حسان خان

لائبریرین
فارسی شاعری میں معشوق کے «ابرو» کو عُموماً «ہِلال» کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ نیز، یہ چیز بھی آپ جانتے ہیں کہ «ہِلال» فقط قمری ماہ کی شبِ اوّل میں نظر آتا اور آب میں عکس ڈالتا ہے۔۔۔ اب دیکھیے کہ سرزمینِ «کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر «مُحسِن فانی کشمیری» ایک بیت میں مضمون‌آفرینی کرتے ہوئے کیا کہتے ہیں:

به یادِ ابرویِ او گِریه کم کن ای فانی
که این هِلال به هر شب در آب نتْوان دید

(مُحسِن فانی کشمیری)

اے «فانی»! اُس [محبوب] کے ابرو کی یاد میں گِریہ کم‌تر کرو۔۔۔ کیونکہ یہ ہِلال ہر شب آب میں نہیں دیکھا جا سکتا۔۔۔۔

========

«کشمیریوں» اور «کشمیری» فارسی‌گو شاعروں پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
اگر ہم کہیں کہ "ایسی سخاوت «حاتمِ طائی» میں بھی نہ ہو گی" تو اِس کا معنی یہ ہے کہ ہم «حاتمِ طائی» کو واقعی سخاوت کا نمونہ جانتے ہیں اور مُبالغہ کرتے ہوئے خود کے ممدوح کو «حاتمِ طائی» سے افزُوں‌تر سخی بتا رہے ہیں۔۔۔ اِسی طرح، اگر جنابِ «سعدی شیرازی» ایک مصرعے میں کہہ دیں کہ "اِس کمال کے ساتھ حُسن «کشمیر» میں بھی نہ مِلے گا" تو یہی فہم ہونا چاہیے کہ جنابِ «سعدی» کی نظروں میں کِشوَرِ «کشمیر» جمیل و زیبا مردُم کا دِیار تھا، تبھی وہ اپنے محبوب کو «کشمیریوں» سے بھی زیادہ صاحبِ حُسن بتا رہے ہیں۔ وہ ایک بیت میں اپنے معشوقِ زیبا کی سِتائش میں کہتے ہیں:

بدین کمال ندارند حُسن در کشمیر
چُنین بلیغ ندانند سِحر در بابِل
(سعدی شیرازی)


ایسا باکمال حُسن «کشمیر» میں [بھی] مردُم نہیں رکھتے۔۔۔۔ ایسی بلیغ ساحری «بابِل» میں [بھی] مردُم نہیں جانتے۔۔۔۔

===========

«کشمیر» اور «کشمیریوں» پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
تیموری پادشاہ «نورالدین جهان‌گیر» کے ملِک‌الشُعَراء جنابِ «طالب آمُلی» کے نزدیک «کشمیریوں» کے مِلّی وطن «کشمیر» کی یہ منزلت تھی کہ وہ یہ بھی ہرگز روا نہیں سمجھتے تھے کہ شِیر و شکَر سے دہن کو دھوئے بغیر سرزمینِ «کشمیر» کی توصیف کا آغاز کیا جائے۔ وہ ایک بیت میں کہتے ہیں:

چو وصفِ گُلشنِ کشمیر می‌کنم فرض است
که شُویم این دهنِ تلخ را به شکّر و شِیر
(طالب آمُلی)


جب میں «گُلشنِ کشمیر» کی تَوصیف کرتا ہوں تو فرض ہے کہ [اوّلاً] اِس دہنِ تلخ کو شکَر و شِیر سے دھوؤں!

===========

«کشمیریوں» کے، اور فقط «کشمیریوں» کے، مِلّی وطن «کشمیر» پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
سروِ قدِ تو در نظرم بود جِلوه‌گر
روزی که شد به حَرفِ الِف آشنا لبم
(بینِش کشمیری)

[اے یار!] جس روز کہ میرا لب حَرفِ «الِف» سے آشنا ہوا، [اُس روز] میری نظر میں تمہارا سرْو [جیسا] قد جلوہ‌گر تھا۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مخفی بقدرِ طاعتِ ما گر عطا دہند
در روزِ حشر رحمتِ پروردگار چیست

زیب النسا مخفی

اے مخفی، ہماری اطاعت کے مطابق ہی اگر عطا کرتے ہیں تو پھر حشر کے دن پروردگار کی رحمت کیا چیز ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
خبردار کرتا چلوں کہ مندرجۂ ذیل مُراسلہ ۱۸ سال سے زائد عُمر رکھنے والوں کے لیے ہے۔ اور اگر کسی کو یہ مُراسلہ ناپسندیدہ محسوس ہو تو میں پیشگی معذرت‌خواہ ہوں۔

