوان

(رودکی سمرقندی)
اور اگر اُس (پادشاہ) کا سُخن ایک بار تمہارے کان میں پہنچ جائے تو زُحَل کی نُحوست [تبدیل ہو کر] تمہارے لیے مُبارک ہو جائے!
 

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمد بن سُلطان محمود غزنوی» کی مدح میں ایک بیت:
ای به تو آباد عدلِ عُمّرِ خطّاب
وی ز تو برپای عِلمِ حیدرِ کرّار
(فرُّخی سیستانی)

اے کہ تمہارے ذریعے حضرتِ عُمَرِ خطّاب کا عدل سالِم و بارَونق و آباد ہے۔۔۔۔ اور اے کہ تمہارے باعث حضرتِ حَیدرِ کرّار کا عِلم برپا و قائم ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که یک ره سُویِ من بیند، فراموشم کند
طاقِ نِسیان است گویا گوشهٔ ابرویِ من

(سیِّدا نسَفی)
جو بھی شخص ایک بار میری جانب دیکھتا ہے، مجھ کو فراموش کر دیتا ہے۔۔۔ گویا میرے ابرو کا گوشہ [گوشۂ ابرو نہیں، بلکہ] طاقِ نِسیاں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«بُت‌خانۂ سومنات» کی فتح کے ذِکر میں، اور «سُلطان محمود غزنوی» کی مدح میں کہے گئے ایک قصیدے سے چند ابیات:
خُدایگان را اندر جهان دو حاجت بود
همیشه این دو همی‌خواست ز ایزدِ داور
یکی که جایگهِ حجِّ هِندوان بِکَنَد
دگر که حج کند و بوسه بردِهد به حجَر
یکی از آن دو مُرادِ بزرگ حاصل کرد
دگر به عَونِ خُدایِ بزرگ کرده شُمَر
خراب کردنِ بُت‌خانه خُرد کار نبود
بدانچه کرده بِیابد ملِک ثواب و ثمر

(فرُّخی سیستانی)
پادشاہ کو دُنیا میں دو حاجتیں تھیں، اور وہ ہمیشہ خُدائے داور سے اِن دو [حاجتوں] کی خواہش و آرزو کرتا تھا۔۔۔ ایک یہ کہ وہ ہِندوؤں کے حج کی جگہ کو نابود و ویران کر دے، اور دیگر یہ ہے کہ وہ حج کرے اور سنگِ اسوَد پر بوسہ دے۔۔۔ اُن دو بُزُرگ مُرادوں میں سے ایک تو اُس نے حاصل کر لی، اور [مُراد]ِ دیگر کو [بھی] خُدائے بُزُرگ کی مدد و مُساعدت سے انجام‌دادہ شُمار کرو!۔۔۔۔ بُت‌خانے کو مخروب و تباہ کرنا کوئی کارِ کُوچَک نہ تھا۔۔۔۔ پادشاہ نے جو کار کیا ہے، اُس کے عِوَض میں وہ ثواب و ثمر پائے گا۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنوی» کے برادر «امیر ابویعقوب یوسف سِپاه‌سالار» کی مدح میں ایک بیت:
از فراوان طَوفِ سایل گِردِ قصرت روز و شب

قصرِ تو نشْناسد ای خُسرَو کس از بیتُ‌الحرام
(فرُّخی سیستانی)
اے شاہ! تمہارے قصر کے گِرد روز و شب سائلوں کے طواف کی فراوانی کے باعث کوئی شخص تمہارے قصر اور بَیتُ‌الحرام کے درمیان فرق نہیں کر پاتا۔
 
آخری تدوین:
Top