امّا بعد، مردانہ عُضوِ تناسُل کو زبانِ فارسی میں «کِیر» کہتے ہیں (اور یہ لفظ قدیم اُردو کتابوں میں بھی بہ کثرت استعمال ہوا ہے)۔۔۔ جبکہ فارسی میں «مُخَنّث» عموماً ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے کہ جس کی مردانہ جِنسی قُوّت ساقِط ہو گئی ہو اور جو جِماع پر قادر نہ ہو، یعنی بہ الفاظِ دیگر "وہ شخص کہ جو کِیر سے یا قُوّتِ کِیر سے محروم ہو یا ہو گیا ہو"۔۔۔۔ مُلاحظہ کیجیے کہ ایک فارسی شاعر «فَوقی یزدی» کی گُلشنِ «کشمیر» اور چمنِ «کابُل» سے جُدا ہو جانے کے بعد کیسی حالت ہو گئی ہے اور اُنہوں نے اِس جُدائی کے کرب کو کس طرح بیان کیا ہے:

تا شُدم از چمنِ کابُل و کشمیر جُدا
آن‌چُنانم که مُخنّث شود از کِیر جُدا

(فَوقی یزدی)

جب سے میں چمنِ «کابُل» اور [گُلشنِ] «کشمیر» سے جُدا ہوا ہوں، میری [حالت] ایسی ہے کہ [گویا کوئی] مُخنّث کِیر سے جُدا ہو گیا ہو۔
(یعنی جیسا غم و اندوہ کسی مُخنّث کو اپنے قیمتی کِیر سے جُدا ہونے پر محسوس ہوتا ہے، وہی غم و کرب میں کابُل و کشمیر سے جُدا ہو جانے کے باعث محسوس کر رہا ہوں۔)

=================

کِشوَرِ «کشمیر» میرے دِل میں ہے اور ہرگز نہیں نِکلے گا۔۔۔ وہاں کے تمام مردُم دو ہفتوں سے (نہیں، بلکہ سات دہائیوں سے) ایک زندان میں محبوس ہیں اور اُن کے اجنبی و سِتم‌گار و غاصِب دُشمن نے حتّیٰ اُن کی زبانیں خاموش کر دی ہیں۔۔۔ اُس وقت سے کوئی لمحہ ایسا نہیں گُذرا کہ جب میرا دل «کشمیریوں» اور اُن کے مِلّی وطن «کشمیر» کے لیے نہ دھڑکا ہو۔ اور اُن کے لیے محبّت و احترام کا اظہار میں مُسلسَل کرتا آ رہا ہوں۔۔۔ اُسی طرح شہرِ «کابُل» بھی میرے وطنِ فارسی کا ایک اہم شہر ہے۔۔۔ «کابُل» کی شادمانی بھی میری شادمانی، اور «کابُل» کا غم بھی میرا غم ہے۔۔۔۔ دِیروز «کابُل» بھی دوبارہ ایک اندو‌ہ‌ناک المیے سے گُذرا ہے، اور ۶۰ سے زائد بے‌گُناہ جانیں لُقمۂ اجل بنی ہیں۔ آئیے، ہم اپنی دُعاؤں اور آرزوؤں میں شہرِ «کابُل» اور مردُمِ «کابُل» کو بھی یاد رکھیں، اور ایزد سے دُعا کریں کہ شہرِ «کابُل» بھی دوبارہ وہ شہر بن جائے کہ جس کو جنابِ «صائب تبریزی» نے «عِشرت‌سرایِ کابُل» کہہ کر یاد کیا تھا۔ آمین!
 

حسان خان

لائبریرین
لامِ قدِ من با الفِ قدِّ تو لا شد
یعنی که وُجودم به وصالِ تو فنا شد
(ملِک شهید لاله کشمیری)


میرا «لام» [جیسا خمیدہ] قد تمہارے «الِف» [جیسے راست] قد کے ساتھ [مِل کر] «لا» ہو گیا۔۔۔ یعنی کہ میرا وُجود تمہارے وصال کے ذریعے سے فنا ہو گیا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر آن که کُشتهٔ تیرِ نگاهِ او گردید
نه شُبهه‌ای‌ست که آن کس شهیدِ اکبر شد
(عایشه دُرّانی)


جو بھی شخص اُس کی نگاہ کے تِیر کا کُشتہ ہو گیا۔۔۔ کوئی شُبہہ نہیں کہ وہ شخص شہیدِ اکبر ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
زکاتِ حُسنِ شریفت به مُستَحَق صنما
بِدِه که خَیر به مِسکین ثواب می‌باشد
(عایشه دُرّانی)


اے صنم! مُستَحَق کو اپنے حُسنِ باشرَف کی زکات دو، کیونکہ مِسکین کے ساتھ کارِ خَیر کرنا ثواب ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گشت عُمری که به جَور و سِتمت ساخته‌ایم
گر نسازی تو به ما، ما به غمت ساخته‌ایم

(بینِش کشمیری)

[اے یار!] ایک عُمر ہو گئی کہ ہم نے تمہارے جَور و سِتم کے ساتھ سازگاری کر لی ہے۔۔۔۔ خواہ تم ہمارے ساتھ سازگاری نہیں کرتے، [لیکن] ہم نے تو تمہارے غم کے ساتھ سازگاری کر لی ہے۔۔۔

=============

مردُمِ «کشمیر» فقط اپنے معشوقوں کے جَور و سِتم کے ساتھ سازگاری کرتے ہیں۔۔۔ «کشمیر» و «کشمیریوں» کے اجنبی و غاصِب دُشمن کے جَور و سِتم کے ساتھ سازگاری نہ اُنہوں نے تا حال کی ہے، نہ آئندہ کریں گے۔ :in-love:
 

حسان خان

لائبریرین
گشت عُمری که به جَور و سِتمت ساخته‌ایم
گر نسازی تو به ما، ما به غمت ساخته‌ایم

(بینِش کشمیری)

[اے یار!] ایک عُمر ہو گئی کہ ہم نے تمہارے جَور و سِتم کے ساتھ سازگاری کر لی ہے۔۔۔۔ خواہ تم ہمارے ساتھ سازگاری نہیں کرتے، [لیکن] ہم نے تو تمہارے غم کے ساتھ سازگاری کر لی ہے۔۔۔

=============

مردُمِ «کشمیر» فقط اپنے معشوقوں کے جَور و سِتم کے ساتھ سازگاری کرتے ہیں۔۔۔ «کشمیر» و «کشمیریوں» کے اجنبی و غاصِب دُشمن کے جَور و سِتم کے ساتھ سازگاری نہ اُنہوں نے تا حال کی ہے، نہ آئندہ کریں گے۔ :in-love:
اِس دھاگے میں یہ میرا پانچ ہزارواں مُراسلہ تھا۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
نِشسته عکسِ جمالت چُنان به خانهٔ چشم
که کسبِ نور کند مِهر زآشیانهٔ چشم

(اَوجی کشمیری)
تمہارے جمال کا عکس [میرے] خانۂ چشم میں اِس طرح بیٹھ گیا ہے کہ خورشید [میرے] آشیانۂ چشم سے اِکتِسابِ نُور کرتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شُدم خاک اگر از جفایش، مباد
نشیند بہ دامانِ اُو گردِ من


ہاتف اصفہانی

اگر میں اُس کی جفاؤں کی وجہ سے خاک ہو گیا ہوں تو اللہ نہ کرے کہ میری گرد اُس کے دامن پر بیٹھے۔

دُور بیٹھا غبارِ میر اُس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
(میر تقی میر)
 

حسان خان

لائبریرین
ز حَرفِ مِهر فِریبم مدِه که می‌دانم
به‌جُز جفا ز تو کارِ دِگر نمی‌آید

(هاشم کشمیری)

محبّت کے حَرف (بات) سے مجھ کو فِریب مت دو، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری [ذات] سے جفا کے بجُز [کوئی] کارِ دیگر وُقوع میں نہیں آتا/نہیں آئے گا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
کلاسیکی فارسی-تُرکی شاعری میں عُموماً عاشق کو معشوق کے عشق و حسرت کے باعث داغ‌دار دِکھایا جاتا ہے اور یہ تصوُّر کیا جاتا ہے کہ اُن داغ‌ہائے جُنون و حسرت نے عاشق کے بدن کو پُر کر دیا ہے، اور لہٰذا عاشق نے اب اُن کو مُندَمِل کرنے کے لیے اُن پر مرہم لِگا کر اُن پر رُوئیاں رکھی ہوئی ہوئی ہے، اور رُوئیوں نے بھی اُس عاشقِ زار و مجروح و خستہ‌حال کے بدن کو ڈھانپ دیا ہے۔

«ابوطالب کلیم کاشانی» نے مُلکِ «کشمیر» کی سِتائش میں کہی ایک بیت میں آسمان پر موجود ابر کو رُوئی سے تشبیہ دی ہے، اور صنعتِ حُسنِ تعلیل استعمال کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ابر کی رُوئی نے آسمان کو اِس لیے کُلّاً ڈھانپ دیا ہے کیونکہ آسمان بھی ایک عاشق ہے اور سرزمینِ «کشمیر» سے عشق کرتا ہے، جس کی وجہ سے اُس کا بدن از سر تا پا داغوں اور رُوئیوں سے پُر ہو گیا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ «کشمیر» میں آسمان اکثر ابر‌آلود رہتا ہے۔

مندرجۂ ذیل بیت میں نے اپنے مُحترم دوست «محمّد ریحان قُریشی» - جو خود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری ہیں - کی فیس‌بُک دیوار پر دیکھی تھی اور اِس بیت کا اردو ترجمہ بھی اُن ہی کا ہے۔


به زیرِ پنبهٔ ابر آسمان از آن گُم شُد
که پای تا به سرش داغ‌دارِ کشمیر است
(ابوطالب کلیم کاشانی)


آسمان بادل کی روئی تلے اس لیے گم ہو گیا کیونکہ وہ سر تا پا کشمیر کے لیے داغدار ہے۔

==========

دیارِ «کشمیر» پر بھی سلام ہو! اور «کلیم کاشانی» پر بھی سلام ہو کہ جنہوں نے اِس مہارت و زیبائی کے ساتھ «کشمیر» کی سِتائش کی ہے!
 

حسان خان

لائبریرین
خِضر هر چند زندهٔ ابد است
کُشتهٔ چشمه‌سارِ کشمیر است
(محمد رِضا مُشتاق کشمیری)


«خِضر» اگرچہ زندۂ جاوید ہے، [لیکن] وہ چشمہ‌سارِ «کشمیر» کا کُشتہ ہے۔
(یعنی چشمہ‌سارِ «کشمیر» کے عشق نے «خِضر» کو بھی مار ڈالا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
کِسی «حنیفه» نامی معشوق کے لیے تیموری پادشاہ «ظهیرالدین محمد بابُر» کی ایک فارسی رُباعی:

(رباعی)
خواهم که ‌حنیفه غم‌گُسارم باشد
درمان و دوایِ دلِ زارم باشد
هر روز و همه شب ز خُدا می‌خواهم
یعنی شب و روز در کنارم باشد
(ظهیرالدین محمد بابُر)


میں چاہتا ہوں کہ «حنیفه» میری غم‌گُسار ہو!۔۔۔ [اور] وہ میرے دلِ زار کا درمان و دوا ہو!۔۔۔۔ میں ہر روز و ہر شب خُدا سے چاہتا ہوں کہ وہ شب و روز میرے پہلو میں ہو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«چِترال» کے ایک فارسی شاعر «میرزا محمد سِیَر» کی ایک بیت:

آوازهٔ عنقا به جهان است ز عُزلت
بِگْذر تو ز آوازه و بی‌نام [و] نشان باش

(میرزا محمد سِیَر)

دُنیا میں «عنقا» کی شُہرت گوشہ‌نِشینی و خلوَت کے باعث ہے۔۔۔ [لہٰذا] تم [بھی] شُہرت کو تَرک کر دو اور بے نام و نِشان ہو جاؤ!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«چِترال» کے ایک فارسی شاعر «میرزا محمد سِیَر» کی ایک بیت:

کبوتر گر بِبیند نامهٔ سُرخِ فِراقم را
سفید از گریه می‌گردد چو نرگس چشمِ خُونینش

(میرزا محمد سِیَر)

اگر [نامہ‌بر] کبوتر میرے نامۂ سُرخِ فِراق کو دیکھ لے تو اُس کی چشمِ خُونیں (چشمِ سُرخ) گِریے سے نرگِس کی مانند سفید ہو جائے گی!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بیشتر شاعروں کی کوشش رہی ہے کہ وہ کسی دیگر شاعر کے اشعار سے مضامینِ شعری اخذ کرنے کی بجائے خود تازہ‌گوئی کرتے ہوئے نئے مضامین و معانی خَلق کریں۔ «کشمیری» شاعر جنابِ «غنی کشمیری» بھی ایسے ہی خیالات کے مالِک ہیں، اور اُن کا اِدّعا ہے کہ وہ اپنی نازُک‌طبعی کے باعث کسی بھی شخص کے اشعار سے مضمونِ شعری نہیں لیتے:

برنداریم ز اشعارِ کسی مضمون را
طبعِ نازُک نتواند سُخنِ کس برداشت

(غنی کشمیری)

ہم کِسی [دیگر] کے اشعار سے مضمون نہیں اُٹھاتے۔۔۔ طبعِ نازُک کِسی شخص کا سُخن نہیں اُٹھا سکتی۔
 
Top